’خالصتان، آئی ایس آئی اور پاکستانی دستی بم‘: انڈین پنجاب میں ہونے والے 14 ’بے ضرر‘ بم دھماکوں کے پیچھے کون ہے؟

گرینیڈ حملوں اور بم دھماکوں کی یہ کارروائیاں پاکستان کی سرحد سے متصل انڈین پنجاب کے تین اضلاع امرتسر، ترن تارن اور گورداسپور میں ہو رہی ہیں۔

وہ جمعہ اور سنیچر کی درمیانی شب تھی، تقریباً 2 بجے کا وقت تھا جب انڈین شہر امرتسر کے کھنڈ والا علاقے میں ایک مندر کے باہر دو موٹرسائیکل سوار رکے اور تھوڑے وقفے کے بعد مندر پر کچھ پھینک کر تیزی سے فرار ہو گئے۔

اسی کے ساتھ مندر میں اچانک ایک دھماکہ ہوا جس سے شیشوں، کھڑکیوں اور دیواروں کو نقصان پہنچا۔ یہ سارا واقعہ سی سی ٹی وی کیمرے میں ریکارڈ ہو گیا۔

انڈین پنجاب کے سرحدی علاقے میں پیش آنے والا یہ ایسا پہلا واقعہ نہیں تھا۔ یہ گذشتہ چار ماہ میں اس طرح کا 14واں دھماکہ ہے۔

فرق صرف اتنا ہے کہ اس بار ایک مندر کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس سے قبل ایسے دھماکے پولیس تھانوں کے باہر، بند چوکیوں یا کچھ لوگوں کی نجی املاک کو نشانہ بنانے کے لیے کیے گئے تھے۔

بہر حال اس بار بھی پچھلے دھماکوں کی طرح کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

اس واقعے کے بعد پنجاب پولیس فوری طور پر حرکت میں آ گئی اور گذشتہ واقعات کی طرح ملزمان کو فوری گرفتار کر کے کیس کا معمہ حل کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

امرتسر کے پولیس کمشنر گُرپریت سنگھ بھللر میڈیا کے سامنے آئے اور الزام لگاتے ہوئے دعوی کیا کہ ’پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اور بیرون ملک بیٹھے لوگوں کے منصوبے پورے نہیں ہونے دیں گے، ملزمان کو جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔‘

واضح رہے کہ انڈیا کی جانب سے اکثر پاکستان کے خلاف سرحد پار دہشت گردی کی کارروائیوں کی پشت پناہی کا الزام لگایا جاتا رہا ہے تاہم پاکستان کی حکومت ان الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔ دوسری جانب پاکستان کی جانب سے بھی انڈیا پر بلوچستان سمیت ملک میں شدت پسندوں کو ٹریننگ اور اسلحہ فراہم کرنے کا الزام لگتا ہے اور دلی ان الزامات کی تردید کرتا رہا ہے۔

مندر کے سامنے حملہ
BBC
مندر پر ہونے والا حملہ انڈین پنجاب میں ایسا 14واں واقعہ تھا

پنجاب پولیس کا موقف اور آئی ایس آئی پر الزام

گرینیڈ حملوں اور بم دھماکوں کی یہ کارروائیاں پاکستان کی سرحد سے متصل انڈین پنجاب کے تین اضلاع امرتسر، ترن تارن اور گورداسپور میں ہو رہی ہیں۔ حال ہی میں ایک واقعہ جالندھر میں بھی پیش آیا۔

انڈین پنجاب کی پولیس کا دعویٰ ہے کہ یہ واقعات پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی، بیرون ملک خالصتان حامی تنظیموں، غنڈوں اور منشیات فروشوں کے خلاف پنجاب میں کریک ڈاؤن کا نتیجہ ہیں۔

بی بی سی اردو نے اس حوالے سے پاکستان کے دفتر خارجہ سے موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا ہے تاہم اب تک جواب موصول نہیں ہو سکا۔

ادھر امرتسر کے پولیس کمشنر گرپریت سنگھ بھُللر نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ پہلے بھی بہت کوششیں کر چکے ہیں، لیکن پنجاب پولیس نے انھیں ان کے منصوبوں میں کامیاب نہیں ہونے دیا اور نہ ہی انھیں کامیاب ہونے دیا جائے گا۔ پنجاب پولیس پوری طرح سے اہل ہے، اور یہ ان لوگوں کے لیے وارننگ ہے کہ انھیں منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔‘

