امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے حا ہی میں بلایا گیا کابینہ کا اجلاس ایلون مسک اور حکومتی وزرا کے درمیان تلخ کلامی کی نذر ہو گیا۔ جلدبازی میں بُلایا گیا کابینہ کا یہ اجلاس اس بات کا ثبوت ہے کہ صدر ٹرمپ نے سپیس ایکس اور ٹیسلا کے مالک اور ان کے اخراجات کی کمی کے منصوبے کو ملنے والے اختیارات کو کم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق ایلون مسک نے سیکریٹری خارجہ مارکو روبیو پر الزام عائد کیا کہ وہ محکمہ خارجہ کے اخراجات کم کرنے میں ناکام ہوئے ہیںگذشتہ جمعرات کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی کابینہ میں شامل سیکریٹریز کا ایک اجلاس بُلایا تھا تاکہ ایلون مسک اور ان کے حکومتی اخراجات کو کم کرنے کی کوششوں پر بات چیت ہو سکے۔
لیکن میڈیا پر منظرِ عام پر آنے والی اطلاعات کے مطابق یہ اجلاس ایلون مسک اور دیگر افراد کے درمیان تلخ کلامی کی نذر ہو گیا۔
نیو یارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق اس اجلاس میں ایلون مسک نے سیکریٹری خارجہ مارکو روبیو پر الزام عائد کیا کہ وہ محکمہ خارجہ کے اخراجات کم کرنے میں ناکام ہوئے ہیں۔
اخبار کے مطابق مسک نے سیکریٹری روبیو کو کہا کہ وہ صرف ’ٹی وی پر ہی اچھے‘ نظر آتے ہیں۔
امریکی اخبار کے مطابق اسی اجلاس میں ارب پتی مسک کی سیکٹریٹری آف ٹرانسپورٹیشن شون ڈفی سے بھی اس بات پر تلخ کلامی ہوئی کہ ڈپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشینسی (ڈوج) ایئر ٹریفک کنٹرولرز کی برطرفی کی بھی کوشش کر رہا ہے، جبکہ ٹرانسپورٹیشن ڈپارٹمنٹ کے پاس پہلے ہی کنٹرولرز کی کمی ہے۔
شون ڈفی کا محکمہ جنوری سے ہی سب کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے جب ایک امریکی مسافر طیارہ ایک فوجی ہیلی کاپٹر سے ٹکرا گیا تھا۔
اطلاعات کے مطابق اجلاس میں ہونے والی تلخ کلامی کے بعد صدر ٹرمپ کو بیچ میں دخل اندازی کرنی پڑی تھی اور یہ واضح کرنا پڑا تھا کہ وہ اب بھی ڈوج کے حامی ہیں۔
اجلاس میں ہونے والی تلخ کلامی کے بعد صدر ٹرمپ کو بیچ میں دخل اندازی کرنی پڑی تھی اور یہ واضح کرنا پڑا تھا کہ وہ اب بھی ڈوج کے حامی ہیںتاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ تمام محکموں کے ذمہ دار سیکریٹریز خود ہیں اور مسک کی ٹیم صرف انھیں تجاویز دے سکتی ہے۔
محکمہ خارجہ کی ایک ترجمان نے نیو یارک ٹائمز کو بتایا کہ سیکریٹری روبیو محسوس کرتے ہیں کہ کابینہ کا اجلاس میں ’تعمیری اور کھل کر بات چیت‘ ہوئی ہے۔ بی بی سی نے اس معاملے پر وائٹ ہاؤس بھی رابطہ کیا، تاہم اس کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔
جلدبازی میں بُلایا گیا کابینہ کا یہ اجلاس اس بات کا ثبوت ہے کہ صدر ٹرمپ نے سپیس ایکس اور ٹیسلا کے مالک اور ان کے اخراجات کی کمی کے منصوبے کو ملنے والے اختیارات کو کم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
ٹرمپ نے جمعرات کو ہونے والے اجلاس میں ہونے والی گفتگو پر اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں روشنی ڈالی تھی۔
