یوکرین پر روس کے حملے کو تین برس ہو چکے ہیں اور اس دوران امریکہ اور بین الاقوامی اتحادیوں نے روس کے ساتھ کسی ’اچھوت‘ جیسا برتاؤ کیا جو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں کا مرتکب رہا۔ تاہم اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس صورتحال کو یکسر پلٹ کر رکھ دیا ہے
فروری 2025 میں جرمنی میں مظاہرین نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اتحادیوں کے ماسک پہنے ہوئے ہیںیوکرین پر روس کے باقاعدہ حملے کو تین برس ہو چکے ہیں اور اس دوران امریکہ اور بین الاقوامی اتحادیوں نے روس کے ساتھ ایک ایسے اچھوت جیسا برتاؤ کیا جو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں کا مرتکب رہا۔
تاہم اب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس صورتحال کو یکسر پلٹ کر رکھ دیا ہے۔وہ ماسکو کے ساتھ تعلقات بحال کر رہے ہیں اور روس کو جارح قرار دینے یا یوکرین کو اس جنگ میں مظلوم تسلیم کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔
یہ معاملہ عوامی سطح پر اس وقت اور نمایاں ہوا جب جمعے کے روز صدر ٹرمپ اور یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کے درمیان ملاقات میں تناؤ اور کشیدگی نے جنم لیا اور اس دوران یوکرین کی جنگ اور اسے ختم کرنے کے طریقۂ کار پر کھل کر بحث کی گئی۔
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ صورتحال 1990 کی دہائی میں جنم لینے والے ’لبرل عالمی نظام‘ (لبرل ورلڈ آرڈر) کے زوال پذیر ہونے کا اشارہ ہے۔ مگر کیا واقعی ایسا ہے؟
لبرل بالادستی کا دور
لبرل عالمی نظام دراصل عالمی معاہدوں، اصولوں اور ضوابط پر مبنی ایک بین الاقوامی نظام کی وضاحت کرتا ہے جس کے پیچھے بنیادی نظریہ یہ ہے کہ مغربی لبرل جمہوریت حکومت کا سب سے بہتر ماڈل ہے۔
اس نظام میں بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ جیسے ادارے، اس کی جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل شامل ہیں۔
یہ نظام ایک مخصوص سوچ اور روایات کی بھی نمائندگی کرتا ہے مثلا آزادانہ تجارت، جس کی حمایت عالمی تجارتی تنظیم، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ،اور عالمی بینک جیسے ادارے کرتے ہیں۔
اس نظام کے تحت بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں کو باضابطہ طور پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں یا بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے فیصلوں کے ذریعے روکا جا سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ان فیصلوں کی روشنی میں اقتصادی پابندیاں عائد کر سکتی ہے یا انتہائی صورت میں فوجی کارروائیوں کی اجازت دے سکتی ہے۔
تاہم اس کے برعکس اکثر پابندیاں اور فوجی کارروائیاں اقوام متحدہ کی منظوری کے بغیر عمل میں لائی جاتی ہیں اور اس پر روس کافی عرصے سے تنقید کرتا رہا ہے۔ سال 2007 میں میونخ سکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے روسی صدر ولادیمیر پوتن نے کہا تھا کہ ’طاقت کے استعمال کو صرف اسی صورت میں جائز سمجھا جا سکتا ہے جب اسے اقوام متحدہ کی منظوری حاصل ہو اور ہمیں اقوام متحدہ کی جگہ نیٹو یا یورپی یونین کو لانے کی ضرورت نہیں ہے۔‘
سنہ 2023 میں پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں خطاب کرتے ہوئے اس وقت کے امریکی صدر جو بائیڈن نے یوکرین کی جنگ کو ’آزادی کی بڑی جنگ‘ قرار دیتے ہوئے اسے اصولوں اور طاقت پر مبنی نظام کے درمیان لڑائی قرار دیا تھا۔
کئی ممالک کے خیال میں یوکرین پر بڑے پیمانے پر حملہ کر کے روس نے نہ صرف بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کی بلکہ عالمی نظام کی بھی دھجیاں بکھیر دی۔ 2014 کے بعد سے روسی صدر پوتن نے خود بھی اقوام متحدہ کی منظوری کے بغیر فوجی طاقت کا استعمال کیا ہے۔
