حالیہ دنوں میں کوئٹہ سے کراچی اور کوئٹہ سے اسلام آباد کے لیے فضائی ٹکٹوں کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو رہی تھیں جس سے عام لوگوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

کوئٹہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نائب صدر میر وائس کاکڑ کو اس وقت شدید دھچکہ لگا جب کچھ عرصہ قبل انھیں اپنے والد کو ایمرجنسی میں علاج کے لیے کراچی لے جانے پر فضائی ٹکٹ خریدنے پڑے۔
ٹکٹ کی قیمت دیکھ کر ان کے اوسان خطا ہو گئے کیونکہ اس کے لیے انھیں 98 ہزار روپے کی ادائیگی کرنی پڑی۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’والد کے ساتھ تین لوگوں کا جانا مجبوری تھی اس لیے عام دنوں میں زیادہ سے زیادہ 16 سے 18ہزار روپے کے بجائے ہر ٹکٹ 98 ہزار روپے میں خریدنی پڑی۔‘
حالیہ دنوں میں کوئٹہ سے کراچی اور کوئٹہ سے اسلام آباد کے لیے فضائی ٹکٹوں کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو رہی تھیں جس سے عام لوگوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اس صورتحال کے باعث ناصرف کوئٹہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے محکمہ ہوابازی کو ایک مراسلہ بھیجا ہے بلکہ لوگوں کی مشکلات کے پیشِ نظر اپنے حالیہ اجلاس میں بلوچستان اسمبلی نے فضائی کرایوں کو مناسب سطح پر لانے کے لیے ایک قرارداد بھی منظور کی ہے۔
تاجر برادری نے کوئٹہ سے فضائی ٹکٹوں کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے کی بڑی وجہ پروازوں کی کمی کو قرار دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ شاہراہیں اکثر احتجاج کی وجہ سے بند رہتی ہیں یا پھر امن و امان کی وجہ سے غیر محفوظ ہو چکی ہیں جس کے باعث لوگ کراچی یا اسلام آباد جانے کے لیے ایک ٹکٹ 65 ہزار سے 70 ہزار روپے میں خریدنے پر مجبور ہیں۔
بلوچستان میں احتجاج کی وجہ سے شاہراہیں کتنی بند رہتی ہیں اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ رواں سال کے دو مہینے کے دوران اہم شاہراہیں 76 مرتبہ بند رہیں۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کا کہنا ہے کہ انھیں فضائی کرایوں میں اضافے کے باعث لوگوں کے مسائل کا ادراک ہے اس لیے انھوں نے وزیرِاعظم سے کوئٹہ سے دوسرے شہروں کے لیے پروازوں کی تعداد میں اضافے کی درخواست کی ہے۔

شاہراہوں کی بندش سے فضائی سفر پر انحصار بڑھ گیا
بلوچستان میں احتجاج کے طور پر شاہراہوں کی بندش کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن گذشتہ چند ماہ سے بلوچ آبادی والے علاقوں میں شاہراہوں پر احتجاج میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔
حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند نے میڈیا کو ایک حالیہ بریفنگ کے دوران بتایا کہ رواں سال کے پہلے دو ماہ کے دوران 76 مرتبہ قومی شاہراہیں بند رہی ہیں۔
بلوچستان میں سب سے زیادہ مصروف شاہراہ کوئٹہ-کراچی ہے جو رواں سال کے دو ماہ کے دوران احتجاج کے باعث سب سے زیادہ بند رہی۔ مکران کو بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ اور کراچی سے منسلک کرنے والی شاہراہ کے علاوہ گوادر اور کراچی کے درمیان شاہراہ بھی احتجاج کے باعث بند رہتی ہے۔
ان کے علاوہ کوئٹہ-جیکب آباد، کوئٹہ-ڈیرہ غازی خان اور کوئٹہ-ڈیرہ اسماعیل خان شاہراہ پر بدامنی کی وجہ سے لوگوں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
دوسری جانب کوئٹہ اور سندھ اور کوئٹہ اور پنجاب کے درمیان ریل گاڑیوں کی تعداد بھی کم ہے جس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ کوئٹہ سے پنجاب اور خیبرپخونخوا کے درمیان روزانہ ایک ٹرین چلتی ہے حبکہ کوئٹہ اور کراچی کے درمیان ہفتے میں دو ٹرینیں چلتی ہیں۔
شاہراہوں پر احتجاج میں اضافہ کیوں ہوا ہے؟
