ترکی میں مظاہرے اور گرفتاریاں: کیا دو دہائیوں سے اقتدار میں رہنے والے اردوغان چھ روز کے مظاہروں سے ’گھبرا‘ گئے ہیں؟

استنبول کی فضا میں آنسو گیس کی بو کے علاوہ ایک اور چیز کا اشارہ بھی مل رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ طویل عرصے سے ترکی میں اقتدار پر براجمان رہنے والے رجب طیب اردوغان اب ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے گھبرا گئے ہیں۔
ترکی
Getty Images
استنبول کے میئر اکرم امام وغلو کی گرفتاری کے خلاف چھ روز کے احتجاج کے دوران 1،100 سے زیادہ افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے

ترک صدر رجب طیب اردوغان کا کہنا ہے کہ اپوزیشن جماعت کے گرفتار میئر کی حمایت میں ہونے والا احتجاج پرتشدد تحریک میں بدل چکا ہے۔

انقرہ میں اپنے ٹی وی خطاب میں اردوغان نے کہا ہے کہ اپوزیشن کو جوابدہ ٹھہرایا جائے گا۔

اپنے ٹیلی ویژن خطاب میں اردوغان نے اپوزیشن پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ شہریوں کو احتجاج پر اکسا رہی ہے۔ انھوں نے اپنے پیغام میں اپوزیشن جماعت سے کہا ہے کہ وہ یہ سب بند کریں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز نے ترک صدر رجب طیب اردوغان کے حوالے سے کہا ہے کہ ترکی کی مرکزی اپوزیشن جماعت املاک کو پہنچنے والے نقصان اور گذشتہ چھ روز سے ملک میں ہونے والے شدید مظاہروں میں پولیس افسران کو پہنچنے والے ہر 'نقصان' کی ذمہ دار ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کا 'شو' بالآخر ختم ہو جائے گا اور وہ ملک کے ساتھ کی جانے والی 'شیطانی' پر شرمندگی محسوس کریں گے۔

استنبول کے میئر اکرم امام وغلو کی گرفتاری کے خلاف چھ روز کے احتجاج کے دوران 1،100 سے زیادہ افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔

یاد رہے کہ ترک صدر رجب طیب اردوغان کے سیاسی حریف اور استنبول کے میئر امام وغلو کو بدھ کے روز حراست میں لیا گیا تھا۔

استنبول کی فضا میں آنسو گیس کی بو کے علاوہ ایک اور چیز کا اشارہ بھی مل رہا ہے اور وہ یہ ہے کہ طویل عرصے سے ترکی میں اقتدار پر براجمان رہنے والے رجب طیب اردوغان اب ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے گھبرا گئے ہیں۔

ان کے ایک سیاسی حریف کو جیل میں ڈال دیا گیا ہے۔ یہاں تک بات جانی پہچانی ہے۔

لیکن استنبول کے مقبول میئر اکرم امام وغلو کی گرفتاری اس جانب اشارہ ہے کہ صدر اردوغان پریشانی میں حد سے آگے بڑھ گئے ہیں۔

امام وغلو کی اپوزیشن جماعت سی ایچ پی سڑکوں پر بڑے اجتماع منعقد کرنے میں کامیاب رہی ہے۔

اکرم امام وغلو ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ وہ تب بھی تیار تھے جب انھیں گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ ترکی میں آمرانہ رجحان کی جانب بڑھتے اردوغان کے مرکزی سیاسی حریف ہیں۔

امام وغلو، اردوعان کو 2028 کے صدارتی الیکشن میں شکست دے سکتے ہیں، بشرط یہ کہ انھیں اس میں حصہ لینے کی آزادی ہو۔

مگر امام وغلو کی عوامی پذیرائی کے باوجود یہ معاملہ استنبول کے ایک میئر کے مستقبل تک محدود نہیں ہے۔

صدر اردوغان کے دور میں جمہوریت اور آزادی پر مسلسل قدغنیں لگتی رہی ہیں۔ کئی لوگوں نے حالیہ احتجاج کے بعد اس کو ایک موقع جان کر یہ کوشش شروع کر دی ہے کہ ملک کو آمرانہ طرز حکومت کی جانب جانے سے روکا جائے۔

یہ لوگ ہر رات باہر نکلتے ہیں۔ وہ رائٹ پولیس، آنسو گیس اور ربڑ کی گولیوں کا مقابلہ کرتے ہیں۔ عوامی اجتماعات پر پابندی ہے، سڑکیں بند ہیں اور گرفتاری کا خدشہ بھی موجود ہے۔

گذشتہ پانچ دنوں میں ایک ہزار سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں گرفتار ہوجانا کتنا آسان ہے۔

ترکی خود کو جمہوری ملک کہتا ہے اور یہ بظاہر ہے بھی۔ یہاں الیکشن ہوتے ہیں اور ووٹر ٹرن آؤٹ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ ترک عوام فخر سے حق رائے دہی استعمال کرتے ہیں۔ پولنگ کے روز انتخابی عمل شفاف ہوتا ہے۔

