پاکستان نے 78 برس میں متعدد بار ہارڈ اور سافٹ ریاست بننے کا تجربہ کر لیا۔ اب ایک آدھ بار مکمل آئینی ریاست بننے کا تجربہ بھی کر لیا جائے تو کیا حرج ہے۔
ایک بات تو ماننا پڑے گی کہ ہماری موجودہ جرنیلی کلاس سابقین سے زیادہ پالشڈ ہے جبکہ سیاستدانوں کی حاضر کھیپ اپنے پرکھوں کے مقابلے میں یا تو کم پڑھی لکھی ہے یا پھر اس نے اپنا علم و فضل خفیہ رکھا ہوا ہے اور فوٹوکاپی سوچ پر گزارہہے۔
بیشتر پولٹیکل کلاس چونکہ تن آسان ہے لہذا وہ محنت طلب پالیسی سازی اور پھر اس پالیسی پر عمل کرنے اور کروانے کی طاقت و صلاحیت سے بھی بتدریج دستبردار نظر آتی ہے۔ اس کا مجموعی رویہ یہ ہے کہ ’تسی دسو اسی کی کرنا اے‘ (آپ بتائیں ہمیں کیا کرنا ہے۔)
گذشتہ ایک دہائی میں بالخصوص بیشتر انتظامی یا پالیسی اصطلاحات، عسکری آپریشنز کے ٹائٹلز اور اسلحے کے نام (اصل اور مستعار) فوجی قیادت نے ہی متعارف کروائے ہیں۔
مثلاً حتف، ابدالی، غوری، غزنوی، شاہین، بابر، رعد، نصر میزائل، ضرار ٹینک،آپریشن ضربِ عضب، ضرب و آہن،راہِ نجات، عزم و استحکام، امیدِ نو، آپریشن مرگ بر سرمچار، ففتھ جنریشن وار، کائنیٹک سٹرٹیجی، ڈیجیٹل ٹیررازم، فتنہِ الخوارجوغیرہ وغیرہ۔
ان ناموں اور کاموں کے بعد بھی موجودہآرمی چیف کو پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں کھل کے کہنا پڑا کہ مسلح افواج آخر کب تک انتظامی خامیوں سے جنم لینے والے خلا کو اپنی قربانیوں اور شہدا کے خون سے بھرتی رہیں گی اور ہمیں ایک سافٹ سٹیٹ (ڈھیلی ریاست) کی سوچ سے نکل کے ہارڈ اسٹیٹ (آہنی ریاست) بننا پڑے گا۔
جنرل صاحب تو بس اتنا کہہ کر چلے گئے مگر مجھ جیسے پترکاروں کو وختہ پڑ گیا کہ سافٹ اور ہارڈ سٹیٹ کیا بلا ہوتی ہے؟ گوگل کی معرفت اے آئی سے رجوع کیا تو اس نے بتایا کہ سافٹ سٹیٹ کی اصطلاحپہلے پہل سویڈش ماہرِ اقتصادیات و سماجیات گونر مردال نے 1968 میں غربتِ اقوام کے اسباب پر شائع ہونے والی اپنی کتاب ’ایشین ڈرامہ‘ میں استعمال کی تھی۔
’پاکستان نے 78 برس میں متعدد بار ہارڈ اور سافٹ ریاست بننے کا تجربہ کر لیا۔ اب ایک آدھ بار مکمل آئینی ریاستبننے کا تجربہ بھی کر لیا جائے تو کیا حرج ہے‘لبِ لباب یہ ہے کہ سافٹ سٹیٹ ایک طرح کی طوائف الملوکی ہے۔ قوانین تو کاغذ پر ہوتے ہیں مگر عمل کوئی نہیں کرتا۔ کرپشن کی وجہ سے ریاستی عمل داری کھوکھلی ہو جاتی ہے۔ ہر طاقتور فرد، جماعت اور ادارہ خود کو پھنے خان سمجھتا ہے چنانچہ اس ریاست کی اپنی آبادی اور علاقے پر گرفت ڈھیلی پڑتی جاتی ہے۔ یوں ریاست بالاخر غریب کی جورو میں تبدیل ہو کر سب کی بھابی بن جاتی ہے۔
جبکہ ہارڈ سٹیٹ (آہنی ریاست) مرکزیت پر مبنی موثر گورنننس کے قیام اور داخلی و خارجی طور پر اپنی بات، پالیسی یا قانون منوانے کے لیے عسکری و اقتصادی قوتِ نافذہ رکھتی ہے۔
