گوجرانوالہ: پانچ سالہ ایمان کے ریپ اور قتل کے ملزم کی گرفتاری، پُراسرار ہلاکت اور تدفین کی کہانی

کامونکی کے قصبہ 'پرانی واہنڈو' میں واقع قبرستان کے ایک عقبی حصے میں چند پولیس اہلکار موجود تھے۔ قریب ایک کرین کی مدد سے زمین میں گڑھا کھودا جا رہا تھا۔ چند رہائشی ٹولیوں کی صورت میں اس مقام سے کافی دور کھڑے یہ سب ہوتا دیکھ رہے تھے۔

پاکستان میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہے جس میں وسطی پنجاب کے شہر کامونکی کے قصبہ ’پرانی واہنڈو‘ میں واقع قبرستان کے ایک عقبی حصے کے مناظر دیکھے جا سکتے ہیں۔

قبرستان میں پولیس کے چند اہلکار موجود ہیں جبکہ اُن کے قریب موجود ایک کرین کی مدد سے زمین میں گڑھا کھودا جا رہا ہے۔ قصبہ واہنڈو کے چند رہائشی ٹولیوں کی صورت میں اس مقام سے کافی دور کھڑے یہ سب ہوتا دیکھ رہے ہیں۔

کرین گڑھا کھودتی ہے جس کے بعد قریب ہی کھڑی کالے رنگ کی ایک ہائی روف گاڑی سے سفید کپڑے میں لپٹی ایک میت کو نکالا جاتا ہے اور اس گڑھے میں رکھ دیا جاتا ہے۔ میت گڑھے میں رکھتے ہی قریب موجود دو افراد کدالوں کی مدد سے گڑھے پر مٹی ڈالنا شروع کرتے ہیں مگر اسی اثنا میں ساتھ کھڑا پولیس اہلکار کرین میں موجود ڈرائیور کو اشارہ کرتا ہے جو مشین کی مدد سے جلدی جلدی گڑھا بھرنا شروع کر دیتا ہے۔

اسی دوران اس مقام سے کچھ دور موجود قصبہ واہنڈو کا ایک نوجوان اپنے ساتھی کو سرگوشی کے انداز میں کہتا ہے کہ ’انھوں نے تو سلیبیں بھی نہیں رکھیں۔ اس کے بغیر ہی مٹی ڈالنی شروع کر دی ہے۔۔۔‘

یاد رہے کہ مردے کو قبر میں رکھ کر قبر کے اوپر پہلے سیمنٹ یا لکڑی سے بنے بلاکس رکھے جاتے ہیں اور اس کے اوپر مٹی ڈال دی جاتی ہے۔

26 فروری کو پیش آئے تدفین کے یہ مناظر قصبہ واہنڈو کے ہی ایک نوجوان حسن عرف جھارا کے ہیں۔ قصبے کے رہائشیوں نے نہ صرف حسن کو مقامی قبرستان میں دفن کرنے کی اجازت نہیں دی تھی بلکہ اہل علاقہ کو ان کا نماز جنازہ نہ پڑھنے کی ہدایت بھی کی تھی۔

تاہم مقامی پولیس کے مطابق رہائشیوں سے ہوئے مذاکرات کے بعد حسن کو مقامی قبرستان کے اُس عقبی حصے میں دفن کرنے کی اجازت مل گئی جو غیرآباد ہے یعنی وہاں پہلے سے کوئی قبر موجود نہیں ہے۔

پولیس نے حسن کو دو روز قبل ہی اُس کے پڑوس میں رہنے والی ایک پانچ سالہ بچی ایمان فاطمہ کے اغوا، ریپ اور قتل کے الزام میں تفتیش کی غرض سے حراست میں لیا تھا۔

