ٹی ٹی پی کا پروپیگنڈا روکنے میں پاکستان کو کن مشکلات کا سامنا ہے؟

کالعدم ٹی ٹی پی کے میڈیا ونگ عمر میڈیا کے پروپیگنڈے میں ایک نیا رجحان سامنے آیا ہے۔ اب عمر میڈیا کے پلیٹ فارم سے کسی واقعے کی ذمہ داری قبول کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو اُکسانے اور ملکی سیاسی صورتحال سے متعلق بیانات بھی جاری کیے جا رہے ہیں۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی افغان سرزمین کو پاکستان میں حملوں کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ تاہم طالبان حکومت اس کی تردید کرتی ہے۔
ٹی ٹی پی
Getty Images
ٹی ٹی پی کے میڈیا ونگ ’عمر میڈیا‘ نے سنہ 2021 میں طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد سے اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں

حالیہ مہینوں میں پاکستان میں شدت پسند کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے سکیورٹی فورسز کے خلاف حملوں میں ڈرامائی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ دوسری طرف سکیورٹی فورسز ان کے خلاف کارروائیاں بھی کر رہی ہیں۔

اگر ہم سال 2024 کے اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو ٹی ٹی پی نے سکیورٹی فورسز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں پر 1,758 حملے کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

ٹی ٹی پی کی جانب سے جاری اعداد و شمار اور دعوؤں کے مطابق ان حملوں میں 1,284 افراد ہلاک اور 1,661 زخمی ہوئے ہیں۔

جہاں ایک جانب کالعدم تنظیم ٹی ٹی پی کے حملوں میں شدت آئی ہیں وہیں ان کے پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیے جانے والے میڈیا ذرائع بھی وسعت اختیار کرتے دکھائی دیے ہیں۔

اگرچہ پاکستانی حکام نے شدت پسند تنظیم ٹی ٹی پی کو نقصان پہنچانے میں کامیابیوں کا دعویٰ کیا ہے، لیکن حکومتی کوششوں کا تنظیم کے میڈیا آپریشنز پر کوئی خاص منفی اثر نہیں پڑا ہے۔

ٹی ٹی پی کے بڑھتے میڈیا پروپیگنڈے اور حکومت کو اسے روکنے میں مشکلات پر بات کرنے سے قبل یہ جانتے ہیں کہ پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیے جانے والا ٹی ٹی پی کا میڈیا نیٹ ورک کیا ہے اور یہ کام کیسے کرتا ہے؟

ٹی ٹی پی کی نمائندگی کرنے والا ’عمر میڈیا‘

شدت پسند تنظیم کالعدم ٹی ٹی پی کا اپنی نمائندگی اور پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیے جانے والے میڈیا ونگ 'عمر میڈیا' نے تنظیم کے موجودہ سربراہ نور ولی محسود کے زیر قیادت وسعت حاصل کی ہے۔

نور ولی محسود نے سنہ 2018 میں ٹی ٹی پی کی قیادت سنبھالنے کے بعد تنظیم سے الگ ہونے والے دھڑوں کو مضبوط کیا اور کئی دوسرے گروپوں کے ساتھ اتحاد قائم کیا۔

ٹی ٹی پی کے میڈیا ونگ 'عمر میڈیا' نے سنہ 2021 میں طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد سے اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں۔

اس کا ٹی ٹی پی کی حالیہ بڑھتی ہوئی کارروائیوں میں ایک اہم کردار رہا ہے۔ اس میڈیا ونگ کا نام افغان طالبان کے بانی ملا محمد عمر کے نام پر رکھا گیا ہے اور یہ میڈیا گروپ ٹی ٹی پی کی نام نہاد 'وزارتِ اطلاعات و نشریات' کے ماتحت کام کرتا ہے۔

عمر میڈیا کی جانب سے آڈیو، ویڈیو اور ٹیکسٹ مواد اُردو اور پشتو زبانوں میں شائع کیا جاتا ہے اور پھر اسے انگریزی، دری، فارسی اور عربی میں ترجمہ کر کے دوبارہ شائع کیا جاتا ہے۔ اس میں متعدد ویڈیوز، روزانہ کا ریڈیو براڈکاسٹ، ہفتے میں دو بار نشر ہونے والی حالاتِ حاضرہ کی پوڈکاسٹ، ایک اردو میگزین اور ٹی ٹی پی کی جانب سے روزانہ کے حملوں کی رپورٹ اور سیاست کے حوالے سے بیانات کی اشاعت شامل ہے۔

