بی بی سی نے جب اس واقعے سے متعلق حقائق جاننے کے لیے اسلام آباد پولیس کے ترجمان سے رابطہ کیا تو انھوں نے پولیس کی جانب سے کسی بھی قسم کا چھاپہ مارے جانے کی تردید کی اور تصدیق کی کہ اس واقعے کی ایف آئی آر بھی تاحال درج نہیں کی گئی ہے۔
پاکستانی صحافی احمد نورانی کے اہلخانہ کا دعویٰ ہے کہ اسلام آباد میں ان کی رہائش گاہ پر مبینہ طور پر 'حملہ' کر کے احمد کے دو بھائیوں کو اغوا کر لیا گیا ہے۔
احمد نورانی گذشتہ کئی برس سے امریکہ میں مقیم ہیں اور خود انھوں نے بھی سوشل میڈیا پر یہ دعویٰ کیا ہے کہ ان کی ایک خبر پر ان کے خاندان کو نہ صرف ہراساں کیا گیا بلکہ تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا ہے۔
احمد نورانی کی والدہ نے اپنے بیٹوں کی بازیابی کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک پیٹیشن بھی دائر کی ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ منگل کی رات ایک بج کر پانچ منٹ پر ان کے دو بیٹوں کو بظاہر ملک کے دو خفیہ اداروں کے نامعلوم اہلکاروں نے اغوا کر لیا ہے۔
درخواست گزار کی جانب سے اس معاملے میں ان اداروں کے ملوث ہونے کے الزام کی آزادانہ تصدیق نہیں کی جا سکی اور نہ ہی تاحال اس بارے میں متعلقہ حکام کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے آیا ہے۔
اس درخواست میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ’حراست میں لیے گئے دونوں افراد انجینیئرز ہیں اور ان کا اپنے بھائی احمد نورانی کی رپورٹنگ یا تحقیقاتی صحافت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘
احمد نورانی کی والدہ امینہ بشیر کی جانب سے سیکریٹری دفاع، سیکرٹری داخلہ، انسپکٹر جنرل آف پولیس اور تھانہ نون کے ایس ایچ او کو فریق بنایا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ صحافی کے دونوں بھائیوں کو فوری طور پر بازیاب کروا کر ہائی کورٹ میں پیش کیا جائے۔
درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت فریقین کو حکم جاری کرے کہ وہ صحافی کے بھائیوں کو غیرقانونی حراست میں لینے والوں کی شناخت کریں اور ان کے خلاف تحقیقات کریں۔
منگل کی شب کیا ہوا؟
احمد نورانی کی بہن نے اس بارے میں بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ 'گھر پر حملہ کرنے والوں نے اپنی شناخت نہیں بتائی۔ انھوں نے میرے بھائیوں کو زدوکوب کیا۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'ہم ان سے پوچھتے رہے کہ وہ کون ہیں؟ ان میں سے کسی نے دروازہ کھلوانے کے لیے کہا کہ وہ پولیس سے ہیں؟'
تاہم ان کا مزید کہنا تھا کہ رات کے اندھیرے میں وہ ڈر و خوف کے باعث نامعلوم افراد کے یونیفارم نہیں دیکھ سکیں لیکن 'ان میں سے دو، تین افراد نے بُلٹ پروف جیکٹس پہن رکھی تھیں۔'
صحافی احمد نورانی کی بہن نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انھیں اپنے بھائیوں کی فکر لاحق ہے اور انھیں نہیں معلوم کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہیں۔
انھوں نے کہا کہ اس واقعے کا مقدمہ درج کروانے کے لیے انھوں نے اسلام آباد کے تھانہ نون میں درخواست دی ہے۔
'واقعہ کا مقدمہ درج کرنے کے لیے اسلام آباد کے تھانہ نون سے رابطہ کیا لیکن نہیں معلوم کہ ایف آئی آر درج کی گئی ہے یا نہیں۔'
پولیس کی احمد نورانی کے گھر پر چھاپہ مارنے کی تردید
جب اس واقعے سے متعلق حقائق جاننے کے لیے اسلام آباد پولیس کے ترجمان سے رابطہ کیا تو انھوں نے پولیس کی جانب سے کسی بھی قسم کا چھاپہ مارے جانے کی تردید کی۔
تاہم انھوں نے اس بات کی تصدیق بھی کی کہ صحافی احمد نورانی کے اہلخانہ کی جانب سے ان کے بھائیوں کو مبینہ طور پر زدوکوب کرنے اور اغوا کرنے کے واقعے کی درخواست دی گئی ہے تاہم تاحال ایف آئی آر درج نہیں کی گئی ہے۔
سوشل میڈیا پر احمد نورانی کے گھر پر مبینہ پولیس چھاپے پر تنقید
صحافی احمد نورانی کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنے بھائیوں کے مبینہ اغوا کے بارے میں بات کرنے کے بعد پاکستانی سوشل میڈیا پر صحافی اور دیگر صارفین بھی اس واقعے کے حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
صحافی اعزاز سید نے اس بارے میں سوشل میڈیا پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ 'احمد نورانی کی صحافت پر کوئی اعتراض ہے، ان کی کسی خبر سے آپ خوش نہیں یا پھر ان کی کسی تصویر یا نظریے کے آپ مخالف ہیں تو انھیں قانون کے کٹہرے میں لے جائیں نہ کہ ان کے بے گناہ بھائیوں پر تشدد کریں اور اٹھا کر لے جائیں۔'
سیاسی کارکن اور محقق عمار علی جان نے اپنی ایک پوسٹ میں لکھا کہ 'احمد نورانی کے بھائیوں کا (مبینہ) اغوا سراسر غیر قانونی ہے اور آزادیِ اظہار رائے پر بزدلانہ حملہ ہے۔'
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ایسے حملوں کا مقصد 'اسٹبلشمنٹ کے کردار پر عوامی بحث کو دبانا ہے۔'
رضا احمد رومی نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا کہ 'اگر احمد نورانی کی خبریں مسئلہ ہیں تو اس کے مواد کو درست طریقے سے چیلنج کیا جا سکتا ہے اور انھیں غلط ثابت کیا جا سکتا ہے۔'
احمد نورانی پر ماضی میں ہونے والا حملہ
ماضی میں احمد نورانی پاکستانی انگریزی اخبار دی نیوز سے منسلک رہے ہیں اور سنہ 2017 میں ان پر دارالحکومت اسلام آباد میں ایک حملہ ہوا تھا جس میں ان کے سر پر شدید چوٹیں آئی تھیں۔
اکتوبر 2017 میں ان پر اور ان کے ڈرائیور پر چاقو سے حملہ کیا گیا تھا۔ ان کے ڈرائیور کی مدعیت میں اس وقت درج ہونے والی ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ حملہ آوروں نے احمد نورانی پر تشدد کیا اور ان کے موبائل فونز لے کر فرار ہو گئے۔
احمد نورانی گذشتہ کئی برسوں سے امریکہ میں مقیم ہیں اور 'فیکٹ فوکس' نامی خبروں کی ایک ویب سائٹ چلا رہے ہیں۔
عالمی صحافتی تنظیمیں پاکستان کو دنیا بھر میں صحافت کے لیے خطرناک ترین ممالک میں شمار کرتی ہیں اور یہاں حالیہ برسوں میں صحافیوں کو ہراساں کرنے کے متعدد واقعات پیش آئے ہیں۔
رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز کے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں 180 ممالک کی فہرست میں پاکستان کا 152واں نمبر ہے۔