امریکی پروفیسر، فلسطینی اہلیہ اور حماس کی حمایت کا الزام: امریکہ میں زیرِ حراست طالب علم بدر خان سوری کون ہیں؟

ایک امریکی عدالت نے زیر حراست انڈین نژاد ریسرچ سکالر بدر خان سوری کی حوالگی پر اگلے حکم تک پابندی لگا دی ہے۔

ایک امریکی عدالت نے زیر حراست انڈین نژاد ریسرچ سکالر بدر خان سوری کی حوالگی پر اگلے حکم تک پابندی لگا دی ہے۔

بدھ کے روز ورجینیا کے سکندریہ ڈسٹرکٹ جج پیٹریشیا جائلز نے بدر خان سوری کو انڈیا واپس بھیجنے کی ٹرمپ انتظامیہ کی کوششوں کو روک دیا ہے۔

جج نے یہ حکم بدر خان سوری کی اہلیہ مفیز یوسف صالح کی درخواست پر دیا۔

17 مارچ کو امریکی محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی نے بدر خان سوری کو فلسطینی تنظیم حماس سے روابط رکھنے کے الزام میں حراست میں لے لیا تھا۔

بدر خان سوری واشنگٹن ڈی سی کی جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں ریسرچ سکالر ہیں۔ ان کی اہلیہ مفیز صالح فلسطینی نژاد امریکی صحافی ہیں۔ مفیز بھی کئی سالوں سے انڈیا میں مقیم ہیں۔

انڈین وزارت خارجہ نے اس معاملے پر کہا ہے کہ اسے اس کیس کے بارے میں صرف میڈیا رپورٹس سے ہی معلوم ہوا ہے اور نہ تو بدر خان اور نہ ہی ان کے اہلِخانہ نے مدد کے لیے رابطہ کیا ہے۔

جارج ٹاؤن یونیورسٹی
Getty Images
گذشتہ سال غزہ پر اسرائیلی حملے کے خلاف جارج ٹاؤن یونیورسٹی سمیت کئی یونیورسٹیوں میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے تھے

بدر خان کی اپنی بیوی مفیز سے ملاقات کیسے ہوئی؟

بدر خان نے 2011 میں غزہ کے انسانی ہمدردی کے دورے کے دوران اپنی اہلیہ مفیز صالح سے ملاقات کی تھی۔

اس سفر میں جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے متعدد طلبہ سمیت انڈیا کے بہت سے باشندوں نے حصہ لیا تھا اور وہ کئی ممالک سے ہوتے ہوئے غزہ پہنچے تھے۔

اس دورے کا مقصد فلسطینی مسائل کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا تھا۔ اس وقت انڈین اداکارہ سوارا بھاسکر بھی اس کا حصہ تھیں۔ اس کے علاوہ انڈیا کے کئی دوسرے کارکنوں نے بھی اس میں شرکت کی۔

اس سفر سے واپسی پر بدر اپنے والد کے ساتھ غزہ واپس چلے گئے اور وہاں مفیز سے شادی کی۔

شادی کے بعد بدر خان سوری اور صالح سنہ 2013 سے انڈیا میں رہ رہے تھے اور تقریباً ڈیڑھ سے دو سال قبل امریکہ چلے گئے تھے۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی
Getty Images
بدر خان سوری نے دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کے نیلسن منڈیلا سینٹر فار پیس اینڈ کنفلیکٹ ریزولوشن سے تعلیم حاصل کی (نمائندہ تصویر)

کم گو سنجیدہ طالب علم

بدر خان سوری نے نیلسن منڈیلا سینٹر فار پیس اینڈ کنفلیکٹ ریزولوشن سینٹر، جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی، دہلی سے ایم اے کیا ہے اور اسی انسٹیٹیوٹ سے پی ایچ ڈی بھی کی ہے۔

انھوں نے ’ٹرانزیشن ڈیموکریسی، تقسیم شدہ معاشرے اور امن کے امکانات: افغانستان اور عراق میں ریاست کی تعمیر کا ایک مطالعہ‘ کے عنوان سے ایک مقالہ لکھا تھا۔

اپنے مقالے میں انھوں نے نسلی طور پر منقسم اور تنازعات کا شکار ملک میں جمہوریت کے قیام کے چیلنجز کا مطالعہ کیا اور دلیل دی کہ اس طرح کی کوششیں پہلے سے موجود سماجی تقسیم کی وجہ سے کمزور ہوتی ہیں۔

بدر خان سوری کا خاندان اصل میں سہارنپور، اتر پردیش سے ہے، لیکن فی الحال دہلی میں رہتا ہے۔ ان کے والد محکمۂ خوراک میں انسپیکٹر تھے اور اب ریٹائر ہو چکے ہیں۔