ٹی ٹی پی
Getty Images
عمر میڈیا کی جانب سے آڈیو، ویڈیو اور ٹیکسٹ مواد اُردو اور پشتو زبانوں میں شائع کیا جاتا ہے

یہ مواد عمر میڈیا کی ویب سائٹ پر شائع کیا جاتا ہے اور اسے گروپ کے مخصوص سوشل میڈیا اکاؤنٹس، واٹس ایپ اور ٹیلی گرام جیسی پیغام رساں ایپس کے ذریعے بھی پھیلایا جاتا ہے۔

عمر میڈیا کے ساتھ کام کرنے والے افراد عموماً افغان اور پاکستانی صحافیوں کے ساتھ رابطے کرتے ہیں اور ٹی ٹی پی کے مواد کی وسیع پیمانے پر اشاعت کو یقینی بناتے ہیں۔

سنہ 2021 میں ایک سینیئر پاکستانی صحافی مشتاق یوسفزئی نے ایک ٹاک شو میں انکشاف کیا تھا کہ عمر میڈیا کے لیے پڑھے لکھے نوجوان مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کو مانیٹر کرتے ہیں۔ عمر میڈیا کی جانب سے ٹیلی گرام اور واٹس ایپ پر چینل بنائے گئے ہیں اور متعدد پاکستانی اور افغان صحافی ان چینلز کو فالو کرتے ہیں۔

سنہ 2021 میں عمر میڈیا نے اعلان کیا تھا کہ عمر میڈیا کو فالو کرنے والے جو حضرات مضامین لکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، وہ مجلے کے لیے اُردو زبان میں مضامین لکھ کر اسے ایک مخصوص آئی ڈی پر ارسال کریں۔

یہ افغان طالبان کی اس حکمتِ عملی سے مطابقت رکھتی ہے جو ان کی جانب سے اپنے دورِ عروج پر اپنائی گئی تھی۔

یاد رہے کہ دیگر شدت پسند تنظیمیں جیسا کہ نام نہاد دولتِ اسلامیہ اور القاعدہ کی ایسی میڈیا پالیسی نہیں ہے۔

تاہم رواں برس جنوری میں ٹی ٹی پی نے اپنے میڈیا ونگ عمر میڈیا کے ڈھانچے میں تبدیلیاں کیں اور اس کو مزید جدید، متحرک اور فعال بنایا ہے۔

عمر میڈیا کے تنظیمی ڈھانچے میں تبدیلیاں

رواں برس جنوری میں ٹی ٹی پی نے پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیے جانے والے عمر میڈیا کو از سر نو تشکیل دیا تھا اور ایک تفصیلی تنظیمی ڈھانچے کا اعلان کیا تھا جس کے مطابق 34 افراد اس ادارے کی سرگرمیوں کی نگرانی کریں گے۔

ٹی ٹی پی نے اس کی ازسر نو تشکیل کے دوران مرکزی میڈیا کمیشن کے ساتھ ساتھ آڈیو، ویڈیو، میگزین، ایف ایم ریڈیو اور سوشل میڈیا کے پانچ الگ شعبوں کا اعلان بھی کیا تھا۔

ٹی ٹی پی کی جانب سے جاری ایک بیان کے مطابق عمر میڈیا کے نو رکنی مرکزی میڈیا کمیشن کی سربراہی کالعدم تنظیم کے کمانڈر چوہدری منیب الرحمان جٹ کرتے ہیں، جبکہ محمد خراسانی اس کے مرکزی ترجمان ہیں۔

اس کے علاوہ ٹی ٹی پی کی جاری بیان کے مطابق اس کے نام نہاد 36 'صوبوں' (پاکستان میں علاقائی بنیاد پر ذیلی شاخوں) کے لیے الگ سے میڈیا نمائندے مقرر کیے گئے ہیں۔

منیب جٹ عمر میڈیا کے سربراہ سنہ 2023 سے ہیں اور انھوں نے اس کو وسعت دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ واضح رہے کہ عمر جٹ اس سے قبل القاعدہ برصغیر کے ساتھ منسلک تھے۔

عمر میڈیا میں دیگر عسکریت پسند تنظیموں جیسے کہ جماعت الحرار سے تعلق رکھنے والے ماہر پروپیگنڈا کرنے والے ارکان بھی شامل ہیں۔ عسکریت پسند تنظیم جماعت الحرار سنہ 2020 میں ٹی ٹی پی کے ساتھ الحاق کر کے اس میں ضم ہو گئی تھی۔

