اوول آفس میں جے ڈی وینس کا زیلنسکی کو دوٹوک جواب دینا ثابت کرتا ہے کہ وہ روایتی خاموش معاون بننے کے بجائے بے خوفی سے مرکزی کردار ادا کرنے اور جارحانہ مؤقف اپنانے کے لیے تیار ہیں۔
جے ڈی وینس کی جانب سے جمعہ کے روز اوول آفس میں یوکرین کے صدر زیلنسکی کو دوٹوک جواب دینا اس بات کا مظہر تھا کہ امریکی نائب صدر کسی جھجک کے بغیر مرکزی کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔ وہ اپنے پیشروؤں کی طرح محض ایک خاموش سیاسی معاون بننے کے بجائے بھرپور انداز میں جارحانہ مؤقف اختیار کرنے سے نہیں ہچکچاتے۔
یہ وینس ہی تھے جنھوں نے زیلنسکی پر سب سے پہلے سخت تنقید کا آغاز کیا اور پھر صدر ٹرمپ اس میں شامل ہوئے۔
یہ ملاقات اس وقت تک خوشگوار چل رہی تھی جب تک کہ وینس نے روس یوکرین جنگ کو روکنے کے لیے سفارتی حل تلاش کرنے پر ٹرمپ کی تعریف کرنا نہیں شروع کی۔
زیلنسکی، جو واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان براہ راست مذاکرات کے سخت ناقد رہے ہیں، وینس کی بات کاٹتے ہوئے بولے: ’آپ کس قسم کی سفارت کاری کی بات کر رہے ہیں، جے ڈی؟ آپ کا مطلب کیا ہے؟‘
وینس نے فوری جواب دیا ’میں اس سفارت کاری کی بات کر رہا ہوں جو آپ کے ملک کی تباہی کو ختم کر سکے۔‘
ان کے سخت لہجے نے یوکرینی صدر کو حیران کر دیا۔
’جنابِ صدر پورے احترام کے ساتھ، میرے خیال میں یہ مناسب نہیں کہ آپ اوول آفس میں آ کر اس معاملے کو امریکی میڈیا کے سامنے اچھالیں۔‘

وینس نے زیلنسکی پر یہ الزام بھی عائد کیا کہ انھوں نے 2024 کے صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹس کی بالواسطہ حمایت کی۔ اس الزام کی بنیاد زیلنسکی کا گذشتہ ستمبر میں سوئنگ سٹیٹس میں سے ایک (فیصلہ کن ریاستیں) پینسلوینیا میں ایک اسلحہ بنانے والی فیکٹری کا دورہ اور وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ کی حریف کملا ہیرس، سے ملاقات تھی۔
وینس کی جانب سے زیلنسکی کو اس طرح جھاڑ پلانے پر ریپبلکن رہنماؤں کی طرف سے زبردست حمایت دیکھنے میں آئی ہے۔
جنوبی کیرولائنا کے سینیٹر لنڈسے گراہم، جو یوکرین کے حمایتی اور سخت گیر خارجہ پالیسی کے حامی سمجھے جاتے ہیں، نے کہا ’مجھے جے ڈی وینس پر فخر ہے کہ وہ ہمارے ملک کے مفاد کے لیے کھڑے ہوئے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ زیلنسکی کو اپنے عہدے سے مستعفی ہو جانا چاہیے۔
الاباما کے سینیٹر ٹومی ٹیوبرول نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ زیلنسکی ’یوکرینی لومڑی‘ ہیں۔
ادھر نیویارک کے کانگریس مین مائیک لاولر نے نسبتاً محتاط ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ یہ ملاقات ’امریکہ اور یوکرین دونوں کے لیے ایک ایسا موقع تھی جسے انھوں نے کھو دیا ہے۔‘
’یوکرین میں کیا ہوتا ہے مجھے اس کی کوئی خاص پرواہ نہیں ہے‘

