روس میں شہ سرخیوں کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ماسکو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور صدر پوتن کے درمیان ٹیلیفون پر ہونے والی بات چیت کو اپنی فتح سمجھ رہا ہے۔ لیکن روس نے ٹرمپ کو ایسی کیا پیشکش کی ہے کہ امریکہ پوتن کی تعریفیں کر رہا ہے؟
ایک روسی اخبار نے اعلان کیا ’پوتن اور ٹرمپ کی سب سے طویل فون کال جس کے بعد روس نے سفارتی فتح حاصل کر لی‘روس میں شہ سرخیوں کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ماسکو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور صدر پوتن کے درمیان ٹیلیفون پر ہونے والی بات چیت کو اپنے حق میں سودمند سمجھ رہا ہے۔
ازویٹسیا نے نتیجہ اخذ کیا کہ ’یوکرین کے تنازع کو سلجھانے کے لیے پوتن اور ٹرمپ نے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا۔‘
ایک اور اخبار نے اعلان کیا ’پوتن اور ٹرمپ کی سب سے طویل فون کال جس کے بعد روس نے سفارتی فتح حاصل کر لی۔‘
لیکن دو گھنٹے کی اس فون کال کے بعد روس میں چند لوگ فتح کا دعوی کیوں کر رہے ہیں؟
شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ اس فون کال کے اختتام تک صدر پوتن کو امریکہ یا یوکرین کو کسی قسم کی کوئی رعایت دینے پر مجبور نہیں کیا جا سکا۔
بلکہ اس کا الٹ ہوا اور انھوں نے صدر ٹرمپ کی جانب سے 30 دن کی فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کی تجویز مسترد کر دی۔
ادھر امریکی انتظامیہ نے اپنے مجوزہ منصوبے پر عمل درآمد کروانے کے لیے ماسکو کو زیادہ سخت پابندیوں کی دھمکی دینے کے بجائے روسی سربراہ کی تعریف کی۔
صدر ٹرمپ نے فاکس نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہماری بہت اچھی بات چیت ہوئی۔‘
صدر کے مشیر سٹیو وٹکوف کا کہنا تھا کہ ’میں صدر پوتن کو سراہوں گا کہ انھوں نے اس فون کال میں جو کچھ کیا تاکہ ان کا ملک ایک حتمی امن معاہدے کی جانب بڑھ سکے۔‘
روس نے صرف غیر مشروط جنگ بندی سے ہی انکار نہیں کیا بلکہ صدر پوتن نے امن کے لیے اپنی شرائط سامنے رکھ دی ہیں۔
امریکی انتظامیہ نے اپنے مجوزہ منصوبے پر عمل درآمد کروانے کے لیے ماسکو کو زیادہ سخت پابندیوں کی دھمکی دینے کے بجائے روسی سربراہ کی تعریف کیان شرائط میں یوکرین کو مغربی امداد ختم کرنے اور انٹیلیجنس یعنی معلومات فراہم کرنے کا سلسلہ روکنے شامل ہیں جنھیں بڑے پیمانے پر یوکرین کو ہتھیار پھینکنے پر مجبور کرنے کی حکمت عملی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
اور یہ بہت مشکل ہے کہ یوکرین اس پر آمادہ ہو گا۔
لیکن کیا ٹرمپ انتظامیہ کو روس اس بات پر قائل کر سکتا ہے کہ ایسی شرائط مانی جا سکتی ہیں؟ اور اگر ایسا ہوتا ہے تو کیا امریکہ یوکرین کو مجبور کر سکتا ہے کہ وہ ان شرائط پر عمل پیرا ہو؟
اس بات کا انحصار شاید اس نکتے پر ہو گا کہ کیا روس صدر ٹرمپ کو قائل کر سکتا ہے کہ ماسکو سے اچھے روابط یوکرین کا دفاع کرنے کے مقابلے میں زیادہ سودمند ہوں گے۔
اور اسی نکتے کو اجاگر کرنے کے لیے امریکی انتظامیہ کے اہلکاروں سے بات چیت میں روسی حکام ابھی سے معاشی اور مالیاتی فوائد گنوا رہے ہیں اور یہ بات کر رہے ہیں کہ امریکہ اور روس کے باہمی تعلقات سے دونوں کو کتنا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے اگر مشترکہ منصوبوں پر کام شروع کر دیا جائے۔
ولادیمیر پوتن نے حال ہی میں امریکہ اور روس کے درمیان المونیئم پروڈکشن اور نایاب معدنیات پر شراکت داری کے امکان کا اظہار کیا تھا۔ اور یہ پیغام امریکہ تک پہنچ بھی رہا ہے۔
منگل کے دن فاکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ’ہم روس سے زیادہ تجارت کرنا چاہیں گے۔‘
’ان کے پاس نایاب معدنیات سمیت ایسی اشیا ہیں جو ہمارے لیے بیش قیمت ہیں۔ ان کے پاس دنیا میں سے بڑی ریئل اسٹیٹ ہے، ان کے پاس ایسی چیزیں ہیں جنھیں ہم استعمال کر سکتے ہیں۔‘
ماسکو امید کر رہا ہو گا، اور ممکنہ طور پر حساب لگا رہا ہو گا، کہ ٹرمپ روسی ریئل اسٹیٹ کے اس بڑے حصے کو حاصل کرنے کو یوکرین کے لیے قابل قبول جنگ بندی معاہدے پر ترجیح دیں گے۔
اور اسی بات کو روسی حکومت کے حامی سمجھے جانے والے ازویٹسیا اخبار نے بھی اجاگر کیا۔

ازویٹسیا اخبار نے لکھا کہ ’ماسکو کی منطق یہ ہے کہ امریکہ سے معاشی تعلقات کو اتنا منافع بخش بنا دیا جائے کہ انھیں ختم کرنا امریکہ کو بہت مہنگا پڑے۔‘
یاد رہے کہ ایک ہفتہ قبل جب یوکرین نے غیر مشروط جنگ بندی کی حامی بھری تھی تو اس وقت امریکی انتظامیہ نے اعلان کیا تھا کہ اب ’گیند روس کے پاس ہے۔‘
لیکن اب جبکہ پوتن اس ڈیل کو مسترد کر چکے ہیں اور اپنی شرائط بتا چکے ہیں، روس نے گیند واپس امریکہ کے پاس پھینک دی ہے۔
روس اور امریکہ مذاکرات جاری رکھیں گے، یوکرین پر بھی اور باہمی تعلقات پر بھی۔ اور ان مذاکرات کا نتیجہ ہی ڈونلڈ ٹرمپ کے اگلے قدم کا تعین کرے گا۔