مغربی ممالک کے تناظر میں یوکرین کے خلاف روسی جارحیت سرد جنگ کے بعد قواعد پر مبنی نظام کی سب سے بڑی خلاف ورزی ہے۔
پرنسٹن یونیورسٹی کے پروفیسر جی جان آئیکن بیری نے فنانشل ٹائمز سے بات چیت میں کہا کہ ’ہم نے نظم و نسق کے تین اہم اصولوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی دیکھی ہے۔‘
’پہلی یہ کہ طاقت کے ذریعے علاقائی سرحدیں تبدیل نہیں کی جاتیں۔ دوسری یہ کہ جنگ میں عام شہریوں کے خلاف تشدد کو ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کیا جاتا۔ تیسرا یہ کہ جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی نہیں دی جاتی۔پوتن نے پہلی دو خلاف ورزیوں پر عملاً کام کیا اور تیسری کی دھمکی دی۔ لہٰذا یہ قواعد پر مبنی نظام کے لیے ایک سنگین بحران ہے۔‘
روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف کا موقف ہے کہ مغربی نقطہ نظر میں بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے اداروں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
روس نے متعدد بار 1999 میں نیٹو افواج کی یوگوسلاویہ پر بمباری، 2003 میں امریکی قیادت میں عراق پر حملے اور 2008 میں کوسوو کی آزادی کو تسلیم کیے جانے کی مثالیں دی ہیں جنھیں مغربی طاقتوں کے ایسے اقدامات کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظوری کے بغیر کیے گئے اور جو روس کے مطابق اقوام متحدہ کے اصولوں کی خلاف ورزی ہیں۔
جمعے کو صدر ٹرمپ اور صدر زیلنسکی کے درمیان ہونے والی ڈرامائی ملاقات جس میں تلخ گفتگو کی گئیلبرل ورلڈ آرڈر کی سب سے اہم حالیہ مثالوں میں سے ایک امریکہ کا اسرائیل اور حماس تنازع پر مؤقف تھا۔ بہت سے ممالک نے جو بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے اسرائیل کے لیے فوجی حمایت پر سخت تنقید کی اور واشنگٹن پر ہزاروں فلسطینیوں کی ہلاکتوں سے لاتعلقی برتنے کا الزام لگایا گیا۔
ترکی کی پارلیمان کے سپیکر نعمان کرتلمش نے واشنگٹن پوسٹ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’یہ واضح طور پر منافقت اور دوہرا معیار ہے۔ یہ ایک قسم کی نسل پرستی ہے، کیونکہ اگر آپ فلسطینی متاثرین کو یوکرینی متاثرین کے برابر نہیں سمجھتے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ انسانیت کے اندر ایک درجہ بندی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ناقابل قبول ہے۔‘
آئیکن بیری اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ’لبرل عالمی نظام بڑی حد تک امریکہ، امریکی ڈالر اور امریکی معیشت سے جڑا ہوا تھا۔ یہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے زیادہ نیٹو اور اتحادیوں پر مشتمل تھا۔‘
ان کے مطابق اسے امریکہ کی ’لبرل بالادستی‘ کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔
امریکہ: عملداری سے انتشار تک
صدر بائیڈن مارچ 2022 میں وارسا میں خطاب کرتے ہوئےوہ ممالک جو موجودہ عالمی قوانین کو چیلنج کرتے ہیں انھیں روایتی طور پر ’ترمیم پسند طاقتیں یا ریاستیں‘ کہا جاتا ہے۔ امریکی قانون ساز اور تجزیہ کار بہت برسوں سے چین اور روس کے لیے یہ اصطلاح استعمال کرتے رہے ہیں اور یہ دلیل دیتے رہے کہ دونوں ممالک عالمی سطح پر امریکہ کے اثر و رسوخ کو کم کرنا چاہتے ہیں۔
پروفیسر آئیکن بری کا کہنا ہے کہ حالیہ مہینوں میں امریکہ خود ایسی ریاست بن رہا ہے اور ٹرمپ انتظامیہ عالمی تجارت اور اتحاد سے لے کر جمہوری یکجہتی اور انسانی حقوق کے تحفظ تک ’لبرل ورلڈ آرڈر‘ کے تقریباً ہر پہلو کو ختم کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔
ٹرمپ نے حال ہی میں کہا ہے کہ ’میری انتظامیہ ماضی کی ناکام خارجہ پالیسی، گذشتہ انتظامیہ کی ناکامیوں اور ماضی سے فیصلہ کن دوری اختیار کر رہی ہے۔‘
ان کی انتظامیہ کی جانب سے دیگر سخت گیر چیزوں کے متعارف کروائے جانے کے ساتھ ساتھ یہ تبدیلی کانگریس اور عدلیہ کے لیے بہت مشکل ہو گی کیونکہ وزارت خارجہ براہ راست صدر کے دائرہ اختیار میں آتی ہے۔