امریکی نائب صدر کے لیے ان کے ملک کے دورے پر آئے ہوئے سربراہ مملکت پر یہ حملہ معمول کی بات نہیں ہے۔
عام طور پر ان کا کام صدر کے انتخاب میں مدد دینا اور پھر خاموشی سے اپنے باس کے ساتھ کھڑے رہنا ہوتا ہے۔ وہ وفادار معاون کے طور پر بیرونی دوروں کے دوران صدر کی نمائندگی کرتے ہیں۔۔۔ اور جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ نائب صدر صدارت سے بس ایک قدم دور ہوتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے نائب صدر، نرم مزاج مائیک پینس کے برعکس وینس کا انداز بالکل مختلف ہے۔
لیکن وینس، جنھیں وسیع پیمانے پر ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کے بنیادی نظریات کو واضح کرنے والا شخص سمجھا جاتا ہے، طویل عرصے سے یوکرین کے لیے امریکی امداد کے بارے میں شدید شکوک و شبہات کا اظہار کرتے رہے ہیں۔
جب وہ 2022 میں اوہائیو سینیٹ کی نشست کے لیے انتخاب لڑ رہے تھے تو ایک پوڈکاسٹ میں انھوں نے صاف کہا: ’مجھے آپ سے سچ بولنا ہے، یوکرین میں کیا ہوتا ہے مجھے اس کی کوئی خاص پرواہ نہیں ہے۔‘
جب وینس نے ٹرمپ کو احمق کہہ کر ان کا مذاق اڑایا تھا
دلچسپ بات یہ ہے کہ آٹھ سال پہلے وینس نے ٹرمپ کو ’احمق‘ کہہ کر مذاق اُڑایا تھا، لیکن وقت کے ساتھ ان کی سیاسی سوچ میں تغیر آیا کہ اب وہ صدر کے ’میک امریکہ گریٹ اگین‘ (ماگا) نظریے کے ممکنہ جانشین سمجھے جا رہے ہیں۔
اگرچہ قدامت پسند ووٹرز میں وینس کی مقبولیت بڑھ رہی ہے، مگر حال ہی میں فاکس نیوز کو دیے ایک انٹرویو میں ٹرمپ نے کہا کہ یہ کہنا ’ابھی قبل از وقت‘ ہوگا کہ آیا وینس 2028 میں صدارت کے لیے امیدوار بنیں گے یا نہیں۔
تاہم وینس اس سے بے پروا دکھائی دیتے ہیں اور خود کو ایک جارحانہ سیاسی جنگجو کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔۔۔ حتیٰ کہ بعض مواقع پر وہ صدر سے بھی زیادہ سخت لہجہ اختیار کر رہے ہیں اور انتظامیہ کے مخالفین پر بے باک تنقید کر رہے ہیں۔

اس معاملے میں ایک مشترکہ بات یہ ہے کہ امریکہ کے نائب صدر وینس کے سخت گیر مؤقف کا سامنا زیادہ تر واشنگٹن کے اتحادی رہنماؤں نے ہی کیا ہے۔
یہ سلسلہ گذشتہ مہینے میونخ سکیورٹی کانفرنس سے شروع ہوا، جہاں امریکی نائب صدر باقاعدگی سے جاتے ہیں۔ کملا ہیرس کی یہاں کی جانے والی تقاریروں میں وہ بات نہیں۔
اس مقام پر امریکی نائب صدر نے یورپ میں جمہوریت، آزادی اظہار رائے پر قدغنوں اور امیگریشن پر کنٹرول نہ حاصل کرنے کے الزامات عائد کر کے یورپی ریاستوں کی خوب خبر لی۔
انھوں نے کہا ’اگر آپ کو اپنے ووٹر سے ڈر لگ رہا ہے تو پھر امریکہ آپ کے لیے کچھ نہیں کر سکتا۔‘
انھوں نے سیاستدانوں، جرنیلوں اور سفارتکاروں سے ملاقاتوں میں سخت رویہ روا رکھا۔ یہ غیرمعمولی ہے مگر اب یہ ایک نیا معمول بن کر رہ گیا ہے کہ یورپ کو اب اپنے دفاع اور سکیورٹی کے لیے خود زیادہ خرچ کرنا چاہیے۔
یہ نئی امریکی انتظامیہ کا یورپ کے ساتھ ایک نیا مگر انتہائی سخت رویہ ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ ناصرف یورپ سے دور ہو رہا ہے بلکہ اب اس کی زیادہ توجہ چین پر ہے۔ اور یہ کہ امریکہ اب یورپی خطے میں بھی ٹرمپ طرز پاپولزم کی ترویج کر رہا ہے۔
امریکی نائب صدر نے جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت اے ایف ڈیپارٹی کی قیادت کے ساتھ اپنی تقریر کے بعد ڈنر کیا۔ ان کی تقریر پر یورپی رہنماؤں، ادیبوں، لکھاریوں اور ماہرین تعلیم نے تنقید بھی کی۔

