بی بی سی نیوز نے عینی شاہدین سے بات کی جنھوں نے بتایا کہ یہ واقعہ کیسے پیش آیا اور 30 منٹ کے اندر اندر انھوں نے کیسے اپنی جانیں بچائیں
'سولونگ' نامی کارگو جہاز اب بھی سمندر میں ہی موجود ہے اور اس پر لگی آگ مکمل طور پر نہیں بجھائی جا سکی ہے’سٹینا امیکولیٹ‘ نامی آئل ٹینکر میں امریکی فوج کے لیے ایندھن لادا جا چکا تھا اور وہ بندرگاہ سے تھوڑا ہی باہر موجود تھا جب اچانک ’سولونگ‘ نامی ایک کارگو جہاز اس سے آن ٹکرایا۔
یہ سوموار کا دن تھا جب ’سٹینا امیکولیٹ‘ کے عملے کے مطابق یہ واقعہ پیش آیا۔ اس کے بعد آئل ٹینکر میں آگ بھڑک اٹھی۔ جلد ہی پورے ٹینکر سے شعلے بلند ہونے لگے اور متعدد دھماکے بھی ہوئے۔
اس واقعے کے بعد اب تک ’سولونگ‘ نامی کارگو جہاز سمندر میں ہی موجود ہے اور آگ مکمل طور پر نہیں بجھائی جا سکی ہے۔
بی بی سی نیوز نے عینی شاہدین سے بات کی جنھوں نے بتایا کہ یہ واقعہ کیسے پیش آیا اور 30 منٹ کے اندر اندر انھوں نے کیسے اپنی جانیں بچائیں۔
’سٹینا امیکولیٹ‘ برطانیہ کی ہل بندرگاہ کے باہر موجود تھا اور ایک تجربہ کار امریکی ملاح، جو اس پر سوار تھے، نے بی بی سی کے امریکی نشریاتی پارٹنر ادارے سی بی ایس نیوز کو بتایا کہ وہ اس مقام کے قریب ہی تھے جہاں کارگو جہاز ٹکرایا۔
انھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے پاس ردعمل کے لیے چند ہی سیکنڈ تھے۔ ان کو یاد ہے کہ ’سٹینا‘ پر موجود عملہ ایک دوسرے کو چِلا چِلا کر وارننگ دے رہا تھا۔ ان کے مطابق ٹکرانے کے بعد ’دس منٹ تک ایسا لگ رہا تھا کہ سولونگ نامی جہاز سٹینا کے اندر گھستا چلا جا رہا ہے۔‘
دائیں جانب سٹینا امیکولیٹ میں تصادم سے ہونے والا سوراخ دیکھا جا سکتا ہے جبکہ بائیں جانب سولونگ کارگو جہاز کا وہ حصہ جو ٹکرایاعملے کے اس رکن کے مطابق باقی افراد نے بتایا کہ کریش کے وقت سولونگ پر کوئی بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔
اس حادثے کی تفتیش کے دوران سولونگ کارگو جہاز کے کپتان کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ برطانیہ میں ہمبرسائیڈ پولیس کے مطابق ایک 59 سالہ شخص کو حراست میں لیا گیا ہے۔ برطانوی وزیر برائے ٹرانسپورٹ کے مطابق تفتیش کا آغاز ہو چکا ہے اور یہ واضح ہے کہ ’کچھ بہت غلط ہوا۔‘
میرین ٹریفک کے ڈیٹا کے مطابق حادثے کے وقت سولونگ 18 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر رہا تھا جب کہ سٹینا امیکولیٹ غیر متحرک تھا۔
’چند ہی سیکنڈ کا وقت تھا‘
سٹینا کے عملے کے جس رکن نے سی بی ایس نیوز نے بات کی، انھوں نے بتایا کہ حادثے کے فوری بعد آگ کے شعلے بھڑک اٹھے تھے اور عملے نے آگ بھجانے کی کوششوں کا آغاز کر دیا تھا۔ ملاح کا کہنا تھا کہ ’سب کے پاس چند ہی سیکنڈ کا وقت تھا۔‘