بلوچستان میں بلوچ آبادی والے علاقوں سے گزرنے والی شاہراہیں زیادہ تر جبری گمشدگیوں، ماورائے عدالت ہلاکتوں اور انسانی حقوق کی پامالی کے دیگر مبینہ واقعات کے خلاف بند کی جاتی رہی ہیں۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ کا کہنا ہے کہ چونکہ ’اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے دیگر مقامات پر احتجاج کو اہمیت نہیں دی جاتی ہے اس لیے لوگ شاہراہوں پر احتجاج پر مجبور ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے پریس کلب اور دیگر مقامات پر دو دہائیوں تک پر امن احتجاج کیا۔ لوگوں نے عدالتوں سے رجوع کیا لیکن ان کی بات نہیں سنی گئی۔‘
بلوچ یکجہتی کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ ’صرف بلوچستان میں نہیں بلکہ پورے پاکستان میں لوگ شاہراہوں پر احتجاج کرتے ہیں اور یہ اس لیے ہوتا ہے کہ جو نظام ہے وہ لوگوں کو انصاف اور ریلیف دینے میں ناکام ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بلوچستان میں لوگ جبری گمشدگیوں کے واقعات کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں لیکن حکومت ان مسائل کو حل نہیں کر رہی ہے بلکہ ان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ رواں سال اب تک بلوچستان سے مزید دو سو سے زائد افراد کو لاپتہ کیا گیا جبکہ لوگوں کی تشدد زدہ لاشیں مل رہی ہیں۔‘
تاہم وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کسی ایسے مقام پر لوگوں کے احتجاج کا حق تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں جس سے عام لوگوں کو تکلیف ہو۔
ان کا کہنا ہے کہ ’آئین لوگوں کو پر امن احتجاج کا حق دیتا ہے لیکن یہ احتجاج کہاں کرنا ہے اس کا تعین کرنا حکومت اور انتظامیہ کا کام ہے، اس لیے لوگ جہاں اپنے بنیادی حق کی بات کرتے ہیں اس طرح انھیں بھی حکومت کے اس اختیار کو تسلم کرنا چاہیے جو آئین نے دیا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’لاپتہ افراد کا معاملہ ایک مشکوک موضوع ہے جس کو حکومت کے خلاف پروپیگینڈہ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’جو ڈپٹی کمشنر شاہراہوں کو کھولنے کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو پوری کرنے میں ناکام ہوئے ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔‘

’لائسنس ملنے کے بعد بلوچستان کی پروازوں کو بند کر دیا جاتا ہے‘
میر وائس کاکڑ نے بتایا کہ بلوچستان میں شاہراہوں کی بندش ایک معمول بن گیا ہے جبکہ کوئٹہ سے دوسرے شہروں کے پروازیں بہت کم ہیں۔
انھوں نے دعوی کیا کہ ’جب نجی ایئرلائنز کمپنیاں پاکستان میں کام شروع کرتی ہیں تو وہ لائسنس لینے تک بلوچستان سے پروازیں چلانے پر مجبور ہوتی ہیں لیکن جب ان کو لائنس مل جاتا ہے تو وہ کوئٹہ کے لیے فوری طور پر اپنی پروازیں بند کر دیتی ہیں۔‘
اس وقت فلائی جناح واحد فضائی کمپنی ہے جس کی کوئٹہ اور کراچی کے درمیان روزانہ کی پروازیں ہیں۔
میر وائس کاکڑ کے مطابق ’عام طور پر کوئٹہ اور کراچی کے درمیان فضائی ٹکٹ 18 ہزار روپے کا ہے اور اگر کسی وجہ سے بہت زیادہ ہوجائے تو 20 سے 22 ہزار سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔‘
حال ہی میں ایمرجنسی میں کراچی کے سفر کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’اگر کرایے بہت زیادہ نہیں ہوتے تو چار لوگوں کا مجموعی کرایہ 98 ہزار روپے بنتا لیکن اس کے برعکس ہمیں چار افراد کے لیے 3 لاکھ 92 ہزار روپے دینے پڑے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’عام آدمی تو کوئٹہ سے دوسرے شہروں کے درمیان جہاز سے سفر کے بارے میں سوچ نہیں سکتا لیکن اب کاروباری افراد کے لیے بھی یہ ممکن نہیں رہا۔‘ اسی لیے انھوں نے وفاقی محکمہ ہوا بازی کو ایک مراسلہ بھیجنا پڑا۔
کوئٹہ چیمبر آف کامرس کے مراسلے میں کیا کہا گیا؟
کوئٹہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے مراسلے کے مطابق ’بلوچستان میں امن و امان کی خراب صورتحال کی وجہ سے بڑی شاہراہیں احتجاج اور سکیورٹی خدشات کی وجہ سے بند رہتی ہیں جن پر سفر غیر محفوظ ہے۔‘