جنرل عاصم منیر نے گورنننس کی بہتری کے لیے جس آہنی ریاست کی بات کی ہے اب سے سات برس قبل (نومبر 2018) انڈین کے مشیرِ قومی سلامتی اجیت دووال نے نکسلی اور سکھ انتہا پسندی سے نپٹارے کو ذہن میں رکھتے ہوئے کم و بیش یہی کہا تھا کہ ’ہمارے اندرونی و بیرونی دشمن تب تک ہماری کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے رہیں گے جب تک ہم ایک سافٹ ریاست کی سوچ سے نکل کر ہارڈ ریاست نہیں بنتے۔ ایسا نہیں کہ انڈیا کوئی کمزور ملک ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنی موجودہ گورنننس کے ڈھل مل معیار کے سبب اپنی طاقت کا موثر نفاذ نہیں کر پا رہے۔‘
اگر ہم ذرا دیر کے لیے یہ ضرب المثل کھڑکی سے باہر پھینک دیں کہ ’جس کے ہاتھ میں ہتھوڑا ہو اسے ہر شے کیل نظر آتی ہے‘ تب بھی ایک تیسری سوچ پرکھنے میں کیا حرج ہے؟
اس سوچکے مطابق اگر سافٹ سٹیٹ کو بدنظمی و طوائف الملوکی کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے تو ہارڈ سٹیٹ کی اینٹی بایوٹک ایک اور انتہا ہے جس کے مسلسل استعمال سے وائرس کے ساتھ ساتھ مدافعتی نظام بھی کمزور ہوتا چلا جاتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ریاست کو اپنے مجموعی انتظامی رویے میں لچکدار اور عملیت پسند ہونا چاہیے۔ آپریشن اور بعد از آپریشن مریض کی دیکھ بھال کی یکساں اہمیت ہی کسی ریاست کی دیرپا صحت کی ضامن بن سکتی ہے۔
ریاست عوامی اعتماد کے بغیر بزور کچھ عرصے چلائی تو جا سکتی ہے مگر خود بخود نہیں چل سکتی۔ جب عام آدمی کے مسائل کے حل کے لیے مروجہ و مسلمہ سیاسی و قانونی راستوں کے احترام اور تحفظ کی ضمانت خود ریاستی ادارے اپنے قول و فعل سے مہیا کریں اور ہر ادارہ (مقننہ، عدلیہ، عسکری اسٹیبلشمنٹ) عقلِ کل بننے اور ایک دوسرے کو بانجھ کرنے کے بجائے اپنے اپنے متعین آئینی دائرے میں مطمئن رہ کر کام کرے تو پھر ہارڈ اور سافٹ کی بحث غیر ضروری ہو جاتی ہے۔
ایسے سازگار ماحول میں عوام و ریاست باہمی فرائض و حقوق کا احترام کرتے ہوئے فطری حلیف بن جاتے ہیں لیکن قانون سازی کا مقصد اگر وسیع تر عوامی مفاد اور بنیادی حقوق کی حفاظت کے بجائے کسی خاص طبقے یا چند اداروں کا مفاداتی تحفظ ہو تو پھر ایسی خود غرض ریاست اور اس کے عوام بتدریج ایک دوسرے سے بدظن ہو کر حریف بنتے چلے جاتے ہیں اور اس خلا کو غلط فہمی، غصہ اور شورش کے جذبات پر کرتے ہیں اور اس بے چینی کو دبانے کے لیے مزید سختی کرنا پڑتی ہے۔
چنانچہ ریاست نہ اپنا اور نہ رعایا کا یکسوئی سے اندرونی و بیرونی سٹرٹیجک اور معاشی تحفظکر سکتی ہے۔ قرض اور ٹیکس سے جمع ہونے والا جو پیسہ بنیادی سہولتوں پر صرف ہونا چاہیے وہ سال بہ سال بڑھنے والا اضافی سکیورٹی بجٹ نگلتا چلا جاتا ہے۔
طاقت کا بلڈوزر ناہموار زمین کو اس نیت سے ہموار کرنے کے لیے استعمال ہونا چاہیے تاکہ اس زمین پر ایک مضبوط کرپشن فری سیاسی و اقتصادی عمارت بنائی جا سکے نا کہ ہموار زمین کو مزید قلعہ بندیاں اٹھانے کے لیے استعمال کرنا پڑ جائے۔
پاکستان نے 78 برس میں متعدد بار ہارڈ اور سافٹ ریاست بننے کا تجربہ کر لیا۔ اب ایک آدھ بار مکمل آئینی ریاستبننے کا تجربہ بھی کر لیا جائے تو کیا حرج ہے۔
زندگی بھر ’سخت لونڈا‘ بننے کی تگ و دو میں آخر کب تک دوڑا جا سکتا ہے؟