عمر میڈیا کس طرح کا مواد بناتا ہے؟

سنہ 2021 میں افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد سے ٹی ٹی پی نے عمر میڈیا کے ذریعے پروپیگنڈے میں نمایاں اضافہ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے میڈیا آپریشن کو نہ صرف وسعت دی ہے بلکہ اس میں سرمایہ کاری بھی کی ہے۔

بی بی سی مانٹیرنگ کے جائزے کے مطابق عمر میڈیا کی جانب سے مختلف اقسام کا مواد بنایا جاتا ہے لیکن ویڈیو اس میں سب سے زیادہ مقبول ہے۔

ٹی ٹی پی کا عمر میڈیا ویڈیو، آڈیو اور پوڈ کاسٹ سیریز کے ساتھ ساتھ اردو اور پشتو زبان میں رسالے بھی شائع کرتا ہے۔ اس کے علاوہ عمر میڈیا کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر کسی پیش رفت پر بیانات بھی جاری کیے جاتے ہیں۔ ان میں حملوں کے حوالے سے مختصر دعوے بھی کیے جاتے ہیں اور انھیں ترجمان محمد خراسانی نے منسوب کیا جاتا ہے۔

گذشتہ برس ستمبر میں عمر میڈیا نے اعلان کیا تھا کہ وہ باقاعدگی سے چار رسالے، ایک پوڈ کاسٹ سیریز، دو لیکچرز روزانہاور ایک ہفتہ وار نیوز لیٹر شائع کر رہا ہے۔

عمر میڈیا کی جانب سے جاری کی جانے والی مختصر ویڈیوز سب سے زیادہ قابل ذکر ہیں جن کا مقصد پاکستانی سکیورٹی فورسز کے خلاف تشدد کو بھڑکانا اور ساتھ ہی ٹی ٹی پی کی سکیورٹی فورسز کے خلاف کارروائیوں کو پیش کرنا ہوتا ہے۔ ٹی ٹی پی کے عمر میڈیا کا دعویٰ ہے کہ وہ 14 ویڈیو سیریز تیار کرتا ہے۔

حال ہی میں عمر میڈیا کی اہم اور بنیادی پروپیگنڈا پر مبنی اردو اشاعت ماہانہ میگزین 'مجلہ طالبان' مستقل بنیادوں پر مہینے وار شائع ہو رہا ہے اور اب اس کے معیار اور ڈیزائن دونوں میں نمایاں بہتری دیکھی گئی ہے۔

اب عمر میڈیا کی جانب سے اکثر اوقات خواتین کا ایک خصوصی رسالہ 'بنات خدیجۃ الکبریٰ' اور پشتو زبان کا میگزین 'صدائے طالبان' بھی جاری کیا جا رہا ہے۔

ٹی ٹی پی
Getty Images
سنہ 2021 میں ایک سینیئر پاکستانی صحافی مشتاق یوسفزئی نے ایک ٹاک شو میں انکشاف کیا تھا کہ عمر میڈیا کے لیے پڑھے لکھے نوجوان مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کو مانیٹر کرتے ہیں

بی بی سی مانیٹرنگ کے جائزے کے مطابق عمر میڈیا کی جانب سے شائع کیے جانے والے رسالے 'صدائے طالبان' کو گذشتہ کچھ عرصے سے اشاعت میں تاخیر کا سامنا کرنا پڑا ہے، تاہم رواں ماہ چار مارچ کو کئی مہینوں کے وقفے کے بعد اس کا تازہ ترین ساتواں شمارہ شائع کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ عمر میڈیا نے اپنے نیوز لیٹر 'منزل' کے مواد کو بڑھا کر اس میں مزید مضامین شامل کیے ہیں اور اب اس کو ہفتہ وار اشاعت میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اس سے قبل یہ مہینے میں تین بار شائع کیا جاتا تھا۔

عمر میڈیا کی جانب سے یہ تمام پروپیگنڈا مواد ان کی ویب سائٹ، واٹس ایپ چینل، ٹیلی گرام سمیت دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر شائع کیا جاتا ہے۔