بی بی سی اردو کے رابطہ کرنے پر تھانہ واہنڈو پولیس کے ایس ایچ او نے دعویٰ کیا کہ ملزم کو 25 فروری کو باقاعدہ طور پر گرفتار کیا گیا اور روزنامچے میں گرفتاری کا اندراج کیا گیا جبکہ گاؤں پرانی واہنڈو کے لوگوں نے بتایا کہ انھوں نے 22 فروری کی رات ساڑھے نو بجے ملزم کو اس کے گھر سے پکڑ کر پولیس کے حوالے کیا تھا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم کو پانچ سالہ لڑکی کے اغوا کے مقدمہ نمبر 209/25 میں ضمنی بیان میں نامزد کیا گیا اور اس کی بنیاد پر ملزم کی گرفتاری اس کے گھر سے عمل میں لائی گئی۔

پولیس ایس ایچ او کا کہنا ہے کہ ’ملزم کو جب حراست میں لے کر تھانے لایا گیا اور اس سے تفتیش کی گئی تو اس نے پولیس حراست میں کمسن بچی کے قتل کا اعتراف جرم کرلیا، اور پولیس کو تفصیلات بتائیں کہ کس طریقے سے مقتولہ بچی کے ساتھ درندگی کی گئی اور اسے قتل کرکے گھر کے صحن میں گڑھا کھود کر لاش دفنائی گئی۔‘

یاد رہے کہ ملزم کو پولیس نے اُس وقت گرفتار کیا تھا جب اُس کے گھر کے صحن سے پانچ سالہ بچی ایمان فاطمہ کی لاش برآمد ہوئی تھی۔

پولیس کے مطابق ملزم کے ریمانڈ کے لیے اسے 26 فروری کو علاقہ جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا جانا تھا لیکن اس سے پہلے ہی یہ پولیس حراست سے ’فرار ہوگیا‘ اور پھر ’پولیس مقابلے‘ کے دوران ’اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے‘ ہلاک ہو گیا۔

مقامی پولیس کا دعویٰ ہے کہ جب ’ملزم کو برآمدگی اور وقوعے کی نشاندہی کی غرض سے لے جایا جا رہا تھا تو تین موٹر سائیکلوں پر سوار نامعلوم افراد نے پولیس پارٹی پر فائرنگ کر دی اس دوران نامعلوم مسلح افراد ملزم کو اپنے ساتھ لے کر فرار ہو گئے۔‘

پولیس کا دعویٰ ہے کہ مشتبہ ملزم کے فرار کے کچھ ہی دیر بعد گشت پر موجود ایک پولیس پارٹی کا سامنا فرار ہونے والے افراد سے ہوا جس کے دوران دوبارہ فائرنگ کا تبادلہ ہوا اور جب فائرنگ رُکی تو ایک شخص وہاں زخمی حالت میں پڑا تھا جس کی شناخت مفرور ملزم کے طور پر ہوئی جو بعد ازاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گیا۔

تاہم اس نوعیت کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے جس میں پولیس کی حراست سے ایک ایسا ملزم بظاہر فرار ہونے میں کامیاب ہوتا ہے اور بعدازاں مارا جاتا ہے جس کے بارے میں پولیس کو 'سائنسی بنیادوں پر کی گئی تفتیش کے بعد ناقابل تردید شواہد' مل چکے ہوتے ہیں۔

ایسے واقعات کے بعد پولیس کی جانب سے عموماً یہ روایتی بیان جاری کیا جاتا ہے جس میں دعویٰ ہوتا ہے کہ ملزم کو برآمدگی کے لیے لے جایا جا رہا تھا جب 'ملزمان کے مسلح ساتھیوں نے پولیس پارٹی پر حملہ کر دیا اور اس دوران ہونے والی فائرنگ سے ملزم ہلاک ہو گیا۔‘

عموماً اس طرح کے واقعات میں ایف آئی آر میں مقام، تاریخ اور ملزم کا نام بدلنے کا علاوہ باقی عبارت لگ بھگ ایک جیسی ہی ہوتی ہے۔

