پی کے کے کی حامی اے این ایف نیوز ایجنسی کے مطابق کرد مسلح گروہ کا کہنا تھا کہ 'امن اور جمہوریت کے لیے اپنے رہنما کے احکامات پر عمل کی راہ ہموار کرنے کے لیے ہم جنگ بندی کا اعلان کر رہے ہیں۔'
سنہ 1978 میں بائیں بازو کے نظریات رکھنے والے عبداللہ اوجلان نے پی کے کے قائم کی تھیکالعدم کُرد گروپ کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) نے جیل میں قید اپنے رہنما عبداللہ اوجلان کے احکامات پر ترکی کے ساتھ جنگ بندی کا اعلان کر دیا ہے۔
سنیچر کو ایک بیان میں پی کے کے کا کہنا تھا کہ اسے امید ہے کہ ترکی عبداللہ اوجلان کو جلد رہا کر دے گا جو کہ سنہ 1999 سے جیل میں قیدِ تنہائی کاٹ رہے ہیں۔
پی کے کے کی حامی اے این ایف نیوز ایجنسی کے مطابق کرد مسلح گروہ کا کہنا تھا کہ 'امن اور جمہوریت کے لیے اپنے رہنما کے احکامات پر عمل کی راہ ہموار کرنے کے لیے ہم آج سے جنگ بندی کا اعلان کر رہے ہیں۔'
'جب تک ہم پر حملہ نہیں ہوگا ہم بھی کوئی مسلح کارروائی نہیں کریں گے۔'
پی کے کے کیا ہے اور کُرد علیحدگی پسند ترکی کے خلاف کیوں لڑ رہے ہیں؟
پی کے کے تقریباً چار دہائیوں سے ترکی کے لیے ایک بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ بائیں بازو کے نظریات کے حامی گروہ کا سنگِ بنیاد 1970 کی دہائی میں رکھا گیا تھا اور اس نے ترکی کے اندر کُردوں کے لیے ایک آزاد ریاست بنانے کے مقصد سے حکومت کے خلاف سنہ 1984 میں مسلح جدوجہد شروع کی تھی۔
کُردوں کی اکثریت جنوب مشرقی ترکی، شمال مشرقی شام، شمالی عراق، شمال مغربی ایران اور مغربی آرمینیا میں آباد ہے۔
ایک اندازے کے مطابق ان علاقوں میں ڈھائی سے تین کروڑ کرُد آباد ہیں۔ انھیں عربوں، فارسیوں اور ترکوں کے بعد مشرقِ وسطیٰ کی چوتھی بڑی قوم سمجھا جاتا ہے، لیکن ان کے پاس اپنا کوئی ملک نہیں ہے۔
پی کے کے تقریباً چار دہائیوں سے ترکی کے لیے ایک بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہےگذشتہ 80 برسوں میں کُرد متعدد بار اپنے لیے ایک آزاد ریاست حاصل کرنے کی کوششیں کر چکے ہیں لیکن انھیں کبھی کامیابی نہیں ملی۔
کُرد ترکی کی آبادی کا 15 سے 20 فیصد حصہ ہیں۔ 1920 اور 1930 کی دہائیوں کے دوران ہونے بغاوتوں کے سبب ترکی میں کردوں جیسے نام رکھنے، ان کے لباس پہننے اور یہاں تک کے ان کی زبان بولنے تک پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ اس وقت کردوں کو 'پہاڑی تُرک' کہا جاتا تھا۔
سنہ 1978 میں بائیں بازو کے نظریات رکھنے والے عبداللہ اوجلان نے پی کے کے قائم کی تھی۔ سنہ 1984 میں اس تنظیم نے باقاعدہ مسلح لڑائی کا اعلان کردیا، تب سے اب تک اس تنازع میں ترکی، شام اور عراق کے کچھ حصوں میں 40 ہزار سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں۔
تاہم 1990 کی دہائی میں پی کے کے نے کُردوں کے لیے الگ ریاست کے مطالبے سے دستبرداری کا اعلان کر دیا تھا۔
2016 میں پی کے کے کے عسکری ونگ کے سربراہ جمیل بایک نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ 'ہم ترکی سے الگ ہو کر کوئی ریاست نہیں کام کرنا چاہتے۔ ہم اس کی سرحدوں میں اپنی زمین پر آزادی کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔'
دوسری جانب ترکی کا مؤقف ہے کہ پی کے کے 'ترکی میں ایک علیحدہ ریاست بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔'
واضح رہے پی کے کے کو ترکی، امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین کے ممالک نے کالعدم تنظیم قرار دے رکھا ہے۔
عبداللہ اوجلان کون ہیں؟
ترک عبداللہ اوجلان پر تنقید کرتے ہیں اور ترک حکومت انھیں اپنا دشمن سمجھتی ہے لیکن کُرد قوم پرستوں کی اکثریت انھیں عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔
عبداللہ اوجلان دہائیوں سے کُرد سیاست میں ایک بااثر اور ترکی میں ایک متنازع شخصیت سمجھے جاتے ہیں۔
عبداللہ اوجلان کے چاہنے والی انھیں 'آپو' کے نام سے پکارتے ہیں جس کا کرُد زبان میں مطلب 'انکل' ہے۔ وہ سنہ 1949 میں جنوب مشرقی ترکی کے علاقے شانلی اورفہ میں پیدا ہوئے تھے۔
عبداللہ اوجلان نے 1970 کی دہائی میں انقرہ یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس کی تعلیم حاصل کی تھی۔ تاہم انقلابی جنگجوؤں کی حمایت میں کتابچے تقسیم کرنے پر انھیں جیل بھیج دیا گیا تھا جس کے بعد انھوں نے یونیورسٹی چھوڑ دی اور ایک بائیں بازو کے نظریات کی حامل تنظیم میں شمولیت اختیار کر لی۔
جس دن عبداللہ اوجلان کو سزا سُنائی گئی اس دن کُرد برادری نے متعدد یورپی ممالک میں احتجاجی مظاہرے کیے تھےسنہ 1973 میں وہ انقرہ میں ہونے والے اس اجلاس میں شامل تھے جس میں پی کے کے کی بنیاد کی راہ ہموار کی۔ اس کے بعد سے انھوں نے ایک علیحدہ کُرد ریاست کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا۔
سنہ 1984 میں عبداللہ اوجلان نے پی کے کے کی مسلح تنازع کے درمیان قیادت کی اور شام میں جلا وطنی اختیار کرلی۔
تاہم انھیں شام چھوڑ کر کینیا جانا پڑا جہاں سنہ 1999 میں انھیں گرفتار کر لیا گیا۔
عبداللہ اوجلان کو واپس ترکی لایا گیا جہاں انھیں دہشتگردی کے مقدمات کا سامنا کرنا پڑا اور بعد میں انھیں غداری کے الزام میں سزائے موت سُنائی گئی۔
جس دن انھیں سزا سُنائی گئی اس دن کُرد برادری نے متعدد یورپی ممالک میں احتجاجی مظاہرے کیے تھے۔
تاہم سنہ 2002 میں ترکی نے موت کی سزا کو ختم کر دیا اور عبداللہ اوجلان کی سزائے موت کو عمر قید میں بدل دیا گیا۔
سنہ 1999 کے بعد سے اب تک وہ عمرالی جزیرے پر واقع جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں۔