والد کے قریب سمجھے جانے والے مولانا حامد الحق کون تھے اور مدرسہ دارالعلوم حقانیہ کی سیاسی و مذہبی اہمیت کیا ہے؟

سیاسی و مذہبی جماعت جمعیت علما اسلام (س) گروپ کے 57 سالہ رہنما مولانا حامد الحق اپنی پارٹی کے سربراہ اور خیبر پحتونخوا کے ضلع نوشہرہ کے مدرسہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے نائب مہتمم تھے۔

پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع نوشہرہ میں مدرسہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں جمعے کو ہونے والے خودکش حملے میں مدرسے کے نائب مہتمم مولانا حامد الحق سمیت چھ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

آئی جی پولیس خیبر پختونخوا ذوالفقار حمید نے بی بی سی کو تصدیق کی ہے کہ ضلع نوشہرہ میں واقع دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک میں ہونے والے دھماکے میں مدرسے کے نائب مہتمم اور جے یو آئی (س) کے سربراہ مولانا حامد الحق سمیت چھ افراد ہلاک اور 12 افراد زخمی ہوئے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ دھماکہ جمعے کی نماز کے بعد ہوا اور حملہ آور کا ہدف جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) سمیع الحق گروپ کے سربراہ اور مدرسے کے نائب مہتمم مولانا حامد الحق تھے۔

واضح رہے کہ اب تک اس حملے کی ذمہ داری کسی شدت پسند تنظیم یا گروہ نے قبول نہیں کی ہے۔

مولانا حامد الحق کون تھے؟

سیاسی و مذہبی جماعت جمعیت علما اسلام (س) گروپ کے 57 سالہ رہنما مولانا حامد الحق اپنی پارٹی کے سربراہ اور خیبر پحتونخوا کے ضلع نوشہرہ کے مدرسہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے نائب مہتمم تھے۔ ان کے چچا مولانا انوار الحق اس وقت مدرسہ دارالعلوم حقانیہ کے مہتمم ہیں۔ وہ دفاع پاکستان کونسل کے چیئرمین بھی تھے۔

مولانا حامد الحق سنہ 2018 میں اپنے والد مولانا سمیع الحق کے اسلام آباد میں قتل کے بعد جماعت کے سربراہ مقرر ہوئے تھے۔

مولانا حامد الحق 1968 میں اکوڑہ خٹک میں پیدا ہوئے اور انھوں نے دینی تعلیم دارالعلوم حقانیہ سے حاصل کی تھی۔ انھوں نے پرائیویٹ امیدوار کے طور پر دنیاوی تعلیم میں گریجویشن کر رکھی تھی۔

امریکہ کے افغانستان پر حملے کے بعد پاکستان میں مذہبی و سیاسی جماعتوں نے اس اقدام کی بھرپور مخالفت کی تھی اور سنہ 2002 کے عام انتخابات میں پاکستان کے سابق آمر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی پالیسیوں کے خلاف ایک سیاسی اتحاد متحدہ مجلس عمل قائم کیا گیا۔

مذہبی جماعتوں کے اس سیاسی اتحاد نے 2002 کے عام انتخابات میں بڑی تعداد میں صوبائی و قومی سطح پر نشستیں جیتیں اور پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں حکومت قائم کی تھی۔

مولانا حامد الحق نے سنہ 2002 میں متحدہ مجلس عمل کی ٹکٹ پر انتحابات میں حصہ لیا تھا اور اپنے حلقے اکوڑہ خٹک سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔

وہ 2007 تک قومی اسمبلی کے رکن رہے۔ انھوں نے اس کے بعد بھی انتخابات میں حصہ لیا لیکن کامیاب نہیں ہو سکے۔

مولانا حامد الحق اپنے والد مولانا سمیع الحق کے قریب سمجھے جاتے تھے اور انھوں نے سیاسی طور پر ان سے بہت کچھ سیکھا تھا۔ ان کے والد ایک معروف سیاسی اور مذہبی شخصیت تھے۔

حامد الحق اور ان کی جماعت کے دیگر اراکین افغانستان کی طالبان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے وفود میں شامل رہے ہیں اور گذشتہ دنوں صوبائی حکومت کی جانب سے بلائے گئے دینی جماعتوں کے رہنماؤں اور علما کرام کے ایک اجلاس میں شریک ہوئے تھے۔