گرپریت سنگھ بھُللر نے ہفتہ کو بہار سے پکڑے گئے تین مبینہ خالصتانی کارکنوں کی گرفتاری کو مندر میں ہونے والے واقعے سے بھی جوڑا۔

حملے کب اور کہاں ہوئے؟

یہ دستی بم حملے یا دھماکے گذشتہ سال 23 نومبر کو پہلی بار ضلع ترن تارن کے تھانہ اجنالہ پر ہوئے تھے، جہاں پولیس پر آئی ای ڈیز (دیسی ساختہ بم) سے حملہ کیا گیا تھا۔

تھانہ اجنالہ کے بعد پیش آنے والے واقعات کی تفصیلات درج ذیل ہیں۔

  • 28 نومبر: امرتسر کے گُربخش نگر میں پولیس چوکی پر حملہ
  • 4 دسمبر: مجیٹھیا تھانے کے باہر دھماکہ
  • 12 دسمبر: گورداسپور کے علیوال گاؤں میں رات گئے پولیس سٹیشن گھنیئے کے بنگر پر حملہ
  • 17 دسمبر: امرتسر کے اسلام آباد پولیس سٹیشن پر حملہ
  • 18 دسمبر: گورداسپور پولیس چوکی بخشیوال پر حملہ
  • 20 دسمبر: وڈالا بنگر پولیس چوکی کو نشانہ بنایا گیا۔
  • تین فروری: امرتسر پولیس چوکی فتح گڑھ چوریا بائی پاس پر حملہ
  • 15 جنوری: امرتسر کے گاؤں جینتی پور میں شراب کے تاجر اور کانگریسی لیڈر امان جینتی پور کے گھر پر حملہ۔
  • 17 فروری: بٹالہ کے گاؤں ریمل میں پنجاب پولیس کے کانسٹیبل جتندر سنگھ کے چچا کے گھر پر دھماکہ۔
  • 11 مارچ: امرتسر میں ہندو مندر ٹھاکر دوارہ میں دھماکہ۔
  • 16 مارچ: جالندھر کے گاؤں رسول میں ایک گھر پر دھماکہ خیز مواد پھینکا گیا۔
وڈالا بنگر پولیس سٹیشن
BBC
وڈالا بنگر پولیس سٹیشن اس وقت حملے کی زد میں آیا جب وہ سنسان پڑا تھا

دھماکوں کا وقت اور طریقہ کار

ان دھماکوں کے دوران نشانہ بنائے گئے مقامات پر نظر ڈالیں تو اب تک تین طرح کے دھماکے ہو چکے ہیں۔

پہلی قسم اس طرح کے دھماکوں کی ہے جن میں صرف تھانے اور بند چوکیوں کو نشانہ بنایا گیا۔

دیگر قسم کے دھماکوں میں بعض افراد کی ذاتی املاک کو نشانہ بنایا گیا۔

مثال کے طور پر شراب کے تاجر اور کانگریس لیڈر امن جینتی پور اور ایک پولیس والے کے چچا کے گھروں پر دھماکہ خیز مواد پھینکا گیا۔

اب تیسرے قسم کے دھماکے میں ہندو مندر کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

تمام دھماکوں کے وقت سے پتہ چلتا ہے کہ وہ شام کے وقت یا رات 10 بجے کے بعد کیے گئے۔

دھماکوں سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ حملہ آور اپنے حملے اس وقت کرتے ہیں جب ہدف والی عمارت میں لوگوں کی موجودگی کم سے کم ہو۔

دھماکوں کے اثرات

تمام دھماکوں میں اہم بات یہ ہے کہ پولیس کی متعدد چوکیوں کو نشانہ بنایا گیا، جو کچھ عرصہ قبل پولیس نے خالی کر دی تھیں جس کی وجہ سے کسی بھی دھماکے کے دوران کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ہے۔