ٹی ٹی پی کے حامی افراد اور گروہ بھی واٹس ایپ، ٹیلی گرام اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر مختلف پروپیگنڈا چینلز چلاتے ہیں، یہاں سے بھی اس مواد کی تشہیر کی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے روایتی میڈیا کے صحافیوں کے ساتھ بھی شیئر کیا جاتا ہے۔

حال ہی میں عمر میڈیا کی جانب سے کیے جانے والے پروپیگنڈے میں ایک نئی حکمت عملی اور رجحان دیکھنے میں آیا ہے۔ اب عمر میڈیا کے پلیٹ فارم سے کسی واقعے کی ذمہ داری لینے کے ساتھ ساتھ لوگوں کو اُکسانے اور ملکی سیاسی صورتحال سے متعلق بیانات بھی جاری کیے جا رہے ہیں۔

مثال کے طور میں حال ہی میں ٹی ٹی پی نے پروپیگنڈا کرتے ہوئے پاکستان کی داخلی سیاسی صورتحال میں حکومت مخالف مظاہروں میں فوج مخالف جذبات کو بھڑکانے کے لیے پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کے خلاف کارروائیوں کو 'مظالم' قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی تھی۔

اسی طرح ٹی ٹی پی کی جانب سے پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں سکیورٹی صورتحال کے پیش نظر لکی مروت میں کشیدگی کے دوران مقامی کمیونٹیز کی مشکلات اور ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے متعدد بیانات بھی جاری کیے گئے تھے۔

حکومتی دعوؤں کی نفی اور پروپیگنڈا

حالیہ کچھ عرصے میں کالعدم ٹی ٹی پی کا میڈیا ونگ عمر میڈیا کھل کر پاکستانی حکومت اور سکیورٹی فورسز کے خلاف پروپیگنڈا کر رہا ہے اور روز بروز اس میں شدت آ رہی ہے۔

بی بی سی مانیٹرنگ کے ایک جائزے کے مطابق اس پروپیگنڈے کی شدت میں اضافہ اس وقت ہوا جب گذشتہ برس دسمبر میں پاکستان حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے پاکستان کی سرحد کے قریب جنوب مشرقی افغانستان کے صوبہ پکتیکا کے برمل ضلع میں ایک فضائی کارروائی کے دوران ٹی ٹی پی کے عمر میڈیا کے ہیڈ کوارٹر کو تباہ کیا ہے۔

یاد رہے کہ 25 دسمبر 2024 کو پاکستان نے افغانستان کے صوبے پکتیکا کے ضلع برمل میں میں عسکریت پسندوں کے خلاف 'انٹیلی جنس پر مبنی ایک فضائی کارروائی 'کی تھی۔

26 دسمبر کو پاکستان کے دفتر خارجہ نے اس فضائی کارروائی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’پاکستانی شہریوں کی سلامتی کو لاحق خطرات کی بنیاد پر پاکستان افغانستان سرحد سے متصل علاقوں‘ میں عسکریت پسندوں کے خلاف انٹیلی جنس پر مبنی آپریشن کیا گیا ہے۔

اس سے ایک دن قبل افغانستان کی وزارت دفاع کی جانب سے جاری بیان میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ پاکستان کی فوج نے افغان صوبہ پکتیکا کے ضلع برمل میں 'فضائی حدود' کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک پناہ گزین کیمپ پر بمباری کی جس کے نتیجے میں متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔

افغان طالبان کی حکومت نے اس 'فضائی کارروائی' پر اسلام آباد سے شدید احتجاج ریکارڈ کروایا تھا اور اور خبردار کیا تھا کہ افغانستان کی علاقائی خودمختاری طالنان کے لیے سرخ لکیر ہے اور وہ اس حملے کا جواب دے گا۔

خیال رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان گذشتہ کچھ عرصے سے تعلقات میں تناؤ ہے اور اسلام آباد نے بار بار کابل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرے جو افغان سرزمین کو پاکستان میں حملوں کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ طالبان حکومت ان الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔

اس حملے کے بعد عمر میڈیا نے کم از کم دو ایسی ویڈیوز اور دو بیانات جاری کیے تھے جس میں حکومت کے ان دعوؤں کی نفی کی گئی تھی۔ عمر میڈیا کی جانب سے ان ویڈیوز اور بیانات میں اس بات کی تردید کی تھی کہ ٹی ٹی پی کے میڈیا ونگ عمر میڈیا پر حملہ کیا گیا ہے۔