اس اجلاس میں صوبے میں امن و امان کی صورتحال پر بات چیت ہوئی تھی اور اس میں أفغانستان کے ساتھ مذاکرات کے لیے وفود تشکیل دینے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔

مدرسہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کی اہمیت کیا ہے؟

مدرسہ
Getty Images
جامعہ دارالعلوم حقانیہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ طالبان کی ایک ایسی یونیورسٹی ہے جہاں سے فارغ ہونے والے طلبا پاکستان اور افغانستان میں مذہبی سیاسی منظر نامے اور عسکری تحریکوں میں متحرک پائے گئے ہیں۔

پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع نوشہرہ میں جمعے کو خودکش حملے میں نشانہ بننے والا مدرسہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک پاکستان کے مدارس میں نمایاں حیثیت رکھتا ہے اور مختلف ادوار حکومت میں اس مدرسے کو حکومتی گرانٹس بھی دی جاتی رہی ہے۔

یہ کوئی عام مدرسہ نہیں ہے بلکہ ایک ایسی اہم درسگاہ ہے جس نے علمی روایت کے ساتھ ساتھ سیاسی طور پر اور افغانستان پر سوویت حملے کے بعد سے عسکری سطح پر بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔

اس مدرسے کی بنیاد مولانا سمیع الحق کے والد شیخ الحدیث مولانا عبدالحق نے پاکستان بننے کے ایک ماہ بعد یعنی ستمبر 1947 میں رکھی تھی۔

یہ مدرسہ پشاور سے اسلام آباد جانے والی شاہراہ جی ٹی روڈ پر اکوڑہ خٹک کے مقام پر واقع ہے۔

ماضی میں افغانستان سے تجارت اور آمد و رفت کے لیے یہ ایک اہم مقام رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ افغانستان سے ماضی میں بھی بڑی تعداد میں لوگ اس مدرسے میں دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے آتے رہے ہیں۔

جامعہ دارالعلوم حقانیہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ طالبان کی ایک ایسی یونیورسٹی ہے جہاں سے فارغ ہونے والے طلبا پاکستان اور افغانستان میں مذہبی سیاسی منظر نامے اور عسکری تحریکوں میں متحرک پائے گئے ہیں۔

حالیہ دہائیوں میں پاکستان اور افغانستان میں جب بھی سیاسی یا عسکری طور پر کوئی تبدیلی سامنے آئی ہے تو اس وقت اس مدرسے کا کردار اور اس مدرسے کے سینیئر رہنماؤں کا کردار بھی نمایاں رہا ہے۔

یہ مدرسہ جمعیت علمائے اسلام (س) کے سابق سربراہ مولانا سمیع الحق کی وجہ سے بھی زیادہ شہرت رکھتا ہے اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر ذرائع ابلاغ میں مولانا سمیع الحق کو 'بابائے طالبان' بھی کہا جاتا رہا ہے۔

دارالعلوم حقانیہ کا سیاسی اثر و رسوخ

مدرسہ
Getty Images
دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے فارغ التحصیل تین طالبعلم اس وقت افغانستان کی عبوری حکومت میں وزیر ہیں۔

سنہ 2001 میں جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو اس وقت پاکستان کے مختلف شہروں میں احتجاج کیے گئے۔ ان میں دیگر سیاسی جماعتوں کے علاوہ مولانا سمیع الحق کی جماعت اور ان کے مدرسے دارالعلوم حقانیہ نے بھی بھرپور آواز اٹھائی تھی۔

اس کے علاوہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں شدت پسندی میں جب اضافہ ہوا تو اس وقت حکومت نے مولانا سمیع الحق سے تعاون طلب کیا تھا تاکہ علاقے میں امن قائم ہو اور تشدد کی کارروائیوں کو روکا جا سکے۔

پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت نے جامعہ دارالعلوم حقانیہ کو فنڈز بھی جاری کیے تھے۔

سال 2019 میں خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نے اس مدرسے کو تین کروڑ روپے کی گرانٹ دی تھی جبکہ پی ٹی آئی کے سابق دورِ حکومت میں وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے بھی اس مدرسے کے لیے بھاری گرانٹ منظور کی تھی جس پر اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے کڑی تنقید کی گئی تھی۔

