غلامی سے شاہی کے اس قصے کی جو تفصیلات یہودی تعلیمات اور روایات کے مجموعے تلمود اور مسیحیوں کی مقدس کتاب بائبل میں بیان کی گئی ہیں ان سے اسلام کی مقدس کتاب قرآن کا بیان کئی مقامات پر مختلف ہے۔ مگرقرآن میں احسن القصص یعنی بہترین قصہ قرار دیے گئے اس قصے کے اہم اجزا میں تینوں، تلمود، بائبل اور قرآن، متفق ہیں۔

’یوسف کو اِس طرح ہم نے اُس ملک میں اقتدار عطا فرمایا۔۔۔ ہم اپنی رحمت سے جس کو چاہتے ہیں، نوازتے ہیں۔‘ قرآن کی بارہویں سورہ، یُوسُف، کی اس آیت (56 ) میں اشارہ ہے بنی اسرائیل کے پیغمبر حضرت یوسف کے مصر میں غلام بن کر آنے کے کچھ ہی عرصے بعد وہاں ہر طرح کا اقتدار و اختیار ملنے کا۔
غلامی سے شاہی کے اس قصے کی جو تفصیلات یہودی تعلیمات اور روایات کے مجموعے تلمود اور مسیحیوں کی مقدس کتاب بائبل میں بیان کی گئی ہیں ان سے اسلام کی مقدس کتاب قرآن کا بیان کئی مقامات پر مختلف ہے۔ مگر قرآن میں احسن القصص یعنی بہترین قصہ قرار دیے گئے اس قصے کے اہم اجزا میں تینوں، تلمود، بائبل اور قرآن، متفق ہیں۔
حضرت یوسف، حضرت یعقوب کے بیٹے، حصرت اسحٰق کے پوتے اور حضرت ابراہیم کے پڑ پوتے تھے۔
بائبل کے بیان کے مطابق (جس کی تائید قرآن کے اشارات سے بھی ہوتی ہے) فلسطین میں حبرون (موجودہ الخیل) کی وادی میں مقیم حضرت یعقوب کے بارہ بیٹے تھے۔ حضرت یوسف اور ان کے چھوٹے بھائی بن یامین ایک بیوی سے اور باقی دس دوسری تین بیویوں سے تھے۔
بائبل کے علما کی تحقیق ہے کہ حضرت یوسف کی پیدائش 1906 قبل مسیح کے لگ بھگ ہوئی اور 16 سال بعد وہ واقعہ پیش آیا جس سے اس قصے کی ابتدا ہوتی ہے۔
حضرت یوسف کا خواب
سورہ یوسف میں ہے: ’جب یوسف نے اپنے باپ سے کہا: ابا جان، میں نے خواب دیکھا ہے کہ گیارہ ستارے ہیں اور سورج اور چاند ہیں۔ میں نے اُن کو دیکھا کہ وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔‘
جواب میں اُس کے باپ نے کہا: ’بیٹا، اپنا یہ خواب اپنے بھائیوں کو نہ سنانا، ایسا نہ ہو کہ وہ تمھارے خلاف کوئی سازش کرنے لگیں۔ اِس میں شبہ نہیں کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔‘
'(تمھارا یہ خواب بتا رہا ہے کہ) تمھارا پروردگار تمھیں اِسی طرح برگزیدہ کرے گا اور تمھیں باتوں کی حقیقت تک پہنچنا سکھائے گا اور تم پر اور آل یعقوب پر اپنی نعمت تمام کرےگا، جس طرح وہ اِس سے پہلے تمھارے بزرگوں ابراہیم اور اسحٰق پر کر چکا ہے۔ یقیناً تیرا پروردگار علیم و حکیم ہے۔'
مفسرین لکھتے ہیں کہ سورج سے مراد حضرت یعقوب، چاند سے مراد ان کی بیوی (حضرت یوسف کی سوتیلی والدہ) اور گیارہ ستاروں سے مراد گیارہ بھائی ہیں۔
بائبل اور تَلمود کا بیان قرآن کے اس بیان سے مختلف ہے۔
ان کا بیان یہ ہے کہ 'حضرت یعقوب نے خواب سُن کر بیٹے کو خوب ڈانٹا اور کہا اچھا اب تو یہ خواب دیکھنے لگا ہے کہ میں اور تیری ماں اور تیرے سب بھائی تجھے سجدہ کریں گے۔'
