اگرچہ تھائی لینڈ کے دارالحکومت بنکاک میں سورج غروب ہو چکا ہے مگر سینکڑوں ریسکیو ورکر زمین بوس ہونے والی 30 منزلہ عمارت کے ملبے میں پھنسے افراد کی تلاش میں سر دھر کی بازی لگا رہے ہیں۔ یہ ریسکیو ورکر عمارت کے گرنے کے بعد ملبے میں پھنسے اپنے درجنوں ساتھیوں تک پہنچنے کی کوششیں کر رہے ہیں
ریسکیو ورکر عمارت کے گرنے کے بعد ملبے میں پھنسے اپنے درجنوں ساتھیوں تک پہنچنے کی کوششیں کر رہے ہیںاگرچہ تھائی لینڈ کے دارالحکومت بنکاک میں سورج غروب ہو چکا ہے مگر سینکڑوں ریسکیو ورکر زمین بوس ہونے والی 30 منزلہ عمارت کے ملبے میں پھنسے افراد کی تلاش میں سر دھر کی بازی لگا رہے ہیں۔
یہ ریسکیو ورکر عمارت کے گرنے کے بعد ملبے میں پھنسے اپنے درجنوں ساتھیوں تک پہنچنے کی کوششیں کر رہے ہیں
اس منظر سے تھوڑی دور ایک پُل پر رپورٹروں کا ایک گروپ کھڑ ہے جس میں، میں بھی شامل ہوں۔۔ ہم سب حیرت سے کنکریٹ کے تین منزلہ ڈھیر کو دیکھ رہے ہیں۔
موٹی تاریں اور دھات باہر کی جانب نکلی ہوئی ہیں۔
ریسکیو کے مزید پیشہ ور افراد اور فوجی ٹیمیں یہاں پہنچی ہیں اور فلڈ لائٹس نصب کی جا رہی ہیں۔ زندہ بچ جانے والوں کو تلاش کیا جا سکے گا۔۔۔ اس کا امکان کم ہی ہے۔
گذشتہ روز میانمار کے وسطی حصے میں 7.7 شدت کا زلزلہ آیا جس کے فوراً بعد 6.4 شدت کا ایک آفٹرشاک آیا، جس سے عمارتیں گر گئیں اور سڑکیں ٹوٹ گئیں۔
میانمار کے فوجی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ کل آنے والے طاقتور زلزلے میں ملک بھر میں مجموعی طور پر 1,002 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ حکام کے مطابق دو ہزار 376 افراد زخمی جبکہ کئی افراد تاحال لاپتہ ہیں۔
سرحد پار تھائی لینڈ میں بھی جھٹکوں اور تباہی کو محسوس کیا گیا۔ یہاں رہنے والوں کو ایسی آفات کا زیادہ تجربہ نہیں اور زیادہ تر افراد کو سمجھ نہیں آ سکی کہ اس قدرتی آفت کا کیسے سامنا کیا جائے۔
جس وقت زلزلہ آیا نوکل کھیموتھا پانچویں منزل پر کام کر رہے تھےمیں اپنے گھر پر ہی تھا جب سب کچھ ہلنا شروع ہوا اور یہ اس سے مختلف تھا جو میں نے اس سے قبل آنے والے زلزے کے دوران محسوس کیا تھا۔
منہدم ہونے والی عمارت کا تعلق نیشنل آڈٹ آفس سے ہے اور وہ دو ارب تھائی بھات یا 59 ملین امریکی ڈالر سے زیادہ کی لاگت میں تین سال سے زیر تعمیر تھی لیکن اب وہ مبلے کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکی ہے۔
چاروں طرف سفید خیمے لگائے گئے ہیں جبکہ چمکدار پیلے رنگ کے ہارڈ ہیٹس میں ملبوس ریسکیو ورکز کی ٹیم منہدم ہونے والی فلک بوس عمارت کے نیچے لوگوں کے نکالنے کے کام میں لگی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ابھی بھی 81 افراد کے ملبے میں دبے ہونے کا خدشہ ہے۔
