صدر ٹرمپ کی اعلان کردہ ’گولڈ کارڈ‘ سکیم کیا ہے جس کے تحت امریکی شہریت حاصل کی جا سکتی ہے

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غیرملکیوں کے لیے رہائشی پرمٹس کے لیے ویزا گولڈ کارڈ کی فروخت کا اعلان کیا ہے جس کی قیمت پچاس لاکھ ڈالر رکھی گئی ہے اور اس پروگرام کے ذریعے شہریت حاصل کرنے کا راستہ بھی موجود ہو گا۔
 visa golden
Getty Images
صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ یہ ویزا سکیم ’ایک انتہائی کامیاب اقدام ہو گا‘

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ وہ غیرملکیوں کو ملک میں مستقل رہائش دینے کے لیے ’گولڈ کارڈ‘ ویزہ سکیم متعارف کروانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

اس سکیم کے تحت دولت مند غیرملکی افراد امریکی شہریت بھی حاصل کر سکیں گے۔ منگل کو اوول آفس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا تھا کہ ’وہ (غیر ملکی شہری) یہاں مزید دولت مند اور کامیاب ہوں گے۔ وہ یہاں بہت سارا پیسہ خرچ کریں گے، بہت سارا ٹیکس بھریں گے اور بہت سارے لوگوں کو ملازمتیں دیں گے۔‘

انھوں نے اپنی ویزہ سکیم کے بارے میں کہا کہ ’یہ ایک انتہائی کامیاب اقدام ہو گا۔‘

یہ ویزہ امریکہ کے موجودہ ’ای بی فائیو‘ سرمایہ کاری ویزہ سے مختلف ہو گا جسے ٹرمپ انتظامیہ کے کامرس سیکریٹری کی جانب سے ’فراڈ‘ اور ’بے معنی‘ قرار دیا تھا۔

’ای بی فائیو‘ ویزا پروگرام کیا ہے اور ٹرمپ اسے ختم کیوں کر رہے ہیں؟

trump
Getty Images
'ای بی فائیو پروگرام بے معنی اور فراڈ ہے‘

سنہ 1990 میں ’ای بی فائیو‘ ویزا ایسے غیرملکیوں کے لیے شروع کیا گیا تھا جو کسی ایسی کمپنی میں 10 لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کریں جن میں کم از کم 10 ملازمین کو ملازمت فراہم کی جائے۔ ایسے افراد کو اس کے بدلے فوری طور پر گرین کارڈ مل جاتا ہے۔ عام طور پر گرین کارڈز کے خواہش مند افراد کو مستقل رہائش حاصل کرنے کے لیے کئی کئی سال کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔

امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق ’ای بی فائیو‘ پروگرام کے تحت ہر سال 10 ہزار امریکی ویزے جاری کیے جاتے تھے جن میں سے تین ہزار ویزے ایسے افراد کے لیے تھے جو ایسے شعبوں میں کام کر رہے تھے جن میں نوکریاں کم ہیں۔

امریکی سٹیزن شپ اینڈ امیگریشن سروس کا کہنا ہے کہ ای بی فائیو ویزا کا مقصد ’امریکی معیشت کو نوکریوں میں اضافے اور سرمایہ کاری کے لیے استعمال کرنا ہے۔‘

تاہم ٹرمپ کے کامرس سیکریٹری ہاورڈ لٹنک کا ماننا ہے کہ ’اس پروگرام کا استحصال کیا جا رہا ہے اور یہ مراعات (امریکی شہریت) بہت کم قیمت کے عوض دی جا رہی ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’ای بی فائیو پروگرام بے معنی اور فراڈ ہے اور اس کے ذریعے کم قیمت پر گرین کارڈ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے صدر نے اس بے مقصد کارڈ کی جگہ ای بی فائیو پروگرام ہی ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘

سنہ 2021 میں امریکی حکومت کے احتساب کے دفتر کو معلوم ہوا کہ ای بی فائیو ویزا پروگرام میں فراڈ کا خطرہ بہت زیادہ ہے کیونکہ امیدوار کی جانب سے فنڈز کہاں سے بھیجے گئے ہیں یہ جاننا بہت مشکل ہے اور اس پروگرام میں سرمایہ کے باعث طرف داری بھی کی جا سکتی ہے۔

نیا گولڈ ویزا کس کو مل سکتا ہے؟

US
Getty Images
ٹرمپ کا کہنا ہے کہ حکومت ایک کروڑ ویزے بیچ سکتی ہے تاکہ قومی خسارے میں کمی لائی جا سکے

ٹرمپ کے مطابق یہ اُن افراد کو مل سکتا ہے ’جن کے پاس کافی ڈالر ہیں۔‘ انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ آیا اس کے نتیجے نوکریوں میں اضافہ کرنے کی شرط ہو گی یا نہیں۔

تاہم ان کے کامرس سیکریٹری کے مطابق امیدواروں کو تصدیق کے مراحل سے گزرنا پڑے گا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ وہ ’بہترین ورلڈ کلاس گلوبل شہری ہیں۔‘