بی بی سی نے اس حوالے سے ایک خصوصی رپورٹ شائع کی تھا کہ ’پاکستان میں ریپ اور سنگین جرائم میں ملوث زیر حراست ملزمان ٹھوس شواہد اور اعترافِ جرم کے باوجود پراسرار حالات میں مارے کیوں جاتے ہیں؟‘ یہ رپورٹ یہاں کلک کر کے پڑھی جا سکتی ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم نے ابتدائی تفتیش کے دوران بتایا کہ اس کا سابقہ کردار بھی ٹھیک نہیں رہا اور وہ مبینہ طور پر غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث رہا ہے جس بارے پولیس نے چھان بین کرنی تھی لیکن اس سے پہلے ہی وہ موت کے منھ میں چلا گیا۔

مگر پانچ سالہ ایمان فاطمہ کی گمشدگی، اُس کی میت کی ملزم حسن کے گھر کے صحن سے برآمدگی، ملزم کی گرفتاری، فرار، ’اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاکت‘ اور تدفین پر تنازع کی کہانی ہے کیا؟

ایمان فاطمہ کی گمشدگی

اس پوری کہانی کی ابتدا 22 فروری کی دوپہر اس وقت ہوئی جب گوجرانوالہ کی تحصیل کامونکی کے قبصہ واہنڈو میں سلائی کڑھائی کا کام کرنے والے عبدالشکور کی بیٹی پانچ سالہ بیٹی ایمان فاطمہ گھر میں کھیلتے ہوئے اچانک لاپتہ ہوگئی۔

عبدالشکور اڑھائی مرلے کے گھر میں رہتے ہیں اور اُسی گھر کے ایک کمرے میں وہ کڑھائی سلائی کا کام کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے گھر میں مرغیاں بھی پال رکھی ہیں جن کے انڈے فروخت کر کے یہ خاندان گزر بسر کرتا ہے۔ عبدالشکور کے چار بچے ہیں جن میں تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ ایمان فاطمہ بھائی بہنوں میں تیسرے نمبر پر تھیں۔

عبدالشکور نے بی بی سی کو بتایا کہ ایمان اپنی سہیلیوں کے ساتھ معمول کے مطابق کھیل کود رہی تھی مگر جب وہ کافی دیر تک گھر واپس نہ آئی تو اس کی والدہ کو تشویش ہوئی۔ والد کے مطابق والدہ نے اپنی گلی اور قریبی گلیوں میں جا کر ایمان کو تلاش کیا مگر وہ نہیں ملی۔

عبدالشکور بتاتے ہیں کہ ’میں اُس وقت سودا سلف لینے بازار گیا ہوا تھا۔ میری بیوی نے مجھے ساڑھے تین بجے کے قریب فون کیا کہ جلدی سے گھر واپس آؤ ایمان کا کچھ پتہ نہیں چل رہا۔‘

’میں نے اپنی بیوی کو ڈانٹا کہ خوامخواہ پریشان ہو رہی ہو، اُس نے کہاں جانا ہے، اِدھر ہی کہیں ہو گی۔ بہرحال جب وہ مزید کچھ دیر نہ ملی تو میں بھی پریشان ہو گیا اور فورا گھر واپس آ گیا۔ ہم اپنی بیٹی کو ڈھونڈتے رہے اور اس دوران شام کے چھ بج گئے اور ہر طرف اندھیرا چھانے لگا۔ اب مجھے بُرے بُرے خیالات آنا شروع ہو گئے مگر ابتدا میں میں نے اسے اپنا وہم سمجھ کر جھٹک دیا۔‘

عبدالشکور نے بتایا کہ شام کو وہ تھانہ واہنڈو پہنچے اور اپنی بیٹی کے مبینہ اغوا کا مقدمہ درج کروایا۔ بی بی سی کو دستیاب ایمان کے اغوا کی ایف آئی آر میں بھی عبدالشکور نے یہی تفصیلات پولیس کو بتائی ہیں۔

عبدالشکور کے مطابق ’پھر گاؤں واپس آ کر ہم نے مساجد کے ذریعے اعلانات بھی کروائے۔ پورے گاؤں میں شور مچ چکا تھا کہ بچی اغوا ہو گئی ہے مگر اس کا کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا۔‘