اس کے باوجود امریکی نائب صدر نے ان کی تنقید پر آن لائن ہی ردعمل دینے کا فیصلہ کیا۔ مورخ نیل فرگوسن سمیت دیگر سے انھوں نے ایکس پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔
جے ڈی وینس نیل فرگوسن پر انتہائی سخت تنقید بھی کر چکے ہیں اور انھیں عالمگیریت کا علمبردار تک قرار دے چکے ہیں۔
اس ہفتے کے آغاز پر اوول آفس میں برطانوی وزیراعظم سے بھی جے ڈی وینس نے ایسا ہی رویہ رکھا۔
انھوں نے برطانوی وزیر اعظم سر کیئر سٹارمر سے کہا کہ انھوں نے اپنے ملک میں آزادی اظہار پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں جو ناصرف خود برطانیہ کو متاثر کر رہی ہیں جو کہ بہرحال یہ آپ کا اندرونی معاملہ ہے مگر اس سے امریکہ کی ٹیکنالوجی کی کمپنیاں بھی متاثر ہو رہی ہیں جس سے بالآخر امریکی شہری متاثر ہوں گے۔'
برطانوی وزیراعظم نے اپنے ملک کا بھرپور دفاع کرتے ہوئے کہا جہاں تک برطانیہ میں آزادی اظہار رائے کی بات ہے تو مجھے اپنی تاریخ پر بہت فخر ہے، ہمارے ہاں بہت طویل عرصے سے آزادی اظہار رائے ہے اور یہ بہت طویل عرصے تک رہے گی۔'
میونخ میں امریکی نائب صدر نے اے آئی اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے لیے یورپی قواعد کے خلاف جو تنقید کی تھی یہ اس کا بھی جواب تھا۔
ان یورپی قواعد کا مقصد غلط معلومات اور نفرت انگیزی سے نمٹنا ہے جس سے بدامنی کو ہوا مل سکتی ہے اور یہلوگوں کو بنیاد پرست بنا سکتی ہے۔ تاہم وینس کو ان سب میں سیاسی مضمرات نظر آتے ہیں اور وہ اسے امریکی مفادات اور بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کے لیے خطرے کے طور پر دیکھتے ہیں۔

یہاں کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ کیا زیلنسکی کے خلاف نائب صدر نے پہلے سے ذہن بنا رکھا تھا، جیسا کہ کچھ سفارت کاروں کا خیال ہے؟
وائٹ ہاؤس کے ذرائع نے امریکی میڈیا کو بتایا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے یعنی یہ پہلے سے طے شدہ نہیں تھا۔
کیا امریکی نائب صدر اب صدر ٹرمپ کے اشارے پر یہ سب کر رہے ہیں اور کیا وہ ایلون مسک کے ساتھ مل کر ٹرمپ کے ناقدین کو سبق سکھا رہے ہیں؟
یا یہ کہ نائب صدر خود سے ہی یہ خدمات انجام دے رہے ہیں اور یوں وہ اگلے تین سال بعد صدارتی مہم کے لیے ماحول سازگار کر رہے ہیں جب صدر ٹرمپ امریکی صدارت کے لیے امیدوار بننے کے اہل نہیں ہوں گے۔
ان سوالات کا جو بھی جواب ہے مگر یہ بات اٹل ہے کہ وینس ٹرمپ کے نمبر دو سے کچھ زیادہ ہی بن کر سامنے آ رہے ہیں۔