بدر کے ہم جماعت عامر خان، جنھوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں ان کے ساتھ تعلیم حاصل کی، کہتے ہیں کہ ’وہ ایک کم گو اور سنجیدہ طالب علم ہے۔ وہ سڑکوں پر ہونے والے مظاہروں میں حصہ نہیں لیتا، لیکن فلسطینی مسائل پر اس کے اپنے خیالات ہیں۔‘

عامر کے مطابق بدر خان بہت کم بولتے ہیں لیکن جب وہ بولتے ہیں تو بہت سنجیدگی سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔

بدر خان سوری اس وقت واشنگٹن میں جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے سکول آف فارن سروس میں الولید بن طلال سینٹر فار مسلم کرسچن انڈرسٹینڈنگ میں پوسٹ ڈاکٹریٹ فیلو ہیں۔

بدر خان سوری سٹوڈنٹ ویزا پر امریکہ میں داخل ہوئے تھے اور جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں پڑھاتے تھے۔ ان کی تحقیق افغانستان اور عراق میں قیام امن کی کوششوں پر مرکوز ہے۔

 جارج ٹاؤن یونیورسٹی
Getty Images
بدر خان جارج ٹاؤن یونیورسٹی کے طالب علم ہیں اور یہاں بطور استاد بھی کام کر رہے ہیں

انھیں کیوں حراست میں لیا گیا؟

یو ایس ڈپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سکیورٹی نے پیر 17 مارچ کی رات کو ورجینیا کے آرلنگٹن میں واقع ان کے گھر کے باہر سے انھیں اپنی تحویل میں لے لیا۔

ان کی بیوی ان کے ساتھ تھیں جب انھیں ہوم لینڈ سکیورٹی اور امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ کے نقاب پوش ایجنٹوں نے حراست میں لیا تھا۔

ٹرمپ انتظامیہ نے ان پر سوشل میڈیا کے ذریعے ’حماس کا پروپیگنڈہ‘ پھیلانے اور ’شناخت شدہ یا مشتبہ دہشت گردوں‘ سے رابطے کا الزام لگایا ہے۔

فاکس نیوز کو ایک بیان میں امریکی حکام نے کہا کہ سوری کے حماس سے روابط تھے اور وہ سوشل میڈیا پر مواد شیئر کر رہے تھے۔

میڈیا کو دیے گئے بیان میں امریکی حکام نے کوئی ثبوت فراہم نہیں کیے تاہم یہ ضرور کہا کہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے حکم دیا تھا کہ بدر خان سوری کو امریکا سے واپس بھیج دیا جائے۔ سوری پر یہودی مخالف جذبات کو فروغ دینے کا بھی الزام ہے۔

بدر خان سوری کو اس وقت لوزیانا کے ایک حراستی مرکز میں رکھا گیا ہے۔ یہ اطلاع بدر خان سوری کے وکیل نے دی ہے۔

جارج ٹاؤن یونیورسٹی
Getty Images
جارج ٹاؤن یونیورسٹی میں طلباء نے گذشتہ سال غزہ پر اسرائیل کے فضائی حملے کے خلاف احتجاج کیا۔ (فائل فوٹو)

بدر کے وکیل نے کیا کہا؟

حراست میں لیے جانے کے بعد بدر خان کے وکیل حسن احمد نے ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ بدر خان کے خلاف کارروائی فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت کرنے والوں کو نشانہ بنانے کی کارروائی کا حصہ ہے۔

ان کے وکیل نے میڈیا کو اپنے بیان میں کہا کہ بدر خان کے خلاف کارروائی کا تعلق ان کی اہلیہ کے فلسطینی ہونے اور ان کی فلسطین نواز سرگرمیوں سے ہے۔

جمعرات 20 مارچ کو ڈسٹرکٹ جج پیٹریشیا جائلز نے اپنے حکم میں کہا کہ جب تک عدالت حکم نہ دے بدر خان کی حوالگی نہیں کی جا سکتی۔

اس حکم کے ساتھ ہی ان کی فوری حوالگی روک دی گئی ہے اور اس کے کیس کو قانونی طور پر امریکہ میں چلانے کا راستہ صاف ہو گیا ہے۔

بدر خان سوری کے وکیل نے ان کی جانب سے دائر درخواست میں کہا ہے کہ ان کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں ہے اور ان کے خلاف کوئی فرد جرم عائد نہیں کی گئی ہے۔

تاہم ڈی ایچ ایس اپنے اس دعوے پر قائم ہے کہ بدر خان کے حماس کے ایک اعلیٰ مشیر سے روابط ہیں۔ تاہم اس مشیر کی شناخت جاری نہیں کی گئی ہے۔

