انڈونیشیا میں ایک ٹک ٹاکر کو مبینہ طور پر اپنے فون پر حضرت عیسیٰ کی تصویر سے 'بات کرنے' اور انھیں بال کٹوانے کی ترغیب دینے پر تقریباً تین سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
انڈونیشیا میں ایک ٹک ٹاکر کو مبینہ طور پر اپنے فون پر حضرت عیسیٰ کی تصویر سے ’بات کرنے‘ اور انھیں بال کٹوانے کی ترغیب دینے پر تقریباً تین سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
رتو تھیلیسا، ایک مسلم ٹرانسجینڈر خاتون ہیں، جن کے ٹک ٹاک پر چار لاکھ 42 ہزار سے زیادہ فالوورز ہیں۔
انھوں نے یہ حرکت اس وقت کی جب وہ لائیو سٹریم پر تھیں اور اس تبصرے کا جواب دے رہی تھیں جس میں ان سے کہا گیا تھا کہ وہ ایک مرد کی طرح نظر آنے کے لیے اپنے بال کٹوا لیں۔
پیر کو سماٹرا کی ایک عدالت نے تھیلیسا کو ایک متنازعہ آن لائن نفرت انگیز بیان کے قانون کے تحت نفرت پھیلانے کا مجرم قرار دیا اور دو سال اور 10 ماہ قید کی سزا سنا دی۔
عدالت نے رتو پر توہینِ مذہب کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ان کے تبصرے معاشرے میں ’عوامی نظم و ضبط‘ اور ’مذہبی ہم آہنگی‘ کو متاثر کر سکتے ہیں۔
یہ عدالتی فیصلہ متعدد مسیحی گروپوں کی جانب سے پولیس کے پاس ٹک ٹاکر خاتون کے خلاف توہین مذہب کی شکایات درج کرنے کے بعد آیا۔
استغاثہ نے رتو کو چار سال سے زیادہ کی سزا دینے کی درخواست کی تھی اور سزا میں اضافے کے لیے اس فیصلے کے خلاف اپیل بھی کی ہے۔
رتو تھیلیسا کو فیصلے کے خلاف اپیل کے لیے سات دن کا وقت دیا گیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کے گروپوں نے اس سزا کی مذمت کی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اسے ’رتو تھیلیسا کی آزادی اظہار پر حملہ‘ قرار دیتے ہوئے سزا کی منسوخی کا مطالبہ کیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈونیشیا کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عثمان حامد نے ایک بیان میں کہا کہ ’انڈونیشیا کے حکام کو سوشل میڈیا پر کیے گئے تبصروں پر لوگوں کو سزا دینے کے لیے ملک کے الیکٹرانک انفارمیشن اینڈ ٹرانزیکشنز قانون کا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔‘
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’انڈونیشیا کو مذہبی منافرت کی وکالت پر پابندی لگانی چاہیے جو امتیازی سلوک، دشمنی یا تشدد کو اکساتی ہے اور یہ کہ رتو تھیلیسا کا عمل اس حد تک نہیں پہنچتا۔‘
عثمان حامد نے انڈونیشیا کے حکام سے خاتون ٹک ٹاکر کی سزا کالعدم کرنے اور ان کی فوری رہائی کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اہلکار نے انڈونیشین حکام پر یہ بھی زور دیا کہ وہ اس متنازع قانون کی ’مسائل پیدا کرنے والی دفعات‘ کو منسوخ کریں یا اس میں خاطر خواہ ترمیم کریں۔
انڈونیشیا میں یہ قانون پہلی بار 2008 میں متعارف کرایا گیا اور آن لائن ہتک عزت سے نمٹنے کے لیے 2016 میں اس میں ترمیم کی گئی۔
یہ قانون انٹرنیٹ پر عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے تیار کیا گیا تھا تاہم انسانی حقوق کے گروپوں، پریس گروپس اور قانونی ماہرین کی طرف سے اس پر شدید تنقید کی جاتی رہی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ 2019 اور 2024 کے درمیان کم از کم 560 افراد پر اس قانون قانون کی مبینہ خلاف ورزیوں کا الزام لگایا گیا جو اظہار رائے کی آزادی کا حق استعمال کر رہے تھے۔
تنظیم کا کہنا ہے کہ ان میں سے 421 افراد کو اس قانون کے تحت سزا سنائی گئی جن میں کئی سوشل میڈیا انفلوئنسرز بھی شامل ہیں جن پر ہتک عزت اور نفرت انگیز تقریر کے الزامات لگائے گئے ہیں۔
ستمبر 2023 میں، ایک مسلمان خاتون کو اسلام کی توہین کرنے پر دو سال قید کی سزا سنائی گئی، جب اس نے ایک وائرل ٹک ٹاک ویڈیو پوسٹ کی جس میں اس نے سور کا گوشت کھانے سے پہلے وہ جملہ ادا کیا جو مسلمان عموماً کھانے کے آغاز پر ادا کرتے ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق 2024 میں ایک اور ٹک ٹاکر کو توہین مذہب کے الزام میں حراست میں لیا گیا کیونکہ انھوں نے بچوں سے پوچھا کہ کس قسم کے جانور قرآن پڑھ سکتے ہیں۔
انڈونیشیا میں اگرچہ مسلمان اکثریت میں ہیں لیکن یہاں بہت سی مذہبی اقلیتیں بھی رہتی ہیں جن میں بودھ، مسیحی اور ہندو شامل ہیں۔
ای آئی ٹی قانون کی خلاف ورزی کرنے پر جن لوگوں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں عام طور پر ان کا تعلق مذہبی اقلیتوں سے ہی رہا ہے اور رتو تھیلیسا کا معاملہ، جہاں ایک مسلمان خاتون پر مسیحیت کے خلاف نفرت انگیز تقریر کرنے کا الزام ہے، عام نہیں۔