دوسری جانب ’پاکستان ریلویز پنجاب اور خیبر پختونخوا کے لیے روزانہ ایک ٹرین چلاتی ہے جبکہ کوئٹہ اور کراچی کے درمیان ہفتے میں صرف دو ٹرین چلتی ہیں۔‘
مراسلے کے مطابق ’اس صورتحال کی وجہ سے عام لوگ بالخصوص تاجر برادری کے لیے ہوائی سفر پر انحصار بڑھ گیا ہے لیکن ایئر لائنز بلوچستان کے لوگوں کو سہولیات پہنچانے کی بجائے ان کا استحصال کر کے بہت زیادہ کرایہ وصول کر رہی ہیں۔‘
مراسلے میں کہا گیا ہے کہ ’چیمبر کے بعض اراکین کے مطابق بعض کیسز میں ان کو ایک ٹکٹ کے لیے ایک لاکھ روپے تک کی ادائیگی کرنا پڑی۔‘
مراسلے کے مطابق ’پی آئی اے اور سیرین ایئر نے اپنی پروازوں کو محدود کیا ہے جس کے باعث مسافروں کے پاس چوائس کم ہے۔ اس وقت فلائی جناح روزانہ کی بنیاد پر کوئٹہ اور اسلام آباد کے درمیان پرواز چلاتی ہے۔دوسری نجی کمپنیاں ایئر بلیو اور ایئر سیال کوئٹہ کے لیے کوئی پرواز نہیں چلا رہی ہیں۔‘
مراسلے میں وفاقی محکمہ ہوا بازی سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ فوری طور پر اقدام کرتے ہوئے ’تمام بڑی ایئر لائنز کمپنیوں سے کہے کہ وہ کوئٹہ تک اپنی پروازوں کو توسیع دیں جو کسی ایک کمپنی کا اجارہ داری ختمکر کے مسابقت کا ماحول پیدا کرتے ہوئے مناسب کرایوں کا باعث بنے گا۔‘
مراسلے میں محکمہ شہری ہوا بازی سےکہا گیا ہے معمول کے مطابق کوئٹہ سے پروازوں کا کرایہ 17000ہزار روپے مقرر کیا جائے اور نزدیکی تاریخوں کی صورت میں اسے زیادہ سے زیادہ 25ہزار روپے تک کیپ کیا جائے۔’فضائی کمپنیوں بالخصوص فلائی جناح کو اس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ 65ہزار روپے سے ایک لاکھ روپے تک کرایہ وصول نہ کرے اور وزارت ایوی ایشن ایسی پالیسی بنائے تاکہ فضائی کمپنیاں کوئٹہ سے اچانک اپنی پروازوں کو بند نہ کرسکیں۔‘
کوئٹہ سے کرایوں میں اضافے کے حوالے سے محکمہ شہری ہوا بازی کا موقف معلوم کرنے کے لیےڈائریکٹر جنرل ریگولیٹری نادر شفیع ڈار سے متعدد بار رابطے کی کوشش کی گئی لیکن انھوں نے نہ کال وصول کی اور نہ ہی واٹس ایپ پر پیغام کا جواب دیا۔
محکمے کے دو تین دیگر سینیئر اہلکاروں سے فون پر رابطہ ہوا لیکن انھوں نے آن دی ریکارڈ بات نہیں کی۔ تاہم ان میں سے ایک اہلکار کا کہنا تھا کہ ریگولیشن کے عمل میں سرکاری محکموں کا عمل دخل کم اور طلب اور رسد کے مطابق اب قیمتوں کا تعین مارکیٹ فورسز کرتی ہیں۔
ہوا بازی کے ایک اہلکار نے اس بات سے اتفاق کیا کہ ’کوئٹہ سے کرایے بہت زیادہ ہیں‘ تاہم ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے دور حکومت میں ریگولیشن کے عمل دخل کو تقریباً ختم کر دیا گیا تھا۔
فلائی جناح کا موقف معلوم کرنے کے لیے کپمنی سے ای میل پر رابطہ کیا گیا تاہم اب تک ان کی جانب سے موقف سامنے نہیں آیا ہے۔
بلوچستان میں سرکاری حکام کا کیا کہنا ہے؟
بلوچستان کے وزیر اعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے بتایا کہ کرایوں میں اضافے کے حوالے سے انھوں نے وزیر اعظم کو خط تحریر کیا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ بلوچستان میں چھ ماہ سے شاہراہوں کی بندش کے مسئلے کا سامنا ہے اور اس کو حل ہونے میں وقت لگے گا۔ ’اس کے نتیجے میں لوگوں کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان کو سفر کے دیگر ذرائع بالخصوص فضائی سفر کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس پس منظر میں فضائی ٹکٹوں کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے نے کوئٹہ سے کراچی، اسلام آباد اور لاہور کے لیے یکطرفہ سفر کو بھی ناممکن بنا دیا ہے ۔
انھوں نے کہا کہ ’کوئٹہ سے دوسرے شہروں کے لیے پروازیں کم ہیں حالانکہ مسافر بہت زیادہ ہیں، وزیر اعظم سے درخواست کی گئی ہے کہ کوئٹہ سے فضائی کرایوں کو ریگولیٹ کرنے کے لیے اقدام کریں تاکہ یہ کرایے بلوچستان کے لوگوں کے بھی بس میں ہوں۔‘