ٹی ٹی پی کی جانب سے جاری ایک ویڈیو میں عمر میڈیا کے سربراہ منیب جٹ غیر معمولی طور پر سامنے آئے تھے اور انھوں نے اس دعوے کی تردید کی تھی کہ وہ اور ان کے ساتھی ان حملوں میں مارے گئے ہیں۔

اس ویڈیو میں عمر میڈیا کے ڈپٹی چیف نوید الحسن یوسفزئی نے فضائی حملوں کے بارے میں بات کی تھی اور منیب جٹ کا انٹرویو کیا تھا، جنھوں نے پاکستان حکومت اور سکیورٹی اداروں پر تنقید کی تھی۔

ٹی ٹی پی
Getty Images
اسلام آباد نے بار بار کابل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرے

اس ویڈیو میں انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ اس فضائی کارروائی میں کوئی عسکریت پسند ہلاک نہیں ہوا بلکہ اس حملے میں عام شہری مارے گئے ہیں۔

اس واقعے کے بعد بھی ٹی ٹی پی کے عمر میڈیا کی جانب سے پاکستان حکومت اور سیکورٹی فورسز کے خلاف پروپیگنڈا کم نہیں ہوا بلکہ رواں برس جنوری میں ان کی جانب سے فوج کے زیر انتظام چلنے والے کاروباری اداروں کو نشانہ بنانے کی دھمکی بھی دی گئی تھی۔

ٹی ٹی پی کے اس دھمکی آمیز بیان کو عسکریت پسندی سے متعلق فہم رکھنے والے ماہرین اور مبصرین نے تنظیم کی سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانے کی اپنی پرانی پالیسی اور حکمت عملی میں ایک بڑی تبدیلی کے طور پر دیکھا تھا۔

شدت پسندوں کے پروپیگنڈے کو روکنے میں چیلنجز

حال ہی میں ٹی ٹی پی کی پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے خلاف شدت پسند کارروائیوں میں واضح اضافہ ہوا ہے۔ رواں برس فروری میں ٹی ٹی پی کی جانب سے 147 حملوں کا دعویٰ کیا گیا تھا جو کہ کالعدم تنظیم کے دعوے کے مطابق جنوری کے مہینے میں کیے جانے والے 110 حملوں کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔

ان زمینی کارروائیوں کے ساتھ ساتھ عمر میڈیا تواتر سے مختلف ذرائع ابلاغ پر حکومت اور فوج مخالف پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ہے مگر ریاست پاکستان تمام وسائل ہونے کے باوجود بھی ان کو روکنے میں مشکل کیوں پیش آ رہی ہے؟

اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پاکستان کے وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ 'دہشتگرد اپنا پروپیگنڈا سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلاتے ہیں اور صرف حکومت یا ملک کا سائبر کرائم ونگ اسے نہیں روک سکتا۔'

انھوں نے اس معاملے کی پیچیدگی کے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ 'یہ تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پاکستان کے باہر سے آپریٹ کیے جا رہے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں، سائبر کرائم ونگ کے لیے یہ عملی طور پر ممکن نہیں کہ وہ ان تمام ممالک سے چلائے جانے والے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی شناخت اور روک تھام کر سکے۔'

انھوں نے کہا کہ 'جن ممالک سے یہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز چلائے جا رہے ہیں انھیں چاہیے کہ وہ جس طرح اپنے ملک میں ایسے پروپیگنڈے کو پھیلنے سے روکتے ہیں ویسے ہی اسے پاکستان میں بھی سوشل میڈیا پر پھیلنے سے روکیں۔'

وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ 'اسی وجہ سے ہمیں پھر پاکستان میں کچھ پلیٹ فارمز پر پابندی لگانی پڑتی ہے۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ لوگوں کی آزادی اظہار رائے کی آزادی سلب نہ ہو کیونکہ پلیٹ فارم بند کرنے سے لوگوں کے جائز حقوق بھی متاثر ہوتے ہیں۔'