اس وقت حضرت یوسف کی عمر 17 برس تھی۔

حضرت یوسف کا کنوئیں میں پھینکا جانا اور فروخت ہونا
جیسا کہ حضرت یعقوب کا خدشہ تھا، قرآن کے مطابق حضرت یوسف کے بھائی انھیں سیر کے بہانے لے گئے، پہلے جان سے مارنے کا سوچا اور پھر انھیں ایک کنوئیں میں ڈال دیا کہ کوئی گزرتا قافلہ غلام بنا کر لے جائے اور روتے پیٹتے گھر آئے کہ انھیں بھیڑیا کھا گیا۔ چونکہ بن یامین کم عمر تھے، وہ ان کے ساتھ نہیں تھے۔
یہ بیان بھی بائبل اور تَلمود کے بیان سے مختلف ہے۔ ان کی روایت یہ ہے کہ حضرت یوسف کے بھائی اپنے مویشی چَرانے کے لیے سِکّم کی طرف گئے ہوئے تھے اور ان کے پیچھے خود حضرت یعقوب نے ان کی تلاش میں حضرت یوسف کو بھیجا تھا۔
حضرت یوسف کو جس کنویں میں پھینکا گیا وہ بائبل اور تلمود کی روایات کے مطابق سکم (موجودہ نابلوس جہاں حضرت یعقوب کی کچھ زمین تھی) کے شمال میں دوتن (موجودہ دُثان) کے قریب واقع تھا۔
ان ہی روایات سے پتا چلتا ہے کہ جس قافلے نے انھیں کنوئیں سے نکالا وہ جلعاد (شرق اردن) سے مصر جا رہا تھا جس کا دارالسلطنت اُس زمانے میں ممفس تھا جس کے کھنڈر قاہرہ کے جنوب میں 21 کلومیٹر کے فاصلے پر پائے جاتے ہیں۔
سورہ یوسف میں ہے کہ 'اُدھر ایک قافلہ آیا اور اُنھوں نے اپنا پانی بھرنے والا بھیجا اور اُس نے اپنا ڈول (کنویں میں) ڈالا، (پھر یوسف کو دیکھا تو) پکار اٹھا: خوش خبری ہو، یہ تو ایک لڑکا ہے۔ چنانچہ اُنھوں نے (اُس کو نکالا اور) اُس کو پونجی سمجھ کر چھپا لیا۔۔۔ (پھر لے کر مصر پہنچ گئے) اور اُس کو تھوڑی سی قیمت، چند درہموں کے عوض بیچ دیا۔'
مگر بائبل اورتلمود میں حضرت یوسف کے مصر میں فروخت ہونے کی تفصیلات قرآن سے مختلف ہیں۔
مصر پر اس زمانے میں چروا ہے بادشاہوں (ہکساس کنگز) کی حکومت تھی۔
تفہیم القرآن میں ابوالاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں کہ یہ لوگ عرب تھے اور فلسطین و شام سے مصر جا کر دو ہزار برس قبل مسیح کے لگ بھگ زمانے میں سلطنت مصر پر قابض ہو گئےتھے۔ عرب مؤرخین اور مفسرین قرآن نے ان کے لیے 'عمالیق' کا نام استعمال کیا ہے۔
'مصری تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ ان چرواہے بادشاہوں نے مصری دیوتاؤں کو تسلیم نہیں کیا تھا، بلکہ اپنے دیوتا شام سے اپنے ساتھ لائے تھے اور ان کی کوشش یہ تھی کہ مصر میں ان کا مذہب رائج ہو۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید حضرت یوسف کے ہم عصر بادشاہ کو 'فرعون' کے نام سے یاد نہیں کرتا۔ لیکن بائبل میں اس کو بھی فرعون ہی کا نام دیا گیا ہے۔`
فرعون کا خاندان حضرت یوسف کے پانچ سو سال بعد مصر میں حکمراں بنا۔
مودودی کے مطابق 'بائبل اور مصری تاریخ کا تقابلکرنے والے محققین کی رائے ہے کہ چرواہا بادشاہ اپوفیس حضرت یوسف کا ہم عصر تھا۔ مصر کا دارالسلطنت اس زمانے میں ممفس (منف) تھا جس کے کھنڈر قاہرہ کے جنوب میں ہیں۔'