ساتھ ہی بدر خان کی اہلیہ نے حلف نامے میں کہا ہے کہ وہ صرف دو بار غزہ گئے ہیں۔ پہلی بار 2011 میں انسانی ہمدردی کے سفر کے دوران اور دوسری بار ان کے ساتھ شادی کے لیے۔

غزہ
Getty Images
غزہ میں گزشتہ ڈیڑھ سال میں اسرائیلی حملوں کی وجہ سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے

مفیز صالح نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ کچھ بنیاد پرست ویب سائٹس نے ان کے خلاف مہم چلائی جس کی وجہ سے انھیں نشانہ بنایا گیا۔

بدر خان سوری کے اہلِخانہ نے ابھی تک اس واقعے پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے لواحقین نے کہا کہ انھیں میڈیا سے بات نہ کرنے کا قانونی مشورہ دیا گیا ہے۔

دریں اثنا بدر خان کے ہم جماعت عامر خان نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے خاندان کے پاس بھی اس واقعے کے بعد زیادہ معلومات نہیں ہیں۔

عامر خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بدر کے خاندان کو ابھی تک کچھ سمجھ نہیں آ رہا ہے اور ان کے پاس زیادہ معلومات نہیں ہیں۔ ان کی اہلیہ مفیزبھی زیادہ نہیں جانتی ہیں۔ ان کے وکیل نے کل ان سے بات کی اور وہ اس وقت لوزیانا کے ایک حراستی مرکز میں ہیں۔‘

ساتھ ہی ان کی اہلیہ مفیز صالح نے اپنے عوامی بیان میں کہا ہے کہ ان کی حراست سے ان کی خاندانی زندگی متاثر ہوئی ہے۔ صالح نے سوری کی فوری رہائی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

ٹرمپ
Getty Images
ٹرمپ انتظامیہ نے حالیہ دنوں میں فلسطین کی حمایت کرنے والوں کے خلاف کارروائی تیز کر دی ہے

ٹرمپ انتظامیہ کا فلسطینی حقوق کے کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن

ورجینیا سے ڈیموکریٹک پارٹی کے پارلیمانی نمائندے ڈان بیئر نے سوری کی حراست کو ان کے آئینی حقوق کی صریح خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

امریکن سول لبرٹیز یونین نے بھی سوری کے خلاف کی گئی کارروائی کو غیر آئینی قرار دیا ہے۔

سوری سے قبل فلسطینی محقق اور کولمبیا یونیورسٹی کے طالب علم محمود خلیل کو بھی حماس کی حامی سرگرمیوں کے الزام میں حراست میں لیا گیا تھا۔

خلیل کے پاس امریکی گرین کارڈ ہے، جو اسے امریکہ میں رہنے کا قانونی حق دیتا ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ نے حالیہ دنوں میں فلسطینی کاز کی حمایت کرنے والوں کے خلاف کارروائی تیز کر دی ہے۔

انڈین وزارت خارجہ نے کیا کہا؟

وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال
ANI
وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا ہے کہ بدر خان سوری سے کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے

دریں اثنا، بدر خان سوری کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انڈیا کی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا کہ سوری یا ان کے خاندان والوں نے مدد کے لیے رابطہ نہیں کیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ وزارت خارجہ کو میڈیا رپورٹس سے ہی پتہ چلا کہ اس شخص کو حراست میں لیا گیا ہے۔

جیسوال نے کہا ، 'نہ تو امریکی انتظامیہ اور نہ ہی متعلقہ شخص کے خاندان نے ہم سے رابطہ کیا ہے۔'

ایک اور بیان میں انڈین وزارت خارجہ نے کہا تھا کہ انڈیا سے باہر رہنے والے انڈینز کو مقامی قوانین پر عمل کرنا چاہیے۔

گذشتہ ہفتے کولمبیا یونیورسٹی میں زیر تعلیم انڈین ریسرچ سٹوڈنٹ رجنی سری نواسن نے خود ہی امریکہ چھوڑ دیا۔ رجنی پر فلسطینی گروپوں اور مسائل کی حمایت کا بھی الزام تھا۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان اکتوبر 2023 سے غزہ میں تنازع جاری ہے۔ حماس اور اسرائیل کے درمیان عارضی جنگ بندی ہوئی۔

جس کے بعد رواں ہفتے اسرائیلی حملوں میں چار سو سے زائد فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں اور جنگ بندی معاہدہ آگے نہیں بڑھ سکا ہے۔

حماس نے 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیلی علاقوں پر حملہ کیا۔ اس حملے میں غیر ملکی شہریوں سمیت تقریباً 1200 افراد مارے گئے تھے اور حماس نے 251 افراد کو یرغمال بنایا تھا۔

اس کے بعد غزہ میں شروع ہونے والی اسرائیلی کارروائیوں میں اب تک 50 ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.