تاہم مبصرین اس سے کچھ مختلف رائے رکھتے ہیں۔

نیوز ویب سائٹ خراسان ڈائری کے ایڈیٹر اور ٹی ٹی پی کی کارروائیوں پر نظر رکھنے والے صحافی افتخار فردوس نے بی بی سی سے اس بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ یقیناً عمر میڈیا جیسے پروپیگنڈا ٹول یا ذرائع کو روکنا مشکل ہے لیکن حکومت کو اس ضمن میں درپیش مشکلات کی دیگر کچھ اہم وجوہات بھی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ریاست پاکستان کو شدت پسند تنظیموں کی جانب سے پروپیگنڈے کو روکنے میں جو سب سے زیادہ مشکل پیش آ رہی ہے اس میں نئی ٹیکنالوجی اور اس سے منسلک پلیٹ فارم بھی ایک وجہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان کے ان اداروں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو نیکٹا جیسے ادارے جو اس پروپیگنڈے کو روکنے کا کام کر رہے ہیں وہ ابھی بھی ٹیکنالوجی اور پالیسی کے اعتبار سے ایسا لگتا ہے کہ سنہ 2000 کی دہائی میں کام کر رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ کاؤنٹر پروپیگنڈا کے حکومتی پلان میں کوئی جدت، کوئی حکمت عملی نظر نہیں آتی۔

افتخار فردوس اپنے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ٹیکنالوجی خریدنا ہی سوال نہیں ہے بلکہ اس کو استعمال کرنے کی صلاحیت بھی ہونی چاہیے جو کہ ریاستی اداروں میں آج کے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ دکھائی نہیں دیتی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ 'دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ ریاست کی کچھ حدود ہوتی ہیں جبکہ ان شدت پسند تنظیموں کے نہ تو کوئی اصول ہیں اور نہ ہی حدود۔۔۔ریاست کے لیے ایک پیچیدہ صورتحال کا آسان جواب دینا یقیناً مشکل ہوتا ہے۔ اگر ہم حالیہ تناظر میں دیکھیں تو ٹی ٹی پی نے اپنے پروپیگنڈے کے بیانیے میں ایک بڑی تبدیلی کی ہے اور پاکستان کے اندر موجود سیاسی تقسیم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے مقبول بیانیے کو اپنانے کی کوشش کی ہے اور اس طرح وہ عوام کو ریاست، حکومت پاکستان اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف اکسانے کی کوشش کر رہے ہیں۔'

افتخار فردوس کے مطابق 'اگر ہم خصوصاً ٹی ٹی پی کے عمر میڈیا کے رواں برس کے اوائل سے بیانیے کو دیکھیں تو انھوں نے روز مرہ سکیورٹی فورسز کے خلاف کارروائیوں اور حملوں کی ذمہ داری لینے کے بجائے سماجی معاملات، مسائل اور بین الاقوامی امور پر بیانات جاری کرنے شروع کیے ہیں اور مسلح شدت پسند کارروائیوں کے لیے اپنے دیگر حامی سوشل میڈیا اکاؤنٹس کا استعمال کروایا ہے۔ '

'حکومت کو ان تنظمیوں کے پروپیگنڈے کو ناکام بنانے کے لیے سٹرٹیجک کمیونیکیشن کے ایسے ماہر افراد چاہییں جو معاشرے میں موجود تقسیم کو بڑھانے کے لیے باریکی سے تیار کردہ بیانیے کی نہ صرف نفی کر سکیں بلکہ ان کے خلاف ایک مؤثر اور عملی بیانیے تشکیل دے سکیں۔ مگر بدقسمتی سے حکومت اب تک ایسے افراد کو استعمال میں لانے میں ناکام رہی ہیں۔ '

ٹی ٹی پی
Getty Images
حال ہی میں ٹی ٹی پی کی پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے خلاف شدت پسند کارروائیوں میں واضح اضافہ ہوا ہے

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی ایک اور مشکل ان کا ہر چیز یا معلومات تک رسائی کے ذرائع پر پابندی لگانے کا طرز عمل ہے۔

'آج کل کے سوشل میڈیا دور میں معلومات چھپ نہیں سکتی اور نہ ہی اس تک رسائی کو مکمل طور پر روکنا ممکن ہے، لہذا حکومت کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ صرف کسی بھی واقعے کی ہونے یا نہ ہونے کی خبر کو چھپانا یا روکنا اور ذرائع ابلاغ پر پابندی لگانا ہی اس کا کام نہیں بلکہ ایسے واقعات میں جلد از جلد ریاست کے بیانیے کو عوام تک پہنچانا ضروری ہے۔ '

افتخار فرودس کہتے ہیں کہ ریاست اس شدت پسندی خاص کر ٹی ٹی پی کے معاملے کو مذہبی رنگ دے کر کھیل رہی ہے مگر وہ یہ بھول رہی ہے کہ مذہبی گراؤنڈ طالبان کا ہے اور اگر آپ اس کے میدان پر کھیلے گے تو یقیناً آپ کے لیے مشکل ہو گی۔