ملزم پر شک اور اس کے گھر کے صحن سے بچی کی لاش کی برآمدگی

عبدالشکور بتاتے ہیں کہ شام کے بعد جیسے جیسے رات ہوتی گئی گاؤں کے تمام لوگ بھی پتا کرنے کے لیے ان کے گھر آنے لگے اور ہر طرف سراسیمگی پھیل گئی تھی۔ 'ایک خوف کا عالم تھا جو پورے گاؤں پر طاری تھا۔

عبدالشکور بتاتے ہیں کہ ’اس دوران ہماری ساتھ والی گلی کا رہائشی حسن جھارا مجھ سے بار بار آ کر پوچھتا رہا کہ ’بیٹی کا کچھ پتہ چلا، بیٹی مل گئی ہے کیا؟ لگتا ہے کہ کوئی اسے اغوا کرکے لے گیا ہے۔‘

’وہ مجھے بار بار کہتا کہ آپ نے دوسرے دیہات میں جا کر بھی اعلانات کروانے تھے۔‘

عبدالشکور بتاتے ہیں کہ رات کے ساڑھے نو بج گئے تھے اور اُن سمیت محلے داروں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ شکور کے مطابق اُن سمیت اہل محلہ کا شک حسن جھارا پر بھی تھا۔

شک کی وجہ سے متعلق بتاتے ہوئے عبدالشکور نے دعویٰ کیا کہ حسن کا کردار کچھ اچھا نہیں تھا اور ماضی قریب میں اس کی اپنی ایک کم عمر رشتہ دار نے اس پر ریپ کا الزام عائد کیا تھا مگر خاندان نے اندرونی طور پر اس تنازع کو دبا دیا تھا۔ اہل علاقہ نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ ملزم منشیات کی خرید و فروخت کے کام سے بھی منسلک تھا۔ تاہم بی بی سی اس الزامات کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کر سکا ہے۔

عبدالشکور کے مطابق اس دوران ’اہل علاقہ سے مشورے کے بعد گاؤں کے کچھ معزز افراد حسن جھارا کے گھر داخل ہوئے اور بچی سے متعلق دریافت کیا۔‘

عبدالشکور کا کہنا ہے کہ ’حسن اور اُن کی والدہ آخری وقت تک پراعتماد انداز میں بتاتے رہے کہ وہ اس متعلق کچھ نہیں جانتے۔ اس گفتگو کے دوران گاؤں کے ایک شخص نے صحن کی مٹی کا کچھ حصہ نرم دیکھ کر شک کا اظہار کیا اور دریافت کیا کہ یہاں مٹی نرم کیوں ہے۔‘

عبدالشکور کے مطابق ’ملزم نے کہا کہ وہ کدال لانے جا رہا ہے، آپ خود یہاں کھدائی کر کے دیکھ لیں۔ اُس کا ارادہ یہی تھا کہ چونکہ اب اس کی واردات پکڑی جانے کے قریب ہے اس لیے وہ یہاں سے فرار ہو جائے۔ مگر اس کے چہرے پر واضح پریشانی دیکھ کر محلے داروں نے اسے پکڑ لیا۔‘

عبدالشکور بتاتے ہیں کہ ’جب لوگوں نے نرم مٹی کی کھدائی کی، تو نیچے سے میری ننھی پری کی لاش برآمد ہو گئی۔ مجھے کچھ ہوش نہیں رہا کہ اس کے بعد کیا ہوا۔ لوگوں نے ہی پولیس کو اطلاع کی جو دونوں ماں، بیٹے کو پکڑ کر لے گئی۔‘

عبدالشکور کہتے ہیں کہ ’وہ قیامت کے لمحات تھے۔ جب کھدائی شروع ہوئی تو کچھ ہی دیر میں مٹی کے نیچے سے میری بیٹی کی لاش نظر آنا شروع ہو گئی تھی۔ ایمان نے کسی کا کیا بگاڑا تھا جو یوں اسے درندگی کا نشانہ بنایا گیا۔ بیٹی کو اب دفنا دیا ہے لیکن ابھی تک دل و دماغ پر چھایا اس کا چہرہ سے نہیں ہٹ رہا۔‘

