اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کی امر بالمعروف پولیس نے ’ہیئرسٹائل‘ بنانے پر متعدد شہریوں اور حجاموں کو حراست میں لیا ہے جبکہ نماز کی ادائیگی میں کوتاہی پر بھی گرفتاریاں کی جا رہی ہیں۔خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق طالبان انتظامیہ نے شہریوں کو ’اچھائی کی ترغیب اور برائیوں سے روکنے‘ کے قانون کا نفاذ چھ ماہ قبل کیا تھا۔افغانستان میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی وزارت نے گزشتہ سال اگست میں شہریوں کے لیے روزمرہ زندگی گزارنے کے اصول وضع کر کے شائع کیے تھے جن میں پبلک ٹرانسپورٹ، میوزک، شیونگ، خوشی کی تقریبات منانے کا طریقہ کار بتایا گیا تھا۔وزارت نے خواتین کی عوامی مقامات پر آواز سنائی دینے کے خلاف ہدایات جاری کی تھیں جبکہ پبلک میں خواتین کے چہرے کے پردے پر زور دیا گیا تھا۔ان قوانین کے نفاذ پر اقوام متحدہ کے ایک اعلیٰ اہلکار نے خبردار کیا تھا کہ خواتین اور لڑکیوں پر موجودہ ملازمت، تعلیم اور لباس کے ضابطوں کی پابندیوں میں اضافہ کرکے طالبان نے ملک کے مستقبل کے لیے ایک ’پریشان کن نقطہ نظر‘ فراہم کیا ہے۔ طالبان حکام نے اخلاقی قوانین کے بارے میں اقوام متحدہ کے تحفظات کو مسترد کر دیا تھا۔جمعرات کو جاری کی گئی رپورٹ میں افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن نے کہا ہے کہ قوانین کے نفاذ کے پہلے 6 مہینوں میں اس کے تحت کی جانے والی نصف سے زیادہ گرفتاریاں ایسے شہریوں کی کی گئیں جو یا تو داڑھی کی لمبائی یا بالوں کی تراش قواعد کے مطابق نہیں کر رہے تھے۔ اور ایسے حجام بھی گرفتار کیے گئے جو داڑھی اور بال کاٹتے ہوئے قواعد کو ملحوظ نہیں رکھتے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امر بالمعروف وزارت کے ماتحت پولیس اپنی من مانی کرتی ہے اور شہریوں کی گرفتاری کرتے وقت قانون اور اس پر طریقہ کار کے مطابق عمل نہیں کیا جاتا۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ رمضان کے مہینے کے دوران فرض اجتماعی نمازوں میں مردوں کی حاضری پر کڑی نظر رکھی گئی، جس کے نتیجے میں بعض اوقات ایسے شہریوں کو حراست میں لیا جاتا جو مسجد میں موجود نہیں ہوتے تھے۔اقوام متحدہ کے مشن نے کہا ہے کہ افغانستان میں حکومتی اقدامات نے خواتین اور مردوں کو یکساں متاثر کیا ہے، خاص طور پر چھوٹے کاروبار جیسے کہ نجی تعلیمی مراکز، حجام اور ہیئر ڈریسرز، درزی، شادی بیاہ کے کیٹررز اور ریستوران۔ طالبان انتظامیہ کے اقدامات کی وجہ سے آمدنی اور روزگار کے مواقع میں کمی ہوئی جبکہ چند شعبوں میں مکمل نقصان ہوا۔
طالبان نے شہریوں کو ’اچھائی کی ترغیب اور برائیوں سے روکنے‘ کے قانون کا نفاذ چھ ماہ قبل کیا تھا۔ فائل فوٹو: اے پی
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قوانین کے نفاذ کے بالواسطہ اور بالواسطہ سماجی و اقتصادی اثرات افغانستان کی سنگین معاشی صورتحال کو مزید پیچیدہ کر سکتے ہیں۔ ورلڈ بینک کی ایک تحقیق میں یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ حکام کی جانب سے خواتین پر تعلیم اور کام پر پابندی سے ملک کو سالانہ 1.4 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہو سکتا ہے۔
طالبان کے رہنما ہیبت اللہ اخونزادہ نے اسلامی قانون کی اولین حیثیت اور افغان معاشرے اور اس کے لوگوں کی اصلاح میں امر بالمعروف کی وزارت کے کردار پر زور دیا ہے۔رمضان المبارک کے اختتام پر عیدالفطر کے تہوار سے قبل جاری کردہ ایک پیغام میں اخونزادہ نے کہا تھا کہ یہ بہت ضروری ہے کہ ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیا جائے جو بدعنوانی سے پاک ہو اور آنے والی نسلوں کو گمراہ کن عقائد سے بچایا جائے۔رپورٹ کے مطابق 3,300 سے زیادہ پولیس اہلکاروں کو کام سونپا گیا ہے کہ وہ لوگوں کو قانون کے بارے میں آگاہ کریں اور اس کا نفاذ یقینی بنائیں۔اقوام متحدہ کی اس رپورٹ پر تبصرہ کرنے کے لیے افغانستان کی وزارت امر بالمعروف سے کوئی بھی فوری طور پر دستیاب نہیں تھا۔