لیکن سٹینا کا عملہ اس طرح کے حادثے کے لیے تربیت رکھتا تھا۔ اسی جہاز پر موجود ایک اور ملاح نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ ’میری نظر شعلوں پر جم کر رہ گئی تھی۔ میں نے نیچے دیکھا۔ مجھے کنٹینر دکھائی دیے، میں نے اوپر دیکھا تو جہاز نظر آیا اور پھر آگ۔‘
اور اسی وقت ان کو اپنی تربیت یاد آ گئی اور انھوں نے آگ بجھانے کے عمل میں ہاتھ بٹانا شروع کر دیا۔ لیکن جلد ہی سٹینا کے عملے کو احساس ہو گیا کہ ان کی کوششیں ناکافی تھیں اور جہاز کو بچانا ناممکن تھا۔ اس وقت فیصلہ کیا گیا کہ جہاز کو چھوڑ دیا جائے۔ عملے نے جہاز میں اپنے اپنے کیبن کا رخ کیا تاکہ ضرورت کا سامان نکال سکیں جیسا کہ ایمرجنسی آلات، لائف جیکٹ اور پھر پہلے سے طے شدہ مقام پر پہنچے۔
سٹینا امیکولیٹ کے مناظرلوگوں کی گنتی اور کشتیاں
اس موقع پر عملے کی گنتی کی گئی تاکہ یقینی بنایا جائے کہ جہاز پر سوار تمام افراد کشتیوں میں بیٹھ جائیں۔ کشتیوں میں سوار ہوتے ہوئے آگ کے شعلے عملے کے اراکین کے اتنے قریب آ چکے تھے کہ چند کے مطابق اُن کے سر کے بال بھی جل گئے۔
عملے کے تمام 23 امریکی اراکین آئل ٹینکر سے زندہ نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ کپتان ٹینکر کو چھوڑنے والے آخری شخص تھے۔ عملے کے ایک رکن نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ صرف اپنا فون اور بٹوہ لے کر نکلے تھے۔
دوسری جانب اب تک سولونگ نامی پرتگال کے کارگو جہاز پر پیش آنے والے واقعات واضح نہیں۔ یہ کارگو جہاز سکاٹ لینڈ سے نیدرلینڈ جا رہا تھا جب سٹینا امیکولیٹ سے ٹکرایا۔
اس کارگو جہاز کے عملے کے 14 اراکین میں سے 13 کو بچا لیا گیا ہے۔ لاپتہ ہونے والے ایک رکن کو تلاش کرنے کے لیے ریسکیو کارروائیوں کا آغاز کیا تاہم 12 گھنٹے کے بعد یہ خیال کر لیا گیا کہ یہ شخص حادثے میں ہلاک ہو چکا ہے۔ ان کی شناخت اب تک ظاہر نہیں کی گئی۔ ذرائع نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ سولونگ کے عملے میں روسی اور فلپائن کے شہری شامل تھے۔
کوسٹ گارڈ کے مطابق سولونگ میں اب تک آگ لگی ہوئی ہے۔ ایسے میں یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ یہ جہاز ڈوبے کیوں نہیں؟

تصاویر کی مدد سے سٹینا کو پہنچنے والے نقصان کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس پر لگنے والی آگ بجھ چکی ہے۔ سٹینا کی ایک جانب بہت بڑا سوراخ دکھائی دیتا ہے جس سے پانی بہتا ہوا بھی نظر آتا ہے۔
ماہرین کے مطابق سٹینا امیکولیٹ کا ڈیزائن ایسا ہے کہ یہ ڈوبا نہیں، کیوںکہ اس میں کارگو یا سامان لے کر جانے کے لیے متعدد ٹینک بنائے گئے ہیں۔
دوسری جانب سولونگ کو ایک رسی کی مدد سے ایک ٹگ بوٹ سے باندھا گیا ہے۔ سولونگ سمندر میں تیر رہا ہے لیکن تجزیوں کے مطابق یہ صورتحال زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہے گی۔