یاد رہے کہ پولیس نے اس قتل کیس میں ملزم کی والدہ کو بھی حراست میں لے رکھا ہے جن پر ایمان کی لاش کو دفن کرنے میں مدد دینے، قتل میں شواہد کو چھپانے اور ضائع کرنے کی کوشش کا الزام ہے۔

پولیس نے اس سارے معاملے میں تین ایف آئی آرز درج کی ہیں، پہلی ایف آئی آر پانچ سالہ ایمان فاطمہ کے اغوا کی ہے، دوسری ایف آئی آر زیر حراست ملزم حسن کے فرار کی ہے جبکہ تیسری ایف آئی آر مبینہ طور پر فرار ہونے والے ملزم کی ہلاکت سے متعلق ہے۔

ایمان کی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کیا بتایا گیا ہے؟

تصویر
Getty Images
ابتدائی رپورٹ میں بچی کی وجائنا اور ٹانگوں کے اوپری حصوں پر خون کے دھبوں کے نشانات ملے ہیں، تاہم حتمی پوسٹ مارٹم رپورٹ کا انتظار ہے

پانچ سالہ ایمان کی لاش کی ابتدائی رپورٹ جاری کی گئی ہے تاہم حتمی پوسٹ مارٹم رپورٹ کا انتظار ہے۔ اس ابتدائی رپورٹ میں بچی کے جسم کے نازک حصے (وجائنا) اور ٹانگوں کے اوپری حصوں پر خون کے نشانات پائے گئے ہیں جبکہ اُس کی گردن پر دبائے جانے کے نشانات ہیں۔ اس کے علاوہ ہونٹوں اور زبان پر بھی زخموں کے نشانات موجود تھے۔

سول ہسپتال کامونکی کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر سعد احمد نے اس سلسلے میں بتایا کہ بچی کے جسم اور ڈی این اے کے نمونے حتمی تجزیے اور رپورٹ کےلیے لاہور بھیجے گئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ڈی این اے کی رپورٹ آنے کے بعد معلوم ہو گا کہ آیا بچی کو قتل کرنے سے قبل اس کا ریپ کیا گیا تھا یا نہیں۔

یاد رہے کہ پولیس نے ملزم حسن کے خلاف درج ایف آئی آر میں مبینہ اغوا، قتل اور کم عمر بچوں کے ریپ سے متعلق دفعات درج کر رکھی ہیں۔

ملزم کا ’رات کی تاریکی میں فرار‘ اور پُراسرار حالات میں ہلاکت

تصویر
Getty Images
پولیس کا دعویٰ ہے کہ ملزم اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہوا

ملزم کے فرار سے متعلق درج کی گئی ایف آئی آر میں کچھ واقعات درج ہیں۔ مقامی پولیس کے مطابق 25 فروری کی رات 12 بج کر 40 منٹ کر ملزمحسن عرف جھارا کو ’پولیس بسلسلہ تفتیش و نشاندہی پرانی آبادی واہنڈو لے جا رہی تھی کہ کلوں کلاں پُل سے پرانی واہنڈو کی جانب مڑنے پر تین موٹر سائیکلوں پر سوار پانچ نامعلوم ملزمان نے پولیس گاڑی پر سیدھی فائرنگ کر دی۔‘

’پولیس اہکاروں نے ڈیک کی پٹری کی اوٹ لے کر اپنی جان بچائی تاہم ملزمان اپنے ساتھی ملزم حسن عرف جھارا کو ہتھکڑیوں سمیت چھڑوا کر فرار ہو گئے۔ فرار ملزمان کی اطلاع ملتے ہی علاقہ میں ناکہ بندی کروا دی گئی، فرار کے 15 منٹ بعد پولیس ناکہ کوڑی کوٹ چوک پر ملزمان کا دوبارہ پولیس سے آمنا سامنا ہو گیا۔‘