اردوغان
Getty Images
صدر اردوغان کے دور میں جمہوریت اور آزادی پر مسلسل قدغنیں لگتی رہی ہیں۔ کئی لوگوں نے حالیہ احتجاج کے بعد اس کو ایک موقع جان کر یہ کوشش شروع کر دی ہے کہ ملک کو آمرانہ طرز حکومت کی جانب جانے سے روکا جائے

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پولنگ سٹیشنز سے دور کیا چل رہا ہوتا ہے۔

اپوزیشن سیاستدانوں کو جیلوں میں ڈالا جاتا ہے۔ ناقدین کو دباؤ کا سامنا ہوتا ہے۔ مظاہرین کو گرفتار کیا جاتا ہے۔ میڈیا کو بڑے پیمانے پر حکومت کنٹرول کرتی ہے۔ مثلاً صدر کی تضحیک پر آپ کو جیل جانا پڑ سکتا ہے۔ جب تک پولنگ کا دن آتا ہے، ٹی وی چینلوں پر حکومت کی حامی کوریج کا سونامی آجاتا ہے اور اپوزیشن کو مشکلات درپیش ہوتی ہیں۔

امام وغلو ایسے سیاستدان ہیں جو اس سب کا مقابلہ کر کے ووٹر تک پہنچ سکتے ہیں۔ وہ میڈیا پر بات کرنا جانتے ہیں اور انھیں تین بار استنبول کا میئر منتخب کیا جا چکا ہے۔ ان پر بدعنوانی کا الزام ہے اور یہ بھی کہ انھوں نے رشوت لی اور ایک جرائم پیشہ گروہ چلا رہے تھے۔

اگر الزامات ثابت ہوئے تو وہ صدارتی دوڑ سے باہر ہو جائیں گے۔

ترکی کا اصرار ہے کہ عدالتیں آزاد ہیں اور قانون کا راستہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تاہم انسانی حقوق کے کارکن اور آزاد مبصرین اس سے متفق نہیں۔

ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ میئر کے ساتھ ساتھ 100 اہلکاروں اور سیاستدانوں کی گرفتاری ’سیاسی سرگرمیوں کے خلاف انتقامی کارروائی ہے۔‘ ماضی میں تنظیم نے ترکی میں عدالتوں کی جانب سے ’سیاسی فیصلوں‘ پر تنقید کی ہے۔

ایکس پر ایک بیان میں امام وغلو نے کہا کہ ان کے خلاف کیس جمہوریت پر سیاہ دھبہ ہے۔ ’میں کھڑے ہو کر اس کا سامنا کروں گا، میں نہیں جھکوں گا۔‘

71 سالہ اردوغان شاید اسی بات سے خوفزدہ ہیں۔ ان کا 53 سالہ قدرے جوان حریف ترک ووٹروں کو مائل کرتا ہے اور طویل لڑائی کے لیے تیار ہے۔

imamoglu
Getty Images
ایکس پر ایک بیان میں امام وغلو نے کہا کہ ان کے خلاف کیس جمہوریت پر سیاہ دھبہ ہے۔ ’میں کھڑے ہو کر اس کا سامنا کروں گا، میں نہیں جھکوں گا‘

تو اب کیا ہو گا؟

یہ مظاہرے بڑھ سکتے ہیں اور پھیل بھی سکتے ہیں۔ یہ اردوغان کے لیے سنگین چیلنج ہو گا۔ ان کی مسلح سکیورٹی فورسز کو مظاہرین پر کریک ڈاؤن کرنے میں اور کتنا وقت لگےگا؟ ان مظاہروں میں کسی شخص کی زندگی بھی جا سکتی ہے؟ یہ ہر آمرانہ حکومتوں کا ایک بریکنگ پوائنٹ ہوتا ہے اور وہ ایک اکلوتی گولی کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے۔

حذبِ اختلاف دباؤ بڑھانے اور مظاہرے کرنے پر مصر ہے لیکن دو دہائیوں تک برسرِ اقتدار رہنے کے بعد اردوغان کے اب بھی کئی وفادار حمایتی ہیں۔ ان کا طاقت کے تمام ایوانوں پر کنٹرول ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اقتدار میں رہیں۔ انھیں یہی امید ہو گی کہ مظاہرے وقت کے ساتھ جوش و ولولہ کھو دیں گے۔

صدر اور ان کی اے کے جماعت کو یہ امید ہے کہ مظاہرین وقت کے ساتھ مایوس ہو جائیں گے اور دوبارہ انتہا درجے کی مہنگائی (فروری میں 39 فیصد) اورترک کرنسی لیرا کی گرتی قدر کے بارے میں فکر کریں نہ کہ رائے دینے کی آزادی اور جمہوریت کے بارے میں۔

آنے والے دن اور ہفتے دونوں اطراف کی طاقت کا امتحان ہوں لیکن اگر ماضی میں آمرانہ ممالک میں سڑکوں پر ہونے والے احتجاجوں سے کچھ سبق سیکھا جا سکتا ہے تو وہ یہی ہے کہ فوری طور پر کسی بڑی پیش رفت کا زیادہ امکان نہیں ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.