جب لوگ تابوت میں سونے کے لیے پیسے ادا کیا کرتے تھے

رومی نوبیاہتا جوڑے کے لیے بستروں سے لے کر انیسویں صدی کے مزدوروں کے لیے گپ شپ کے بنچوں تک، رات کی اچھی نیند صدیوں سے ہماری تلاش رہی ہے۔
لندن تابوت گھر
Getty Images
’تابوت گھروں‘ نے لندن میں بے گھر افراد کے لیے کھانا اور سونے کے لیے محفوظ جگہ فراہم کی

سکاٹ لینڈ کے جزیرے اورکنی کے مغربی ساحل پر سکارا بری کا قدیم گاؤں واقع ہے۔ یہاں بھول بھلیوں جیسے سرسبز ٹیلوں کی گھاس کے اوپر موٹی دیواروں سے گھرے ہوئے ایک کمرے پر مشتمل گھر ہیں۔ یہ تقریباً ساڑھے چار ہزار سال سے بے آباد ہیں۔

لیکن ہر گھر کے اندر دو چیزیں ایسی ہیں جن سے جدید دور کے لوگ بھی شناسائی رکھتے ہیں اور وہ بستر ہیں۔

درختوں کے بغیر اس جزیرے پر پائے جانے والے زیادہ تر نوادرات کی طرح یہ قدیم بستر ٹھنڈے، سخت پتھر کی سلوںسے بنائے گئے ہیں۔

سر کی جانب سے لمبے اور اونچی اطراف کےباجود وہ فوراً پہچانے جاتے ہیں۔ کچھ پر پائے جانے والے قدیم کتبوں اور کبھی کبھار ان کے نیچے چھپائے گئے ڈھانچےسے ہٹ کر دیکھیں تو شاید ان کا تعلق اکیسویں صدی سے ہو سکتا ہے۔

انسان ہزاروں برس سے بستر بنا رہا ہے۔

اسی حوالے سے ایک کتاب What we did in bed: a horizontal history کیلیفورنیا یونیورسٹی میں ماہر بشریات سانتا باربرا اور آثار قدیمہ کی ماہر نادیہ درانی نے لکھی۔ انھوں نے اس میں بہت ابتدائی زمانے کے بارے میں ایک چارٹ کی مدد سے بتایا۔

زیادہ تر انواع کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ان کی سونے کی جگہوں میں احتیاط سے تہہ دار پتوں کے بہت بڑے ڈھیر ہوتے ہیں جن کے اوپر نرم، کیڑوں کے خلاف مزاحمت کرنے والے پتے ہوتے ہیں۔

پھر اس کے بعد ہمیں ابتدائی بستر کے فریم دکھائی دیتے ہیں۔

سکارا بری میں ریت کے پتھر کے بیڈ کے فریم اب تک کے سب سے پرانے پتھروں میں سے ایک ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سٹون ہینج کے قریب ڈورنگٹن والز کی بستی میں مٹی پر موجود نقوش کا ایک سلسلہ بھی ہے۔

یہاں طویل عرصے سے غائب ہونے والے لکڑی کے بیڈ باکسز کا خاکہ ہے جہاں اس یادگار کے بنانے والے کبھی سوئے ہوں گے۔

تقریباً پانچ ہزار سال پہلے یہ سامنے آیا تھا کہ اہم ٹیکنالوجیکے آنے کے کچھ ہی عرصے بعد بیڈ کے فریم تقریباً ایک ہی وقت میں کئی جگہوں پر منظر پر آئے۔

مالٹا کے شہر اورکنی سے تقریبا 2735 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ’رسمی تدفین کی سرنگوں‘ سے اس فرنیچر کے ابتدائی نمونوں کے شواہد ملے ہیں جن میں ایک عورت کا مٹی کا مجسمہ بھی شامل ہے جو کروٹ پر سکون سے سو رہی ہے۔

ابتدا میں دکھائی دینے والے یہ بستر صرف آرام کرنے کی جگہیں نہیں تھیں۔

درانی کے مطابق وہ اکثر علامتی معنی رکھتے تھے اور بعد کی زندگی سے تعلق رکھتے تھے۔

آگے آنے والے ہزاروں برسوں میں بستر نے متعدد قسم کی شکل اختیار کی۔ یہ اس زمانے ثقافتوں کے عقائد اور عملی خدشات کی عکاسی کرتی ہے جسے لوگوں نے خود ہی جانا۔

یہاں کم از کم مغربی دنیا میں ’نیند کے ان مندروں‘ کی ایک مختصر تاریخ ہے.