ایف آئی آر کے مطابق ’پولیس اہلکاروں کو کھڑا دیکھ کر ملزمان نے دوبارہ فائرنگ شروع کر دی تاہم پولیس ملازمان نے گاڑی کی اوٹ میں ہو کر اور زمین پر لیٹ کر اپنی جانیں بچائیں اور سیلف ڈیفنس میں اِکا دُکا فائر کیے۔‘

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ’فائرنگ رُکنے کے بعد علاقے کا جائزہ لیا گیا تو کچھ فاصلے پر سڑک کے کنارے پر ایک ملزم شدید زخمی حالت میں پڑا ملا جو اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ زخمی ہوا تھا۔ زخمی ملزم کو ہسپتال لے جایا گیا مگر وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گیا۔ ہلاک ہونے والے ملزم کی شناخت حسن عرف جھارا کے نام سے ہوئی جبکہ دیگر ملزمان اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہو گئے۔‘

یاد رہے کہ پنجاب میں ریپ اور اس نوعیت کے سنگین جرائم میں ملوث زیر حراست مجرموں کی اس طرح کے پراسرار حالات میں ہلاکت کوئی نئی بات نہیں ہے۔

16 جنوری 2025 کو سرائے عالمگیر میں چار سالہ بچی زہرہ کے ریپ اور قتل میں ملوث ملزم بھی، پولیس کے مطابق، ایسے ہی فرار اور بعدازاں ہلاک کر دیا گیا تھا۔ بی بی سی نے اس حوالے سے ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی تھا کہ ’پاکستان میں ریپ اور سنگین جرائم میں ملوث زیر حراست ملزمان ٹھوس شواہد اور اعترافِ جرم کے باوجود پراسرار حالات میں مارے کیوں جاتے ہیں؟‘ یہ رپورٹ یہاں کلک کر کے پڑھی جا سکتی ہے۔

ملزم کی تدفین پر تنازع

پانچ سالہ بچی کو قتل کر کے اپنے گھر کے صحن میں دبانے والے مبینہ مشتبہ ملزم کی لاش کو گاؤں والوں نے نماز جنازہ وغیرہ کے ساتھ تدفین سے انکار کردیا جس پر پولیس کی موجودگی میں کرین کے ساتھ مقامی قبرستان کے ایک الگ حصے میں گڑھا کھود کر اس کو دفنایا گیا۔

بی بی سی کے رابطہ کرنے پر گاؤں پرانی واہنڈو کے رہائشیوں نے بتایا کہ علاقہ مکینوں نے مشترکہ طور پر یہ فیصلہ کیا تھا کہ ملزم کی نا تو قبر بنانے کی اجازت دی جائے گی اور نہ ہی کوئی اس کے نماز جنازہ میں شرکت کرے گا۔

اس گاؤں کے رہائشی چوہدری اسلم نے اس فیصلے سے متعلق بتایا کہ ’یہ کسی ایک فرد کا نہیں بلکہ پورے گاؤں کا متفقہ فیصلہ تھا۔ چونکہ ملزم نے کمسن بچی کے ساتھ ظلم کیا اس لیے نہ تو کوئی اس کا نماز جنازہ پڑھے یا پڑھائے گا اور نہ ہی اس کی گاؤں کے قبرستان میں اس کی تدفین ہو گی۔‘

چوہدری اسلم کے مطابق ’پولیس کے اصرار پر ہم نے اسے قبرستان کے ایک الگ حصے میں دفن تو ہونے دیا ہے لیکن اس کی قبر نہیں بننے دیں گے۔‘

تاہم اس سوال کے جواب میں کہ ملزم کا جرم ثابت نہیں ہوا تھا؟ ان کا کہنا تھا کہ بچی کی میت اس کے گھر سے ملی تھی جبکہ پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ بھی بچی کے ریپ کو ظاہر کرتی ہے۔

انھوں نے کہا ’اہل علاقہ نے یہ سب اس لیے کیا تاکہ اس کو ایک مثال کے طور پر یاد رکھا جائے اور آئندہ کوئی بھی شخص کسی معصوم بچی یا بچے کے ساتھ ایسا کچھ کرنے کی جرات نہ کر سکے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.