مصر میں حضرت یوسف کے خریدار کا نامبائبل میں فوطیفار لکھا ہے۔ بائبل اور تلمود کا بیان ہے کہ وہ شاہی جلو داروں (باڈی گارڈ) کے افسر تھے اور ابن جریر حضرت عبداللہ بن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ وہ شاہی خزانے کے افسر تھے۔ قرآن آگے چل کر انھیں 'عزیز' کے لقب سے یاد کرتا ہے۔
تلمود کا بیان ہے کہ 'فوطیفار ان کی شاندار شخصیت کو دیکھ کر ہی سمجھ گیا تھا کہ یہ لڑکا غلام نہیں ہے بلکہ کسی بڑے شریف خاندان کا چشم و چراغ ہے جسے حالات کی گردش یہاں کھینچ لائی ہے۔ اسی بنا پر فوطیفار نے ان سے غلاموں کا سا برتاؤ نہیں کیا بلکہ انھیں اپنے گھر اور اپنی کل اِملاک کا مختار بنا دیا۔'
بائبل کا بیان ہے کہ 'اس نے اپنا سب کچھ یوسف کے ہاتھ میں چھوڑ دیا اور سوا روٹی کے جسے وہ کھا لیتا تھا اسے اپنی کسی چیز کا ہوش نہ تھا۔'
قرآن میں ہے کہ اُس نے اپنی بیوی سے کہا 'اِس کو اچھی طرح رکھنا، بعید نہیں کہ یہ ہمارے لیے مفید ثابت ہو یا ہم اسے بیٹا بنا لیں۔'
تلمود میں اس خاتون کا نام زلیخا لکھا ہے۔ بائبل اور قرآن میں نام نہیں لکھا۔

حضرت یوسف اور زلیخا
قرآن میں ہے کہ 'وہ اُس پر ڈورے ڈالنے لگی اور ایک روز دروازے بند کر کے بولی ’آ جا۔‘
یُوسف نے کہا ’خدا کی پناہ، میرے ربّ نے تو مجھے اچھی منزلت بخشی (اور میں یہ کام کروں!) ایسے ظالم کبھی فلاح نہیں پایا کرتے۔‘
وہ اُس کی طرف بڑھی اور یُوسف بھی اُس کی طرف بڑھتا اگر اپنے ربّ کی بُرہان (دلیل) نہ دیکھ لیتا۔
آخرِ کار یُوسُف اور وہ آگے پیچھے دروازے کی طرف بھاگے اور اُس نے پیچھے سے یُوسُف کی قمیض (کھینچ کر) پھاڑ دی۔ دروازے پر دونوں نے اُس کے شوہر کو موجود پایا۔ اسے دیکھتے ہی عورت کہنے لگی 'کیا سزا اُس شخص کی جو تیری گھر والی پر نیّت خراب کرے؟ اس کے سوا اور کیا سزا ہو سکتی ہے کہ وہ قید کیا جائے یا اسے سخت عذاب دیا جائے؟‘
یُوسُف نے کہا ’یہی مجھے پھنسانے کی کوشش کر رہی تھی۔‘ اس عورت کے اپنے کنبے والوں میں سے ایک شخص نے (قرینے کی) شہادت پیش کی کہ 'اگر یُوسُف کی قمیض آگے سے پھٹی ہو تو عورت سچی ہے اور یہ جھُوٹا اور اگر اِس کی قمیض پیچھے سے پھٹی ہو تو عورت جھُوٹی ہے اور یہ سچا۔'
بعض روایات میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ گواہیپیش کرنے والا ایک شیر خوار بچہ تھا جو وہاں پنگھوڑے میں لیٹا ہُوا تھا اور خدا نے اسے گویائی عطا کر کے اس سے یہ شہادت دلوائی۔ (مفسّرین کے ہاں شیر خوار بچے کی شہادت کا قصہ یہودی روایات سے آیا ہے۔)
قرآن میں ہے کہ 'جب شوہر نے دیکھا کہ یُوسُف کی قمیض پیچھے سے پھٹی ہے تو اس نے کہا '۔۔۔ یُوسُف، اس معاملے سے درگزر کر اور اے عورت، تُو اپنے قصُور کی معافی مانگ، تُو ہی اصل میں خطا کار تھی۔ '
بائبل میں یہ واقعہ یوں بیان ہوا ہے:
'تب اس عورت نے اُس کا پیراہن پکڑ کر کہا کہ میرے ساتھ ہم بستر ہو۔ وہ اپنا پیراہن اس کے ہاتھ میں چھوڑ کر بھاگا اور باہر نکل گیا۔۔۔ اس نے اپنے گھر کے آدمیوں کو بلا کر کہا کہ۔۔۔ یہ مجھ سے ہم بستر ہونے کو گھس آیا اور میں بلند آواز میں چلانے لگی تو اپنا پیراہن میرے پاس چھوڑ کر بھاگا اور باہر نکل گیا۔'
'اور وہ اس کا پیراہن اس کے آقا کے گھر لوٹنے تک اپنے پاس رکھے رہی۔۔۔ جب اس کے آقا نے اپنی بیوی کی وہ باتیں جو اس نے اس سے کہیں سُن لیں کہ تیرے غلام نے مجھ سے ایسا ایسا کیا تو اس کا غضب بھڑکا اور یوسف کے آقا نے اس کو لے کر قید خانے میں جہاں بادشاہ کے قیدی بند تھے ڈال دیا'۔ (پیدائش ۳۹: ۲۰-۲١)
تلمود کا بیان ہے کہ فوطیفار نے جب اپنی بیوی سے یہ شکایت سنی تو اس نے یوسف کو خوب پٹوایا، پھر ان کے خلاف عدالت میں استغاثہ دائر کیا اور حکام عدالت نے حضرت یوسف کی قمیض کا جائزہ لے کر فیصلہ کیا کہ قصور عورت کا ہے کیونکہ قمیض پیچھے سے پھٹی ہے نہ کہ آگے سے۔
قرآن کے مطابق شہر کی عورتیں آپس میں چرچا کرنے لگیں کہ ’عزیز کی بیوی اپنے نوجوان غلام کے پیچھے پڑی ہوئی ہے، محبّت نے اسے بے قابو کر رکھا ہے، ہمارے نزدیک تو وہ صریح غلطی کر رہی ہے۔' اس نے جو اُن کی یہ مکّارانہ باتیں سُنیں تو اُن کو بُلاوا بھیج دیا اور ان کے لیے تکیہ دار مجلس آراستہ کی اور ضیافت میں ہر ایک کے آگے ایک ایک چھُری رکھ دی۔‘
بائبل میں اس ضیافت کا کوئی ذکر نہیں ہے البتہ تلمود میں یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے، مگر وہ قرآن سے بہت مختلف ہے۔
قرآن میں ہے کہ ’(پھر عین اُس وقت جب کہ وہ پھل کاٹ کاٹ کر کھا رہی تھیں) اس نے یُوسُف کو اشارہ کیا کہ ان کے سامنے نکل آ۔ جب ان عورتوں کی نگاہ اُس پر پڑی تو وہ دنگ رہ گئیں اور اپنے ہاتھ کاٹ بیٹھیں اور بے ساختہ پُکار اُٹھیں 'حاشالِلّٰہ، یہ شخص انسان نہیں ہے، یہ تو کوئی بزرگ فرشتہ ہے۔‘
'عزیز کی بیوی نے کہا 'دیکھ لیا! یہ ہے وہ شخص جس کے معاملے میں تم مجھ پر باتیں بناتی تھیں۔ بے شک میں نے اِسے رجھانے کی کوشش کی تھی مگر یہ بچ نِکلا۔ اگر یہ میرا کہنا نہ مانے گا تو قید کیا جائے گا اور بہت ذلیل و خوار ہو گا۔'
حضرت یوسف کی قید
'یُوسُف نے کہا 'اے میرے ربّ! قید مجھے منظور ہے بہ نسبت اس کے کہ میں وہ کام کروں جو یہ لوگ مجھ سے چاہتے ہیں۔۔۔ اس کے ربّ نے اس کی دُعا قبول کی۔۔۔ پھر ان لوگوں کو یہ سُوجھی کہ ایک مُدّت کے لیے اسے قید کر دیں حالانکہ وہ (اس کی پاکدامنی اور خود اپنی عورتوں کے بُرے اطوار کی ) صریح نشانیاں دیکھ چکے تھے۔'
قید خانے میں دو غلام اور بھی ان کے ساتھ داخل ہوئے۔ قرآن کے مطابق حضرت یوسف نے توحید کے موضوع پر دعوتی تقریر کی لیکن بائبل اور تلمود میں اس کا ذکر نہیں۔