امریکی مفادات کا حوالہ دے کر ٹرمپ انتظامیہ نے روس کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کے اقدام کو جائز ٹھہرایا ہے۔ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ’ہم سمجھتے ہیں کہ یہ تنازع روس، یوکرین اور یورپ کے لیے نقصان دہ ہے۔ لیکن سب سے بڑھ کر یہ امریکہ کے لیے نقصان دہ ہے۔‘
تاہم ٹرمپ کی سفارتی پالیسی امریکی عوام میں سب سے کم مقبول رہی ہیں۔ ایک حالیہ سروے کے مطابقامریکی شہریوں کی ترجیح ٹرمپ کی امیگریشن پالیسی ہے جبکہ ٹرمپ کے روس یوکرین جنگ اور اسرائیل فلسطین تنازع پر مؤقف کو عوام میں بہت کم حمایت حاصل ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ دو تہائی سے زیادہ امریکی یوکرین کو اتحادی سمجھتے ہیں اور تقریباً نصف یوکرینی صدر زیلنسکی کے بارے میں مثبت رائے رکھتے ہیں۔
ٹرمپ کی سفارتی ہلچل
نیٹو کے شراکت داروں سمیت کئی ممالک نے امریکہ پر فلسطینیوں کے بارے میں منافقت اور بے حسی کا الزام لگایا یونیورسٹی آف آکسفورڈ میں روسی اور یوریشین سٹڈیز کی ریسرچ فیلو ڈاکٹر جولی نیوٹن کا کہنا ہے کہ ’فروری 2025 میں اب وہ امریکہ ہی ہے جس نے قواعد پر مبنی عالمی نظام کو خطرے میں ڈالا ہے۔ ‘
اس کی مثال وہ ٹرمپ کے یوکرین کے وسائل پر کنٹرول کے مطالبات، روس کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششیں، صدر زیلنسکی پر ٹرمپ کے کھلے حملے، اور یورپ میں دائیں بازو کی جماعتوں کے لیے ان کے اتحادیوں کی حمایت سے دیتی ہیں۔
24 فروری کو روس کے یوکرین پر حملے کے تین سال مکمل ہونے پر امریکہ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی اُس قرارداد کے خلاف ووٹ دیا جس میں روسی جارحیت اور یوکرینی سرزمین پر روسی قبضے کی مذمت کی گئی تھی۔
اس کے بجائے امریکی سفارت کاروں نے ایک بیان میں روس یوکرین تنازع میں جانوں کے ضیاع پر محض افسوس کا اظہار کیا گیا۔
اسی دوران ٹرمپ نے اعلان کیا کہ وہ ماسکو اور واشنگٹن کے درمیان معاشی تعلقات بحال کرنے کے لیے روسی صدر پوتن کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر جولی نیوٹن کا کہنا ہے کہ ’ٹرمپ کی سفارتی پالیسی ’ہیلسنکی چارٹر‘ کے اصولوں کو تباہ کر رہی ہے اور امریکہ کو اپنے ہی اتحادیوں کی نظر میں ایک مخالف کے طور پر پیش کر رہی ہے۔
یاد رہے کہ ہیلسنکی معاہدہ 1975 میں امریکہ، سوویت یونین اور یورپی ممالک کے درمیان طے پانے والا معاہدہ تھا جس کا مقصد علاقائی سالمیت، ممالک کی سرحدوں کو نہ چھیڑنے اورایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کے اصولوں کو مضبوط کرنا تھا۔
جان ہاپکنز یونیورسٹی کے روسی امور کے ماہر سرگئی راڈچینکو کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ’ٹرمپ پوتن کی ہی طرح سوچتے ہیں جیسے 19ویں صدی کے سامراجی حکمران سوچا کرتے تھے۔‘
سرگئی راڈ چینکو مزید کہتے ہیں کہ ’یورپ کے پاس روس پر دباؤ ڈالنے کے لیے مضبوط معیشت اور مالیاتی ذرائع موجود ہیں۔ ٹرمپ پوتن کے ساتھ مذاکرات کو جتنا بھی آگے لے جائیں، یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ یورپی ممالک بھی اسی طرح روس کے ساتھ تعلقات معمول پر لے آئیں گے۔‘
اٹلانٹک کونسل کے یوریشیا سینٹر کی شیلبی ماگڈ کے مطابق ’لبرل عالمی نظام‘ کے خاتمے کا اعلان ابھی قبل از وقت ہوگا۔ امریکہ کی روس پر پابندیاں اب بھی برقرار ہیں اور ٹرمپ انتظامیہ نے عندیہ دیا ہے کہ انھیں صرف اسی صورت میں ہٹایا جائے گا جب روس جنگ ختم کرے گا۔
شیلبی ماگڈ کے مطابق ’میں یہ سمجھتا ہوں کہ وقت سے پہلے اور خطرناک حد تک تعلقات کو معمول پر لانے کا امکان موجود ہے لیکن ہم ابھی مکمل طور پر وہاں نہیں پہنچے۔‘
’آخرکارعالمی نظام پر دیرپا اثرات کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ جنگ کس طرح ختم ہوتی ہے اور امن کیسے نافذ کیا جاتا ہے بجائے اس کے کہ اس نتیجے تک کیسے پہنچا جاتا ہے۔‘