پنجاب پولیس کے بارڈر رینج کے ڈی آئی جی ستیندر سنگھ نے بی بی سی پنجابی سے بات چیت کے دوران کہا: ’یہ سب کچھ پنجاب میں افراتفری پھیلانے کے لیے کیا جا رہا ہے، لیکن پنجاب پولیس لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانے کے لیے کی جانے والی ان کارروائیوں کا جواب دے رہی ہے۔ جس سے عوام مطمئن ہیں۔‘

ستیندر سنگھ کا دعویٰ ہے کہ تقریباً تمام معاملات کا سراغ لگا لیا گیا ہے لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ جب تھانوں یا پولیس چوکیوں کی نشان دہی شروع ہوئی تو سب سے پہلے پولیس چوکیوں میں بیرونی دیواروں پر عارضی طور پر رکاوٹیں کھڑی کرنے، کھلی جگہوں کو ترپالوں اور جالیوں سے ڈھانپنے جیسے اقدامات کیے گئے۔

اس وقت بھی بعض تھانوں اور چوکیوں کی دیواریں اونچی کر دی گئی ہیں اور کچھ دنوں سے تھانوں کے باہر رات کے وقت پولیس کی نفری بھی بڑھا دی گئی ہے۔ مقامی کانگریس لوک سبھا ممبر سکھجندر سنگھ رندھاوا نے بھی اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

اس وقت گورداسپور سے لوک سبھا کے رکن سکھجندر سنگھ رندھاوا نے تو یہاں تک کہا تھا ’ہمارے علاقے ڈیرہ بابا نانک میں پولیس رات کو تھانے جانے والی سڑک بلاک کردیتی ہے اور میں اب سوچ رہا ہوں کہ اگر پولیس محفوظ نہیں تو عام شہری کا کیا بنے گا۔‘

دھماکوں کی ذمہ داری کس نے قبول کی؟

ہر گرینیڈ حملے یا پولیس دھماکے کے بعد عموماً دو قسم کے لوگ ان دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ پہلا، بیرون ملک بیٹھے مبینہ گینگ، یا دوسرا خالصتانی تنظیموں کے کارکن ہونے کا دعویٰ کرنے والے۔

ڈی آئی جی ستیندر سنگھ جہاں پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کا نام لیتے ہیں وہیں یہ بھی کہتے ہیں کہ ’یہ سب شر پسند عناصر ہیں، جو پنجاب میں بدامنی پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن پنجاب پولیس ان شر پسند لوگوں کے منصوبوں کو کامیاب نہیں ہونے دے گی۔‘

پنجاب پولیس کے اس دعوے اور دھماکوں یا حملوں کے بعد سوشل میڈیا پر لی جانے والی ذمہ داریوں کے درمیان یقیناً کوئی تعلق ہے۔

آئیے ایک کیس کی مثال لیتے ہیں جس میں ایک پولیس اہلکار کے چچا کے گھر پر دھماکہ خیز مواد پھینکا گیا۔

اس واقعے کی ذمہ داری ببر خالصہ گروپ کے ہیپی پچیان اور شیرا مان نے قبول کی تھی۔ تاہم پولیس نے سوشل میڈیا کے ذریعے سرکاری طور پر اس کی تصدیق نہیں کی۔

بی بی سی پنجابی بھی سوشل میڈیا کے ذریعے لی گئی اس ذمہ داری کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کرتا۔

بیرون ملک رہنے والے منو اگوان نامی شخص نے سوشل میڈیا کے ذریعے 19 دسمبر 2024 کو گورداسپور کے کلانور قصبے میں بند پولیس چوکی بخشی والا میں بم پھینکنے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

اس معاملے میں پولیس نے ریاست اترپردیش کے پیلی بھیت میں اسی علاقے سے تعلق رکھنے والے تین نوجوانوں کو ’خالصتان زندہ باد فورس‘ کے کارکن بتاتے ہوئے ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

مارے گئے تین لڑکوں میں سے ایک رویندر سنگھ روی منو اگوان کے اگوان گاؤں کا رہنے والا تھا۔

اس طرح کے کئی واقعات کے بعد انڈیا میں کالعدم تنظیم ’سکھ فار جسٹس‘ کے رہنما گروپٹونت سنگھ پنوں نے بھی ذمہ داری قبول کی تھی۔