قرآن کے مطابق حضرت یوسف نے انھیں خوابوں کی تعبیر بتائی کہ 'تم میں سے ایک تو اپنے ربّ (شاہِ مصر) کو شراب پلائے گا، رہا دُوسرا تو اسے سُولی پر چڑھایا جائے گا اور پرندے اس کا سر نوچ نوچ کر کھائیں گے۔'
'پھر اُن میں سے جس کے متعلق خیال تھا کہ وہ رہا ہو جائے گا اس سے یُوسُف نے کہا کہ 'اپنے آقا (شاہِ مصر) سے میرا ذکر کرنا۔' مگر شیطان نے اسے ایسا غفلت میں ڈالا کہ وہ اپنے آقا (شاہِ مصر) سے اس کا ذکر کرنا بھُول گیا اور یُوسُف کئی سال قید خانے میں پڑا رہا۔'

حکمرانی کی جانب حضرت یوسف کا سفر کیسے ہوا؟
قرآن کے مطابق 'ایک روزبادشاہ نے کہا 'میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ سات موٹی گائیں ہیں جن کو سات دُبلی گائیں کھا رہی ہیں اور اناج کی سات بالیں ہری ہیں اور دُوسری سات سُوکھی۔ اے اہلِ دربار، مجھے اس خواب کی تعبیر بتاؤ اگر تم خوابوں کا مطلب سمجھتے ہو۔'
'اُن دو قیدیوں میں سے جو شخص بچ گیا تھا اور اُسے ایک مُدّتِ دراز کے بعد اب بات یاد آئی۔'
وہ شخص حضرت یوسف سے ملا اور خواب کی تعبیر پوچھی۔
مفسرین کے مطابق حضرت یوسف نے تعبیر میں صرف بادشاہ کے خواب کا مطلب بتانے ہی پر اکتفا نہ کیا، بلکہ ساتھ ساتھ بتا دیا کہ خوشحالی کے ابتدائی سات برسوں میں آنے والے قحط کے لیے پیش بندی کی جائے اور غلہ کو محفوظ رکھنے کا کیا بندوبست کیا جائے۔ پھر مزید بر آں آپ نے قحط کے بعد اچھے دن آنے کی خوشخبری بھی دے دی جس کا ذکر بادشاہ کے خواب میں نہ تھا۔
قرآن میں ہے کہ (یہ تعبیر دربار میں سنائی گئی تو) بادشاہ نے کہا: اُسے میرے پاس لاؤ۔
'مگر جب قاصد یوسف کے پاس (اُسے لینے کے لیے) پہنچا تو اُس نے کہا: اپنے آقا کے پاس واپس جاؤ اور اُس سے پوچھو کہ اُن عورتوں کا کیا معاملہ ہے جنھوں نے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے؟ میرا پروردگار تو اُن کے فریب سے خوب واقف ہے۔'

بے گناہی کی تصدیق
قرآن کے مطابق: 'سب (خواتین ) نے گواہی دی کہ حاشا للہ، ہم نے اُس میں برائی کا کوئی شائبہ تک نہیں پایا۔ عزیز کی بیوی بھی بول اٹھی: اب حق کھل چکا ہے۔ یہ میں ہی تھی جس نے اُس کو پھسلانے کی کوشش کی تھی، اِس میں شبہ نہیں کہ وہ بالکل سچا ہے۔ بادشاہ نے کہا 'اُنھیں میرے پاس لاؤ تاکہ میں ان کو اپنے لیے مخصُوص کر لوں۔'
'جب یُوسُف نے اس سے گفتگو کی تو اس نے کہا 'اب آپ ہمارے ہاں قدر و منزلت رکھتے ہیں اور آپ کی امانت پر پورا بھروسا ہے۔'
'یُوسُف نے کہا 'ملک کے خزانے میرے سپُرد کیجیے، میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں۔'
بائبل اور تلمود کے بیان میں حضرت یوسف کے بادشاہ کے دربار آنے کی تفصیل مختلف ہے۔ تلمود کا بیان ہے کہ حضرت یوسف کو حکومت کے اختیارات سونپنے کا فیصلہ تنہا بادشاہ ہی نے نہیں کیا تھا بلکہ پوری شاہی کونسل نے اس کے حق میں رائے دی تھی۔
قرآن، بائبل، اور تلمود کی متفقہ گواہی ہے کہ حضرت یوسف سلطنت مصر کے مختار کل بنائے گئے تھے۔