قدیم مصر میں سستانے اور سونے کے پلیٹ فارم

جب ہاورڈ کارٹر نے 1922 میں بادشاہ توتن خامون کے مقبرے میں پلاسٹر کا دروازہ توڑاتو ان کا استقبال سونے کی چیزوں کے ایک چمکدار ذخیرے سے ہوا۔

ان چیزوں میں سے چھ بستر تھے۔

اس وقت دو ڈکیتیوں کے بعد بے ترتیب طور پر پھینکی جانے والی اشیا میں موجود اقسام میں لکڑی کا ایک بستر اور سفر کے لیے ایک کیمپ بیڈ شامل تھا جس میں اس وقت کی جدید فولڈنگ ٹیکنالوجی موجود تھی اور شاید یہ اپنی نوعیت کی پہلی ایسی چیز تھی۔

One of Tutankhamun's beds
Getty Images
بادشاہ توتن خامون اپنے مقبرے کے اندر موجود قیمتی خزانے کے حوالے سے بہت معروف ہیں جن میں چھ بستر بھی شامل تھے

زیادہ تر قدیم مصری بستروں کی طرح جو امیر اشرافیہ کے لیے بنائے گئے تھے توتن خامون کے بیڈزیادہ تر لکڑی کے فریم پر مشتمل ہیں جسے رسی یا تار سے بُنا جاتا تھا۔

اور جیسا کہ اس وقت رواج تھا، نوجوان بادشاہ ہر رات نرم تکیے کی بجائے ایک سخت اونچے سر ہانے پر پر سر رکھ کر سوتے تھے۔

یہ نظام اکثر گرم علاقوں میں پایا جاتا تھا جہاں اس سے ہوا کی گردش کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

یہ احتیاط سے بنائے گئے ہیئر سٹائل کی حفاظت کے ایک طریقے کے طور پر بھی پرکشش ہو سکتا تھا۔ قدیم مصری، بشمول توتن خامون کی اپنی دادی، کبھی کبھار بالوں کو گھنگھریالے یا چوٹی بنا کر یا سٹائل بناتی تھیں۔

قدیم روم میں ہر موقعے کے لیے الگ بستر

قدیم روم میں بہت سے معاشروں کر طرح خواب گاہیں ان کی معاشرتی حیثیت پر منحصر تھیں۔

اگرچہ کچھ غلام ہر رات سوکھے پتوں یا جانوروں کی کھالوں کی چٹائی پر سوتے یا صرف ننگی زمین پر لیٹ جاتے لیکن دوسروں کے بستر زیادہ آرام دہ تھے۔

سنہ 2021 میں ماہرین آثار قدیمہ رومی شہر پومپئی کے مضافاتی علاقے سیویٹا جولیانا میں ایک قدیم ولا کے میدان کی کھدائی کر رہے تھے جب انھوں نے ایک ایسے بیڈروم کا انکشاف کیا جو تقریبا 2 ہزار سال سے منجمد تھا۔

صندوقوں، لکڑی کی الماری اور دیگر چیزوں کے درمیان تین بستر تھے اور نیچے سٹوریج جار تھے جن میں چوہوں کی باقیات تھیں جو ان کے نیچے رہتے تھے۔

پتلی رسی سے بنی لکڑی کی چوکیوں پر گدے نہیں تھے اس کے بجائے انھیں کمبلوں سے ڈھانپ دیا گیا تھا۔

مجسمہ
Getty Images
مالٹا میں کھدائی کے دوران مٹی کا مجسمہ ملا جس میں ایک خاتون کو آرام سے سوتے ہوئے دکھایا گیا

دوسری طرف امیر شہریوں کے پاس اس سے کہیں زیادہ بستر تھے شاید ضرورت سے بھی زیادہ۔

رومیوں نے مختلف سرگرمیوں کے لیے مختلف قسم کے بستروں کی ایک وسیع درجہ بندی ایجاد کی، جن میں مطالعہ کے لیے الگ، نوبیاہتا جوڑوں کے لیے الگ، کھانے اور دعوتوں کے لیے الگ قسم کے بیڈ شامل ہیں۔

یہاں تک کہ ان کے پاس آخری رسومات کے لیے وقف بستر بھی تھا۔ ان میں سے زیادہ تر بستر دھات سے بنے ایک اونچے پلیٹ فارم پر مشتمل تھے جس کے اوپر ایک پتلا گدا تھا۔