19 فروری کو پنجاب پولیس کے ڈی جی پی گَورو یادو نے اس طرح کے دعوؤں کے بارے میں ٹویٹ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ’یہ لوگ اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اگر آپ گرپٹونت پنو کی ویڈیوز دیکھیں تو زمین پر کچھ نہیں ہے جب کہ وہ بیہودہ دعوے کرتے ہیں۔ ہم کسی بھی چیز کو ہلکا نہیں لیتے ہیں، ہم اسے بہت سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ لیکن کئی مواقع پر ہم نے دیکھا ہے کہ کوئی واقعہ رونما بھی نہیں ہوتا اور سوشل میڈیا پر ذمہ داری قبول کر لی جاتی ہے۔‘

سکھجندر سنگھ رندھاوا رکن پارلیمان
Getty Images
سکھجندر سنگھ رندھاوا رکن پارلیمان

دھماکے کے واقعات میں پولیس کی کارروائی

جب بھی کوئی دستی بم حملہ اور دھماکہ ہوتا ہے تو مقامی لوگوں کو اس کی آواز دور سے سنائی دیتی ہے۔ دھماکوں کے بعد گورداسپور میں کئی لوگوں نے بی بی سی کی پنجابی ٹیم کو بتایا کہ انھوں نے کافی دور سے دھماکے کی آواز سنی۔

لیکن چونکہ یہ دھماکے تھانوں یا پولیس چوکیوں کے باہر ہوئے تھے، اس لیے پولیس نے ابتدائی طور پر انھیں مسترد کر دیا۔ کبھی انھوں نے انھیں کم صلاحیت والے دھماکہ خیز مواد کے طور پر بیان کیا، کبھی ٹائر کریکر کے طور پر، اور کبھی سیلنڈر کے دھماکوں کے طور پر۔

لیکن بعد میں جب پولیس نے کچھ نوجوانوں کو گرفتار کرنے یا پولیس مقابلے میں مارنے کا دعویٰ کیا تو پولیس نے یہ دعویٰ بھی کیا انھوں نے کس تھانے یا چوکی پر حملہ کیا تھا۔

خاص طور پر 23 دسمبر کو اتر پردیش کے پیلی بھیت علاقے میں جب پولیس مقابلے میں تین نوجوانوں کی ہلاکت ہوئي تو پولیس نے دعویٰ کیا کہ مقتول نوجوان گورداس پور ضلع کے علاقے کلانور کے رہائشی تھے اور ان کے پاس سے اسلحہ بھی برآمد گیا ہے اور وہ چوکی بخشیوال پر دستی بم حملہ کرنے کے بعد پنجاب سے فرار ہو کر اتر پردیش پہنچے تھے۔

اسی طرح، 29 دسمبر کو بٹالہ میں پولیس نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے دو نوجوانوں کو گرفتار کیا ہے جنھوں نے وڈالا بنگر میں گھنیئے کے بنگر پولیس سٹیشن اور پولیس چوکی پر دستی بم پھینکے تھے۔

اس وقت ڈی آئی جی بارڈر رینج ستیندر سنگھ نے دعویٰ کیا تھا کہ جب دونوں ملزمان کو اسلحہ برآمد کرنے کے لیے نہر کے کنارے لے جایا گیا تو انھوں نے پولیس پر فائرنگ کردی اور اس کے بعد ہونے والے پولیس مقابلے میں یہ دونوں نوجوان گولی لگنے سے زخمی ہوگئے۔

ستیندر سنگھ کا کہنا ہے کہ ’پولیس کی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ نوجوان بیرون ملک مقیم مبینہ گینگسٹر سے دہشت گرد بننے والے ہیپی پچھیا کے رابطے میں تھے اور ان کی ہدایت پر ہی انھوں نے پولیس سٹیشن پر حملہ کیا تھا۔‘

ستیندر سنگھ نے بی بی سی پنجابی سے بات چیت میں دعویٰ کیا کہ پولیس کی تفتیش میں شواہد ملے ہیں کہ حملے میں استعمال ہونے والے دستی بم پاکستان سے آئے تھے۔

پولیس کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اب تک ہونے والے تمام واقعات کا سراغ لگا لیا گیا ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.