حماس اور اسرائیل کے بیچ ایک بنیادی تنازع یہ بھی ہے کہ جنگ بندی مذاکرات کی ناکامی کا ذمہ دار کون ہے

منگل کے دن جب اسرائیلی لڑاکا طیاروں نے غزہ کی پٹی میں بمباری کا آغاز کیا تو اس کے ساتھ ہی وہ نازک امن معاہدہ بھی تباہ ہو گیا جو جنوری میں شروع ہوا تھا۔
اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے اس بمباری کا ذمہ دار حماس کو ٹھہراتے ہوئے کہا کہ ’حماس کی جانب سے اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی سے مسلسل انکار سمیت امریکی تجاویز کو مسترد کرنے کے بعد‘ فوج کو سخت ایکشن کی تاکید کر دی گئی ہے۔
ادھر اسرائیلی میڈیا میں عسکری ذرائع حماس کی جانب سے دوبارہ منظم ہونے کی کوششوں میں اضافے کی باتیں کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ اسرائیلی فضائی حملوں میں اب تک 400 سے زیادہ فلسطینیوں کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں۔
غزہ کی پٹی میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کے مطابق جنگ بندی معاہدے کے باوجود ان حملوں سے قبل بھی اسرائیل 140 افراد کو ہلاک کر چکا ہے۔ اسرائیلی فوج کے مطابق اس نے غزہ میں حماس کے جنگجوؤں کو نشانہ بنایا۔
تاہم منگل کے دن نتن یاہو کی جانب سے حملوں کی ابتدا کیوں کی گئی؟
اسرائیل میں لاپتہ افراد اور یرغمالیوں کے فورم نے حکومت پر دھوکہ دہی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک ایسے معاہدے کو توڑا گیا جس کے تحت ’سب واپس آ سکتے تھے۔‘ وزیر اعظم نتن یاہو کے ناقدین کا ماننا ہے کہ یہ حملے قانونی اور سیاسی مشکلات سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔
تاہم حماس اور اسرائیل کے بیچ ایک بنیادی تنازع یہ بھی ہے کہ جنگ بندی مذاکرات کی ناکامی کا ذمہ دار کون ہے۔
جنگ بندی مذاکرات اور اسرائیلی چال
انیس جنوری کو طے پانے والا جنگ بندی معاہدہ کئی ماہ تک امریکہ، قطر اور مصری ثالثی کے بعد ہوا تھا جس کے تحت تین مراحل میں اس معاہدے کو آگے بڑھنا تھا۔
پہلے مرحلے میں حماس نے 33 یرغمالیوں کو 1900 فلسطیبنی قیدیوں کے بدلے میں رہا کیا جبکہ اسرائیل نے امدادی سامان غزہ کی پٹی میں لے جانے کی اجازت دی۔
غزہ سے بے گھر ہونے والے فلسطینی لوٹنا شروع ہوئے تو حماس اور اسرائیل کو دوسرے مرحلے کے آغاز پر مذاکرات کرنا تھے۔ دونوں میں طے ہوا تھا کہ دوسرے مرحلے کے مذاکرات میں تمام یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ کی پٹی سے اسرائیلی فوج کا مکمل انخلا شامل ہو گا اور جنگ ختم ہو جائے گی۔
پہلا مرحلہ یکم مارچ کو ختم ہوا لیکن دوسرے مرحلے کے مذاکرات میں پیش رفت نہ ہو سکی۔ اسرائیل نے غزہ میں امدادی سامان لے جانے پر پابندی لگا دی اور کہا کہ وہ امریکہ کے نئے مجوزہ معاہدے کی حمایت کرتا ہے۔
گزشتہ ہفتے اسرائیل اور حماس کے وفود قطر میں موجود تھے جہاں امریکی مشیر سٹیو وٹکوف نے ایک نیا مسودہ پیش کیا جس کے تحت پہلے مرحلے کے وقت کو بڑھا دیا جاتا، مذید یرغمالی اور فلسطینی قیدی رہا ہوتے لیکن جنگ کے مستقل خاتمے کے لیے مذاکرات تعطل کا شکار ہو جاتے۔
اور اسی میں وہ بنیادی نکتہ موجود ہے جس کی وجہ سے امن کی کوشش ناکام ہوئی۔ اسرائیل کے دو بنیادی مقاصد – یرغمالیوں کی رہائی اور حماس کی شکست – ایک ساتھ حاصل نہیں ہو سکتے۔
حماس کے پاس مذاکرات میں ایک ہی پتہ ہے اور وہ اسرائیلی یرغمالی ہیں۔ وہ مذید یرغمالی اس وقت تک رہا نہیں کرنا چاہتے جب تک اسرائیلی فوج کا انخلا شروع نہیں ہو جاتا جیسا کہ سب سے پہلے طے ہوا تھا۔
اسرائیل اب اس نکتے پر مزاحمت کر رہا ہے اور نیا امریکی منصوبہ جنگ ختم کرنے کے وعدے کو تعطل کا شکار کرتے ہوئے مذید یرغمالیوں کی رہائی کو ممکن بنانے کی کوشش ہے۔ یہ سوال بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا حماس کسی نہ کسی شکل میں باقی رہے گی۔