ٹُرتھ سوشل پر اپنی ایک پوسٹ میں ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے اپنی کابینہ میں شامل سیکریٹریز کو ڈوج کے ’اخراجات میں کمی کے اقدامات‘ پر ساتھ کام کرنے کی ہدایات دی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے سیکریٹریز نے سب کچھ سُن اور سمجھ لیا ہے لیکن کسی کو ملازمت پر رکھنا ہے اور کس کو نکالنا ہے یہ فیصلہ وہ خود کریں گے۔
کچھ ہی ہفتوں قبل مسک ایک کانفرنس میں چین سا (برقی آری) لے کر شامل ہوئے تھے جس کا مقصد یہ دکھانا تھا کہ وہ حکومتی اخراجات کو کم کرنے کی اپنی جارحانہ کوششیں جاری رکھیں گے۔ ان کے اس عمل پر ڈیموکریٹک پارٹی کے کچھ اراکین نے غصے کا بھی اظہار کیا تھا۔
مسک کی ٹیم نے کچھ عرصے پہلے سرکاری اکاؤنٹ سے وفاقی ملازمین کو ایک ای میل کی تھی کہ وہ ایڈوانس تنخواہ کے بدلے میں اپنی ملازمتوں سے استعفیٰ دے دیں۔
اس ای میل میں وفاقی ملازمین کو ہدایات دی گئی تھیں کہ وہ گذشتہ ہفتے کیے گئے اپنے کام کی تفصیل بھی ارسال کریں اور نہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں انھیں ملازمتوں سے برطرف کیا جا سکتا ہے۔
کچھ ہی ہفتوں قبل مسک ایک کانفرنس میں چین سا (برقی آری) لے کر شامل ہوئے تھے جس کا مقصد یہ دکھانا تھا کہ وہ حکومتی اخراجات کو کم کرنے کی اپنی جارحانہ کوششیں جاری رکھیں گےمسک کے محکمہ ڈوج نے حال ہی میں بھرتی کیے گئے سرکاری ملازمین کو نوکریوں سے برطرف کرنے کے احکامات بھی جاری کیے تھے۔ تاہم کچھ حکومتی اداروں نے ان احکامات پر عمل نہیں کیا کیونکہ ان کی نظر میں ان ملازمین کا ملازمتوں پر رہنا ضروری ہے۔
جمعے کو اوول آفس میں صدر ٹرمپ سے کابینہ کے اجلاس میں ہونے والی تلخ کلامی کے حوالے سے سوالات کیے گئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اجلاس میں ’کوئی لڑائی نہیں ہوئی۔‘
انھوں نے سیکریٹری خارجہ اور مسک کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ دونوں ’زبردست طریقے‘ سے ساتھ کام کر رہے ہیں۔
تاہم جمعرات کو صدر ٹرمپ کی سوشل میڈیا پوسٹ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ وہ سیکریٹریز کو مسک کے احکامات نہ ماننے کے مزید اختیارات دے رہے ہیں۔
ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ صدر ٹرمپ اپنی انتظامیہ کو ان قانونی مقدمات سے بچانا چاہتے ہوں جن میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ مسک کو کابینہ میں شامل سیکریٹریز کے مقابلے میں بے تحاشا اختیارات دیے گئے ہیں اور قانونی طور پر ان کے کام پر نظرِثانی سینیٹ بھی نہیں کر سکتی۔
ان مقدمات کو سُننے والے متعدد جج پہلے ہی مسک کو حاصل اختیارات پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔
اب تک صدر ٹرمپ اور امریکہ کے امیر ترین شخص مسک کے درمیان شراکت داری مضبوط نظر آتی ہے۔ تاہم واشنگٹن میں یہ قیاس آرائیاں بھی جاری ہیں کہ کیا اس شراکت داری میں دراڑ آ سکتی ہے۔
تاہم ان پیش گوئیوں کے باوجود دونوں شخصیات کے درمیان تعلقات مضبوط ہوتے ہوئے نظر آئے ہیں۔
جمعے کی رات کو مسک صدر ٹرمپ کے ساتھ فلوریڈا جانے کے لیے ایئرفورس ون پر سوار ہوتے ہوئے نظر آئے تھے۔
کابینہ کے اجلاس میں ہونے والی تلخ کلامی شاید دونوں کے درمیان شراکت داری کی بنیاد میں پہلی دراڑ ہو لیکن یہاں ایسے ثبوت بھی موجود ہیں جنھیں دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ صدر ٹرمپ اب بھی مسک کی کوششوں اور مقاصد کے حامی ہیں۔