سنہ 2021 میں امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد جب طالبان نے کابل پر قبضہ کر کے ایک عبوری حکومت کا اعلان کیا تو اس وقت بھی جامعہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کا نام سامنے آیا ہے۔

اس وقت سکیورٹی امور کے تجزیہ کار اور پاکستان انسٹیٹیوٹ فار پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر عامر رانا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ جامعہ دارالعلوم حقانیہ کوئی عام مدرسہ نہیں ہے بلکہ اس کی اپنی روایات رہی ہیں۔ اس میں علمی روایت کے علاوہ اس مدرسے کا عسکریت پسندی اور مذہبی سیاسی تحریکوں کو پروان چڑھانے میں اہم کردار رہا ہے۔

عامر رانا کا کہنا تھا کہ اس مدرسے کا پاکستان کی سیاسی و سکیورٹی صورتحال پر اثر اب بھی ہے اور اس وقت افغانستان کی حکومت، شوریٰ اور اداروں میں متعدد ایسے لوگ شامل ہیں جو اس مدرسے سے فارغ التحصیل ہیں یا اس جامعہ سے ان کا گہرا تعلق رہا ہے۔

getty
Getty Images
عامر رانا کے مطابق پاکستان کے ریاستی اداروں کے لیے بھی جامعہ حقانیہ انتہائی اہم رہا ہے کیونکہ اس کے ذریعے ایک ایسے مؤثر چینل کو استعمال کیا جاتا رہا ہے جس سے ریاستی پالیسیوں کے نفاذ میں آسانی ہوتی ہےاور مختلف اوقات میں اس ذریعے کو استعمال کیا گیا ہے۔

جمعیت علمائے اسلام (سمیع الحق گروپ) کے رہنما اور مدرسے کے اعلیٰ عہدیدار مولانا یوسف شاہ نے سنہ 2021 میں بی بی سی کو بتایا تھا کہ ماضی میں بھی افغان طالبان کی حکومت میں جامعہ حقانیہ سے تعلیم حاصل کرنے والے متعدد افراد شامل تھے۔

مولانا یوسف شاہ کے مطابق اس مدرسے میں سابق افغان رہنما مولانا جلال الدین حقانی، مولانا یونس خالص، مولانا محمد نبی محمدی اور دیگر نے تعلیم حاصل کی تھی اور یہ وہی قائدین ہیں جنھوں نے سویت یونین کو شکست دی تھی۔

انھوں نے کہا کہ صرف افغانستان نہیں بلکہ پاکستان میں بھی مختلف شعبوں میں ان کے مدرسے سے فارغ التحصیل افراد کام کر رہے ہیں، پارلیمان میں بھی اور سیاسی و مذہبی رہنماؤں میں ان کے مدرسے کے رہنما شامل ہیں۔

واضح رہے کہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے فارغ التحصیل تین طالبعلم اس وقت افغانستان کی عبوری حکومت میں وزیر ہیں۔

عامر رانا کے مطابق پاکستان کے ریاستی اداروں کے لیے بھی جامعہ حقانیہ انتہائی اہم رہا ہے کیونکہ اس کے ذریعے ایک ایسے مؤثر چینل کو استعمال کیا جاتا رہا ہے جس سے ریاستی پالیسیوں کے نفاذ میں آسانی ہوتی ہےاور مختلف اوقات میں اس ذریعے کو استعمال کیا گیا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ایسا بھی ہوا ہے کہ جب ریاستی اداروں کی پالیسیاں تبدیل ہوئیں تو اس مدرسے نے ان پالیسیوں کے لیے بھی کردار ادا کیا جیسا کہ پیغام پاکستان کا سلسلہ تھا جس میں مدرسے کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف فتویٰ بھی شامل ہے اور جامعہ حقانیہ کے قائدین اس پالیسی کو ساتھ لے کر چلے۔

انھوں نے کہا کہ اس ادارے کا ریاست کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تصادم سامنے نہیں آیا البتہ کچھ مواقع پر مدرسے کی جانب سے اختلافی آوازیں ضرور سامنے آئی ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.