حالیہ دنوں میں اسرائیل اور امریکہ نے حماس کی جانب سے پہلے معاہدے کی شرائط کی پاسداری پر اصرار کو جنگ بندی کی تجدید سے انکار سے تعبیر کیا ہے۔ سٹیو وٹکوف نے حماس پر الزام لگایا کہ عوامی سطح پر لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ نجی طور پر ایسا مطالبہ کر رہی ہے جو مستقل جنگ بندی کے بغیر ممکن نہیں۔
فروری میں اسرائیلی حکام نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ اس کی فوج غزہ کی پٹی کے اہم مقامات سے انخلا نہیں کرے گی جو معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔
اگرچہ ہم بند دروازوں کے پیچھے ہونے والے مذاکرات کی تفصیلات نہیں جانتے لیکن ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ 17 دن قبل اسرائیل نے غزہ کی پٹی میں جانے والے امدادی سامان کو روک دیا تھا تاکہ حماس کو مجبور کیا جا سکے کہ وہ اس کی بات مانے۔
اب تک یہ کوشش کامیاب نہیں ہو سکی ہے اور اب ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل طاقت کے استعمال پر اتر آیا ہے تاکہ ایک نیا معاہدہ کیا جا سکے جو اسرائیلی سیاسی قیادت کے لیے زیادہ سودمند ہو اور حماس کے لیے کم فائدہ مند ہو۔

فی الحال ایسا لگتا ہے کہ غزہ کی پٹی میں صورت حال گزشتہ دو ماہ سے مختلف نظر آئے گی۔ اسرائیلی فوج نے ایک نقشہ جاری کیا ہے اور فلسطینیوں کو غزی کی پٹی کی سرحد کے ساتھ ایک بڑا علاقہ خالی کرنے کا حکم دیا ہے۔
حماس نے اسرائیلی کارروائیوں کو روکنے کا مطالبہ کیا ہے لیکن اب تک جنگ دوبارہ شروع کرنے کی بات نہیں کی۔ اسرائیل اور غزہ کی سرحد کے قریب ایک بی بی سی صحافی کو ایک اسرائیلی فوجی نے بتایا کہ 40 ہزار ریزرو فوجیوں کو بلا لیا گیا ہے۔
اس سے اسرائیلی پریس کی ان خبروں کی تصدیق ہوتی ہے کہ غزہ کی پٹی پر نئے زمینی حملے کی تیاری ہو رہی ہے۔
ایسا حملہ نتن یاہو کو بھی سیاسی طور پر فائدہ پہنچائے گا کیوں کہ دائیں بازو کی یہودی جماعت پاور پارٹی نے اعلان کیا ہے کہ وہ حکومتی اتحاد میں واپس شامل ہونے جا رہی ہے جس کے اراکین، بشمول سابق وزیر اتمار بن گیور، نے جنگ بندی کے بعد احتجاج کرتے ہوئے استعفی دے دیا تھا۔
اس جماعت کی حمایت اسرائیلی حکومت کے لیے اس لیے ضروری ہے کیوں کہ وہ بجٹ منظور کروانے کی کوشش کر رہی ہے۔
ہو سکتا ہے کہ گزشتہ رات اسرائیلی کارروائی حماس سے مذاکرات کی میز پر شرائط تسلیم کروانے کی کوشش ہو تاہم یہ ایک نشانی بھی ہے کہ زمین پر ازسرنو شدید لڑائی دوبارہ شروع ہونے جا رہی ہے جس کے بعد غزہ کے تھکے ہارے شہریوں سمیت اسرائیلی یرغمالیوں کے اہلخانہ تشویش کا شکار ہو چکے ہیں۔