مودودی لکھتے ہیں کہ خواب والی پیش خبری کے مطابق حضرت یوسف کی حکومت کے پہلے سات سال مصر میں انتہائی خوشحالی کے گزرے اور ان ایام میں انھوں نے آنے والے قحط کے لیے تمام پیش بندیاں کر لیں۔ اس کے بعد قحط کا دور شروع ہوا اور یہ قحط صرف مصر ہی میں نہ تھا بلکہ شام، فلسطین، شرق اردن، شمالی عرب، سب جگہ خشک سالی کا دور دورہ تھا۔
'ان حالات میں حضرت یوسف کے دانشمندانہ انتظام کی بدولت صرف مصر ہی وہ ملک تھا جہاں قحط کے باوجود غلہ کی افراط تھی۔ یہی وہ موقع تھا جب فلسطین سے حضرت یوسف کے بھائی غلہ خریدنے کے لیے مصر پہنچے۔'
قرآن سے علم ہوتا ہے کہ حضرت یوسف نے اپنے بھائیوں سے جو انھیں پہچان نہیں پائے تھے، اشارتاً اپنے بھائی بن یامین کو لانے کو کہا۔ کتاب پیدائش کے باب ۴۲۔ ۴۳ میںیہ بات رنگ آمیزی کے ساتھ پیش کی گئی ہے۔

حضرت یعقوب کے خاندان یا بنی اسرائیل کا مصر آنا
قرآن میں ہے کہ 'یہ لوگ یُوسُف کے حضُور پہنچے تو اس نے اپنے بھائی کو اپنے پاس الگ بلا لیا اور اسے بتا دیا کہ 'میں تیرا وہی بھائی ہوں (جو کھویا گیا تھا)۔ اب تُو اُن باتوں کا غم نہ کر جو یہ لوگ کرتے رہے ہیں۔'
بادشاہ کے پیالے کی چوری کا الزام اپنے بھائی بن یامین پر لگا کر اور جیسا کہ بھائیوں نے 'چور' کے لیے سزا تجویز کی تھی، انھیں اپنے پاس رکھ لیا۔
قرآن میں ہے کہ ’پھر جب وہ (اگلی مرتبہ) یوسف کی پیشی میں داخل ہوئے تو اُنھوں نے (گڑگڑا کر) عرض کیا: اے عزیز،۔۔۔ ہمیں پورا غلہ دیجیے اور ہم پر خیرات بھی کیجیے۔‘
(اُن کی یہ التجا سن کر یوسف سے رہا نہ گیا)، اُس نے کہا: ’تمھیں کچھ پتا ہے کہ جب تم جہالت میں مبتلا تھے تو یوسف اور اُس کے بھائی کے ساتھ تم کیا کر گزرے؟‘
وہ (چونک کر) بولے: ’کیا واقعی تمھی یوسف ہو؟ اُس نے کہا: ہاں، میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے۔ اللہ نے ہم پر عنایت فرمائی ہے۔۔۔‘
اُنھوں نے کہا: ’بخدا، کچھ شک نہیں کہ اللہ نے تم کو ہمارے اوپر برتری عطا فرمائی ہے اور کچھ شک نہیں کہ ہم قصوروارتھے۔
(جاؤ)، میرا یہ کرتا لے جاؤ اور اِس کو میرے باپ کے چہرے پر ڈال دو، اُس کی بینائی لوٹ آئے گی اور اپنے سب اہل و عیال کو لے کر میرے پاس آجاؤ۔۔۔ پھر جب یہ ہوا کہ خوش خبری دینے والا پہنچ گیا، اُس نے کرتا یعقوب کے چہرے پر ڈال دیا تو یکایک اُس کی بینائی لوٹ آئی۔۔۔‘
پھر جب یہ لوگ یوسف کے پاس پہنچے، اُس نے اپنے والدین ( یعنی اپنے والد اور اپنی سوتیلی والدہ کو جو اُن کی حقیقی خالہ بھی تھیں۔ بائبل میں صراحت ہے کہ اُن کی والدہ وفات پا چکی تھیں) کو خاص اپنے پاس جگہ دی اور کہا: ’مصر میں، اللہ چاہے تو امن چین سے رہیے۔'
بائبل اور تلمود کا بیان ہے کہ یہ لوگ پہنچے تو حضرت یوسف نے شہر سے باہر نکل کر اِن کا خیرمقدم کیا اور اِنھیں اِس شان سے شہر میں لائے کہ ایک جشن کی صورت پیدا ہو گئی۔