تھائی لینڈ کے وزیر دفاع فومتھم ویچاچائی نے صحافیوں کو بتایا کہ تین افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے۔ اس سے میں نے دو لاشوں کو خیموں میں لے جاتے دیکھا تھا۔ ان دونوں کو کپڑے سے ڈھانپا گیا تھا۔
عمارت کے ساتھ والی سڑک فائر انجنوں، ایمبولینس اور دیگر امدادی گاڑیوں سے بھری ہوئی ہے۔ متجسس شہری پل پر ہمارے ساتھ بھیڑ میں شامل ہیں اور یہ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔
تھوڑی دیر بعد وہاں بھاری مشینیں لائی گئیں جن میں ایک بڑی کرین شامل ہے۔ امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ لاپتہ افراد کی تلاش شروع کرنے سے پہلے انھیں ملبہ ہٹانے کی ضرورت ہے۔
ادیسورن نے ابھی تک اپنے گھر والوں سے بات نہیں کی ہے کیونکہ اس افراتفری میں ان کا فون کہیں کھو گیا ہے۔ میں عمارت کے گرنے کے ایک گھنٹہ سے بھی کم وقت بعد وہاں پہنچا اور تعمیراتی کارکنوں کو دھول مٹی میں ڈھکا پایا۔۔۔ میں حیران تھا کہ وہ کیسے بچ گئے ہیں۔
ادیسورن کامپھاسورن نے بتایا کہ وہ چھٹی منزل سے سامان نیچے لا رہے تھے جب انھیں اچانک زلزلہ محسوس ہوا۔ 18 سالہ نوجوان نے اوپر سیڑھی کی طرف دیکھا اور انھیں ایک کرین ہلتا ہوا نظر آيا۔
انھوں نے مجھے بتایا: ’مجھے معلوم تھا کہ کچھ بہت برا ہونے والا ہے۔ میں بھاگا۔ عمارت کو گرنے میں ایک منٹ لگا ہوگا۔ اچانک ہر طرف دھواں چھا گیا اور سب کچھ تاریک ہو گیا۔ میں سانس نہیں لے پا رہا تھا۔ میرے پاس ماسک نہیں تھا۔‘
ادیسورن نے ابھی تک اپنے گھر والوں سے بات نہیں کی ہے کیونکہ اس افراتفری میں ان کا فون کہیں کھو گیا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ انھیں اس سے قبل اپنی زندگی میں کبھی ایسا تجربہ نہیں ہوا تھا۔
اس نوجوان نے سوچا کہ وہ مرنے والا ہے۔
یہاں بچ جانے والے تعمیراتی کارکنان نے بتایا کہ اس سائٹ پر کام کرنے والے تھائی اور برمی شہری ہیں۔
30 سالہ نُکول کھیموتھا پانچویں منزل پر کام کر رہے تھے جب انھیں جھٹکے محسوس ہوئے۔ انھوں نے دیکھا کہ تمام فلور دھنس رہے ہیں، ان میں سوراخ بن رہے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ان کا ایک ساتھی باتھ روم استعمال کرنے کے لیے دسویں منزل پر گیا تھا اور وہ ابھی تک اس کی کوئی خبر ملنے کے منتظر ہیں۔
انھوں نے بتایا: ’ہم سب صرف ’بھاگو، بھاگو‘ چیخ رہے تھے اور ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر بھاگنے کو کہہ رہے تھے۔‘
جب میں نے ان سے بات کی تو وہ وہاں بیٹھ کر سگریٹ پی کر پرسکون ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہ سب بہت افسردہ لگ رہے تھے۔ زندہ بچ جانے والوں میں سے کسی کو بھی طبی امداد نہیں ملی کیونکہ تمام تر توجہ ان لوگوں پر مرکوز ہے جو ابھی بھی پھنسے ہوئے ہیں۔
ڈرلنگ کی آواز تیز ہوتی جارہی ہے اور امدادی کارکنوں کے سامنے ایک لمبی انتظار سے بھری رات ہے۔