اندورنی اختلافات

تجزیہ کاروں کے مطابق ٹی ٹی پی کے طاقتور پروپیگنڈا آپریشن کو حال ہی میں اندرونی تنازعات اور مبینہ لیکس کا سامنا رہا ہے، جس سے سکیورٹی خطرات میں اضافہ ہوا ہے۔

حال ہی میں ٹی ٹی پی کے کئی کمانڈروں کی ہلاکتوں کا تعلق تنظیم کی آن لائن موجودگی سے جوڑا گیا ہے۔

ٹی ٹی پی کے اندر پروپیگنڈا آپریشن اور سوشل میڈیا کو بغیر احتیاط یا بنا وی پی این کے استعمال کرنے کی بحث نے جنم لیا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اس سے ان کی لوکیشن اور ٹھکانوں کے ظاہر ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔

پاکستان کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے انٹیلی جنس کی بنیاد پر کی جانے والی کارروائیوں میں ٹی ٹی پی کے متعدد کمانڈروں کی ہلاکت کے بعد ٹی ٹی پی کے سربراہ نور ولی محسود کو مجبوراً تنظیم کے لیے انتباہی پیغامات جاری کرنے پڑے جن میں انھیں آن لائن سرگرمیوں کو محدود کرنے اور احتیاط سے استعمال کرنے کا کہا گیا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ٹی ٹی پی کے اندر دھڑا بندی اور عمر میڈیا کی طرز پر جماعت الاحرار سمیت دیگر گروہوں کے اپنے آزاد میڈیا ونگ استعمال کرنے کے اعلانات نے بھی اسے متاثر کیا ہے۔

اندورنی تقسیم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ٹی ٹی پی کے سربراہ نے 20 فروری کو ایک بیان جاری کیا تھا جس میں کالعدم تنظیم کی کارروائیوں میں کامیابی کے حصول کے لیے اتحاد اور اعتماد کی ضرورت پر زور دیا گیا۔

ایسے میں کیا عمر میڈیا کے پروپیگنڈے پر بھی منفی اثر پڑے گا؟

اس سوال کے جواب میں افتخار فردوس کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام شدت پسند تنظیموں کے مقابلے میں عمر میڈیا سب سے بڑا اور پرانا ہے۔ اس کے تقریباً 52 لاکھ سبسکرائبرز اور فالورز ہیں۔ اس اعتبار سے وہ کسی بھی شدت پسند تنظیم کے پروپیگنڈا میڈیا سے زیادہ فعال اور مؤثر ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ اگر نور ولی محسود کے نظریے کو دیکھا جائے تو وہ ٹی ٹی پی کو ایک منظم فوج کی طرح چلاتے ہیں اور ان کے بیان کا مقصد بھی یہ ہی تھا کہ عمر میڈیا سمیت دیگر اراکین کی جانب سے بھی جو بیان دیا جائے وہ ٹی ٹی پی کی شوریٰ سے منظور شدہ ہو۔

وہ کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی میں اس وقت تقریباً چھوٹے بڑے 72 گروہ شامل ہیں اور اس میں بڑا گروہ جماعت الحرار ہے اور وہ اب غازی میڈیا کے نام سے اپنا علیحدہ پروپیگنڈا میڈیا ونگ چلاتے ہیں اور ٹی ٹی پی ان کے متعدد بیانات اور اعلانات سے لاتعلقی کا اظہار کرتی ہے کیونکہ یہ کارروائیاں ان کے ایجنڈے میں فٹ نہیں ہوتیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ ٹی ٹی پی کے مخالف لشکر اسلام اور حافظ گل بہادر گروپ نے بھی اپنی کارروائیوں کے لیے علیحدہ سے اپنے پروپیگنڈا چینلز بنائے ہیں۔

’ٹی ٹی پی چاہتی ہیں کہ کوئی بھی ذیلی گروہ کسی بھی کارروائی کی تشہیر آزادانہ طور پر اپنے کسی سوشل میڈیا یا آن لائن میڈیا پلیٹ فارم سے نہ کرے بلکہ تنظیمی ڈھانچے کے تحت مرکزی شوریٰ سے منظوری کے بعد عمر میڈیا سے ہی کیا جائے اس لیے ان کے میڈیا پروپیگنڈا کے حوالے سے یقیناً اندرونی اختلافات پائے جاتے ہیں۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.