قرآن میں ہے کہ '(اپنے گھر پہنچ کر) اُس نے اپنے والدین کو تخت پر بٹھایا اور سب بے اختیار اُن کے آگے جھک گئے۔ یوسف نے کہا: ابا جان، یہ میرے اُس خواب کی تعبیر ہے جو میں نے پہلے دیکھا تھا۔ میرے پروردگار نے اُس کو حقیقت بنا دیا۔ اُس نے مجھ پر بڑا کرم فرمایا۔'
تفہیم القرآن میں لکھا ہے کہ اس وقت حضرت یعقوب کی عمر 130 سال تھی اور اس کے بعد وہ مصر میں 17 سال زندہ رہے۔
حضرت یوسف 30 سال کی عمر میں ملک کے فرمانروا ہوئے اور 80 سال تک مصر پر حکومت کرتے رہے۔ اپنی حکومت کے نویں یا دسویں سال انھوں نے حضرت یعقوب کو اپنے پورے خاندان کے ساتھ فلسطین سے مصر بلا لیا اور اس علاقے میں آباد کیا جو دمیاط اور قاہرہ کے درمیان واقع ہے۔ بائبل میں اس علاقے کا جُشَن یا گوشن بتایا گیا ہے۔
حضرت موسیٰ کے زمانے تک یہ لوگ اسی علاقے میں آباد رہے۔ بائبل کا بیان ہے کہ حضرت یوسف نے ایک سو دس سال کی عمر میں وفات پائی اور انتقال کے وقت بنی اسرائیل کو وصیت کی کہ جب تم اس ملک سے نکلو تو میری ہڈیاں اپنے ساتھ لے کر جانا۔
انسائکلوپیڈیا برٹینیکا کے مطابق اس قصے کا مقصد بنی اسرائیل کی بقا کو بیان کرنا ہے۔ ’یہ کہانی الٰہی حکمتِ عملی کے کام کرنے کی شہادت کے طور پر بیان کی گئی ہے: تم نے میرے خلاف برائی کا ارادہ کیا، لیکن خدا نے اسے بھلائی میں بدل دیا۔۔۔ (پیدائش 50:20) اس کا اخلاقی سبق پیش کرتا ہے۔‘
جاوید احمد غامدی اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ مکی دور میں نازل ہونے والے قرآن میں اِس قصے کے اولین مخاطبین قریش تھے۔
’اُن کے لیے تو گویا اِسے ایک آئینہ بنا دیا گیا ہے، جس میں وہ اپنی عاقبت بھی دیکھ سکتے تھے اور اسلام اور مسلمانوں کا مستقبل بھی۔‘
’اِس کے نزول پر ڈیڑھ دو سال ہی گزرے تھے کہ قریش نے برادران یوسف کی طرح دارالندوہ میں رسول اللہ کے قتل کی سازش کی، مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اُن کے شر سے محفوظ رکھا۔ آپ مکہ سے نکلے اور غار ثور میں جا چھپے۔ اِس کے بعد وہاں سے نکل کر مدینہ پہنچ گئے۔‘
’پھر قریش کی توقعات کے بالکل خلاف آپ کو وہاں ایسا وقار اور اقتدار حاصل ہوا کہ چشم فلک نے اُس کی نظیر نہیں دیکھی۔ اہل مکہ کو آپ کی اطاعت میں داخل ہونا پڑا، یہاں تک کہ فتح مکہ کے موقع پر ٹھیک وہی صورت پیدا ہو گئی جو مصر کے پایۂ تخت میں حضرتیوسف کے سامنے اُن کے بھائیوں کی حاضری کے موقع پر پیدا ہوئی تھی۔‘
’پیغمبر اسلام نے اپنی قوم کے لوگوں سے پوچھا: بتاؤ، میں تمھارے ساتھ کیا معاملہ کرنے والا ہوں؟
’اُنھوں نے عرض کیا: 'آپ ایک عالی ظرف بھائی اور عالی ظرف بھائی کے بیٹے ہیں۔‘
اِس پر انھوں نے فرمایا: ’میں تم سے وہی بات کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف نے اپنے بھائیوں سے کہی تھی: جاؤ، تم آزاد ہو، آج تم پر کوئی گرفت نہیں۔‘