ماڈرن یورپ

17ویں صدی تک یورپ مکینوں کے پاس بستر منتخب کرنے کے لیے بہت آپشنز تھے۔ وہاں باکس بیڈ، رسی سے باندھے جانے والے بستر تھے جنھیں باقاعدہ طور پر کسنا بھی پڑتا تھا اور لکڑی کے بستر جیسے گریٹ بیڈ آف ویئر ، جس پر مبینہ طور پر 52 افراد سو سکتے تھے لیکن ابتدائی جدید بستر کا ایک اہم جزو گھاس پھوس سے بنا گدا بھی تھا۔

یہ سادہ تھیلے جو کبھی کبھی تعداد میں بہت زیادہ ہوتے تھے اورمضبوطی سے بنے ہوئے کپڑے جیسے لینن سے بنائے جاتے تھے، انھیں ’ٹکنگ‘ کہا جاتا ہے۔ انھیں پروں اور بھوسے کے علاوہ مختلف قسم مواد سے بھرا جا سکتا ہے۔ اس میں استعمال ہونے والا خاص مواد سونے والے کی نیند کے معیار پر نمایاں اثر ڈالتا ہے۔

’ایٹ ڈے کلوز: اے ہسٹری آف نائٹ ٹائم‘ نامی کتاب کے مطابق 1646 میں سوئٹزرلینڈ میں ایک مسافر نے پتوں سے بھرے بستر پر رات گزارنے کے بعد شدید شکایت کی تھی کیونکہ اس کی وجہ سے ان کی جلد پھٹ گئی تھی۔

اگرچہ گھاس پھوس سے بنے میٹرس یا بستر ایسے تھے جو معمول میں کاٹنے والے کیڑے مکوڑوں کی افزائش کے لیے ایک نہایت موزوں گراؤنڈ تھے۔

اور اس کے ساتھ ہی اس دور میں بہت سے لوگوں جن میں اجنبی لوگ بھی شامل ہوتے ہیں کی ایک ہی بستر پر سونے کی عادت اکثر کسی خطرناک انفیکشن کے پھیلاؤ کا نتیجہ بنتی تھی۔

وہ بستر جس پر سونے کے لیے پیسے دیے جاتے

19ویں صدی تک انگلینڈ میں عدم مساوات حد سے تجاوز کر چکی تھی کیونکہ محنت کش طبقہ نئی صنعتی معیشت میں روزی کمانے کے لیے کوشاں تھا۔

تیزی سے بڑھتی آبادی کی وجہ سے قصبوں اور شہروں میں ایسی صورتحال بنی جس میں لوگوں کے پاس گھر نہیں تھا۔ایسے میں لندن میں خیراتی اداروں نے کچھ غیر روایتی حل پیش کیے۔

ان میں سے ایک ’فور پینی تابوت‘ تھا: تابوت کی شکل کے ڈبے، جو قطاروں میں رکھے گئے تھے، جس میں لوگ رات کو سونے کے لیے چار پنس دیتے تھے۔

ایک اور رسی کا بستر تھا، جسے ’دو پیسے کا ہینگ اوور‘ بھی کہا جاتا ہے، جس میں سینکڑوں دیگر لوگوں کے ساتھ ایک ہی بینچ پر بیٹھنا اور ایک لمبی رسی پر جھکنا شامل تھا، پھرصبح اسں رسی کو کاٹ دیا جاتا تھا تاکہ اچانک ہر اس شخص کو جگا دیا جائے جو اب بھی سو رہا ہو۔

یہ لفظ ’ہینگ اوور‘ کی ابتدا کے لیے ایک ممکنہ وضاحت ہے۔

لیکن مالی لحاظ سے دیکھیں تو کچھ لوگوں کی نیند نمایاں طور پر بہتر ہونے والی تھی۔

1900 کی دہائی کے آخر میں ایک جرمن موجد نے گدوں میں سپرنگ کو متعارف کروایا اور پھر نیند پہلے جیسی نہیں رہی۔

آج پہلے سے کہیں زیادہ آپشنز موجود ہیں، فوم بیڈ، پانی کے بستر، گرم بستر، فٹن، بنک بیڈ، عثمانی بستر، کنوپی یعنی چھتری نما بستر ۔۔۔ اس کی ایک طویل فہرست ہے۔

ہم تو صرف یہ سوچ سکتے ہیں کہ سکارا بری کے باشندوں نے اس سے کیا بنایا ہوگا۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.