جب اُن سے پوچھا گیا کہ کیا امیر روسی شخصیات کو بھی یہ ویزا مل سکتا ہے تو ٹرمپ نے جواب دیا: ’ممکنہ طور پر۔ مجھے ایسی روسی کاروباری شخصیات (اولیگارکس) کا علم ہے جو بہت اچھے لوگ ہیں۔‘

اس پروگرام میں ملنے والے ویزوں کے حوالے سے کوئی حد متعین نہیں کی گئی اور ٹرمپ کا کہنا ہے کہ حکومت ایک کروڑ ویزے بیچ سکتی ہے تاکہ قومی خسارے میں کمی لائی جا سکے۔

یہ پروگرام ایک ایسے موقع پر متعارف کروایا جا رہا ہے جب ٹرمپ انتظامیہ غیرقانونی تارکین وطن کے خلاف سخت کریک ڈاؤن کر رہی ہے۔

گولڈ کارڈ کی قیمت کیا ہو گی اور اس کے نتیجے میں کیا مراعات ملیں گی؟

اس ویزا کی درخواست جمع کروانے کی فیس پچاس لاکھ ڈالر ہو گی۔ ٹرمپ کے مطابق ان کی انتظامیہ اس بارے میں مزید تفصیلات دو ہفتے بعد شائع کرے گی جب یہ ویزے فروخت ہونا شروع ہوں گے۔

گرین کارڈ رکھنے والے بشمول وہ جو ای بی فائیو پروگرام کے تحت یہ مراعات حاصل کر چکے ہیں انھیں امریکہ کے قانونی مستقل شہری کے طور پر پانچ سال تک امریکہ میں زندگی گزارنے کی اجازت ملتی ہے جس کے بعد وہ باقاعدہ شہریت کے لیےاہل ہو جاتے ہیں۔

تاحال یہ واضح نہیں ہے کہ آیا گولڈ کارڈ ویزا حاصل کرنے والوں اس ضمن میں کم انتظار کرنا پڑے گا یا نہیں۔

کیا دیگر ممالک بھی اس قسم کی ویزا آفرز دیتے ہیں؟

US
Getty Images

گولڈن ویزا دنیا بھر میں خاصے عام ہیں۔ برطانیہ، سپین اور یونان جیسے ممالک میں بھی یہ ویزا فروخت کیے جاتے ہیں اور کچھ ممالک جیسے مالٹا، مصر اور اردن میں تو آپ کو اس سرمایہ کاری کے عوض براہِ راست شہریت مل جاتی ہے۔

یہ ’گولڈن پاسپورٹ‘ پروگرامز کیریبیئن میں خاصے بھی موجود ہیں جہاں ڈومینیکا، گریناڈا، سینٹ کیٹس اور نیوس میں اس ویزا کی فیس دو سے تین لاکھ ڈالر تک رہی ہے۔

متحدہ عرب امارات میں گولڈن ویزا پروگرام کے تحت مجموعی طور پر 100 ارب درہم تک کی مالیت کی سرمایہ کاری کرنے والے 6800 سرمایہ کاروں کو ’گولڈن کارڈ‘ جاری کیا گیا ہے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ گولڈن کارڈ کا مقصد متحدہ عرب امارات میں سرمایہ کرنے والوں، بین الاقوامی اہمیت کی بڑی کمپنیون کے مالکان، اہم شعبے کے پیشہ وروں، سائنس کے میدان میں کام کرنے والوں محققوں اور باصلاحیت طلبہ کو متحدہ عرب امارات کی ترقی میں شامل اور متوجہ کرنا ہے۔

گولڈن ویزا متنازع کیوں ہیں؟

ماہرین کے مطابق عام طور پر گولڈن ویزا پروگرام اس لیے متنازع ہوتے ہیں کیونکہ ان کے ذریعے منی لانڈرنگ کی جا سکتی ہے یا فراڈ بھی کیا جا سکتا ہے۔ ان کی وجہ سے بڑے شہروں میں گھروں کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔

ان خدشات کے باعث متعدد یورپی ممالک جن میں برطانیہ، نیدرلینڈز اور یونان شامل ہیں نے گذشتہ چند سالوں کے دوران اپنے گولڈن ویزا پروگرام بند کر دیے تھے۔

آسٹریلیا کی جانب سے غیر ملکی تاجروں کے لیے گولڈن ویزا پالیسی کا آغاز کیا گیا تھا لیکن چونکہ نتائج اچھے نہیں آئے اس لیے امیگریشن پالیسی میں ترامیم کے بعد اسے منسوخ کر دیا گیا۔

پہلے ہی گولڈن ویزا کے ناقدین کا کہنا ہے کہ اس پالیسی کا استعمال بدعنوان اور سود پر رقم دینے والے لوگ کر رہے ہیں۔

آسٹریلیا کے گولڈن ویزے کے حصول کے لیے کسی غیر ملکی سرمایہ کار کو کم از کم 3.3 ملین ڈالر جو کہ تقریباً 27 کروڑ 44 لاکھ انڈین اور 50 کروڑ سے زیادہ پاکستانی روپے کے برابر ہے کی سرمایہ کاری درکار تھی۔

کئی تحقیقات کے بعد آسٹریلین حکومت نے محسوس کیا کہ یہ پالیسی اپنا مقصد حاصل نہیں کر پا رہی ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.