ٹرمپ کے حکم پر وائس آف امریکہ کے پاکستان سمیت دنیا بھر میں موجود عملے کو ’انتظامی چھٹی‘ پر بھیج دیا گیا

وائس آف امریکہ، وی او اے، کے ملازمین کو ہفتے کے روز جبری یا انتظامی رخصت پر بھیج دیا گیا، جبکہ دو امریکی نشریاتی اداروں، جو آمرانہ حکومتوں والے ممالک میں نشریات چلاتے ہیں، کی فنڈنگ میں کٹوتی کر دی گئی۔
voa
Getty Images

ڈونلڈ ٹرمپ نے سرکاری امداد سے چلنے والے خبر رساں ادارے وائس آف امریکہ پر 'ٹرمپ مخالف' اور 'بنیاد پرست' ہونے کا الزام لگاتے ہوئے اس کی فنڈنگ ختم کرنے کے صدارتی حکمنامے پر دستخط کیے ہیں۔

وائٹ ہاؤس کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ حکم 'اس بات کو یقینی بنائے گا کہ ٹیکس ادا کرنے والے اب بنیاد پرست پروپیگنڈے کی زد میں نہیں ہیں'، اور اس بیان میں سیاستدانوں اور دائیں بازو کے میڈیا کے ایسے بیانات شامل ہیں جس میں 'بائیں بازو کے متعصب وائس آف امریکہ' کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

وائس آف امریکہ کے امریکہ اور پاکستان میں موجود عملے نے تصدیق کی ہے کہ انھیں بھی ٹرمپ کے حکمنامے کے بعد انتظامی چھٹی پر بھیج دیا گیا ہے۔

پاکستان میں وی او اے کے عملے کے چند ارکان نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے ای میلز بند کر دیے گئے ہیں اور ابھی یہ بھی نہیں معلوم کے آگے کیا ہونا ہے۔

ان کے مطابق کنٹریکٹ پر جو عملہ ہے انھیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کو بقایا ادائیگیاں کیسے کی جائیں گی اور کیسے ان سے رابطہ ہو گا اور یہ سب اب کون کرے گا۔

وائس آف امریکہ کے کئی ملازمین نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے گفتگو میں اس ای میل کا حوالہ دیا جس میں انھیں مطلع کیا گیا تھا کہ وہ ’تاحکمِ ثانی مکمل تنخواہ اور مراعات کے ساتھ انتظامی رخصت پر رہیں گے۔‘

وائس آف امریکہ جو اب بھی بنیادی طور پر ایک ریڈیو سروس ہے، دوسری عالمی جنگ کے دوران نازی پروپیگنڈے کا مقابلہ کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ اس کے دنیا بھر میں کروڑوں صارفین ہیں اور یہ لگ بھگ 50 زبانوں میں سروسز فراہم کرتا ہے۔

VOA
Getty Images
وائس آف امریکہ کے کئی ملازمین نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے گفتگو میں اس ای میل کا حوالہ دیا جس میں انھیں مطلع کیا گیا تھا کہ وہ 'تاحکمِ ثانی مکمل تنخواہ اور مراعات کے ساتھ انتظامی رخصت پر رہیں گے‘

وائس آف امریکہ کے ڈائریکٹر مائیک ابرامووٹز نے لنکڈان پر اپنے بیان میں کہا کہ وہ اور عملی طور پر ان کے 1300 صحافیوں، پروڈیوسرز اور اسسٹنٹس کو انتظامی رخصت دے دی گئی ہے۔

ابرامووٹز کا کہنا تھا کہ اس حکمنامے نے وائس آف امریکہ کو اپنے 'اہم مشن کو سرانجام دینے کے قابل نہیں ہیں جب ایران، چین اور روس امریکہ کو جھٹلانے کے لیے جھوٹے نظریات کے فروغ کے لیے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔'

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'مجھے بہت افسوس ہے کہ 83 سال میں پہلی مرتبہ تاریخی وائس آف امریکہ کو خاموش کروایا جا رہا ہے۔'

خیال رہے کہ صدر کے حکمنامے میں دراصل وائس آف امریکہ کا ماتحت ادارہ یو ایس ایجنسی فار گلوبل میڈیا یا (یو ایس اے جی ایم) کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ ادارہ ریڈیو فری یورپ اور ریڈیو فری ایشیا کو بھی فنڈ کرتا ہے جنھیں آغاز میں کمیونزم کے خلاف بنایا گیا تھا۔

بی بی سی کے امریکہ میں نیوز پارٹنر سی بی ایس نیوز نے بتایا کہ وائس آف امریکہ کو یو ایس اے جی ایم کی ہیومن ریسورسز ڈائریکٹر کرسٹل تھامس کی جانب سے کی گئی ای میل کے ذریعے مطلع کیا گیا۔

سی بی ایس کو ذرائع کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ ادارے کے تمام فری لانس ورکرز اور بین الاقوامی کانٹریکٹرز کو بتایا گیا ہے کہ اب انھیں ادا کرنے کے لیے ان کے پاس رقم نہیں ہے۔

اسی طرح سی بی ایس نے ایسی ای میلز بھی دیکھی ہیں جن میں ریڈیو فری ایشیا اور ریڈیو فری یورپ یا لبرٹی ریڈیو کو مطلع کیا گیا ہے ان کی وفاقی گرانٹ ختم کر دی گئی ہیں۔

خیال رہے کہ وائس آف امریکہ (وی او اے) اور دیگر یو ایس اے جی ایم کے دیگر زیلی ادارے چالیس کروڑ سے زیادہ صارفین کو ریڈیو سروسز فراہم کر رہے رہے تھے اور عمومی اعتبار سے یہ بی بی سی ورلڈ سروس جیسا ادارہ ہے جس کی فنڈنگ کا کچھ حصہ برطانوی حکومت کی جانب سے دیا جاتا ہے۔

ٹرمپ کے مشیر اور ارب پتی کاروباری شخصیت ایلون مسک جو امیکی حکومت کا حجم کم کرنے اور بڑے پیمانے پر سرکاری خرچے کم کرنے کی بات کرتے رہے ہیں نے حالیہ عرصے میں اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر وائس آف امریکہ کو بند کرنے کی بات کی تھی۔

خیال رہے کہ امریکی صدر اپنے پہلے دورِ اقتدار کے دوران وائس آف امریکہ پر سخت تنقید کرتے دکھائی دیتے تھے

یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب قدامت پسند حلقے ان نیوز سروسز پر تنقید کرتے رہے ہیں، جبکہ کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ادارے دنیا بھر میں آزاد صحافت کے فروغ میں اہم کردار ادا کر رہے تھے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.