میگن ڈکسن جب 13 برس کی تھیں تو ان کی طبعیت ناساز رہنا شروع ہوئی۔ مگر جب وہ 16 برس کی ہوئیں تو ان کی صحت اتنی بگڑ گئی کہ انھیں ہسپتال لے جانا پڑا کیونکہ وہ بولنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہو گئی تھیں۔ وہ اس بیماری سے کیسے لڑتی رہیں اور پھر عام زندگی میں کیسے واپس آئیں؟
میگن ڈکسن جب 13 برس کی تھیں تو اُن کی طبعیت ناساز رہنا شروع ہوئی یہاں تک کہ جب وہ 16 برس کی ہوئیں تو اُن کی صحت اتنی بگڑ گئی کہ انھیں ہسپتال لے جانا پڑا کیونکہ وہ بولنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہو گئی تھیں۔
ابتدائی طور پر ڈاکٹرز کو یہ لگا کہ اُن پر فالج کا حملہ ہوا ہے۔
ڈاکٹرز کی جانب سے بتایا گیا کہ ان کے چند ضروری ٹیسٹ ہوں گے جس کے لیے انھیں چار روز تک ہسپتال داخل رہنا پڑے گا مگر انھیں معلوم نہیں تھا کہ یہ چار روز دو سال میں بدل جائیں گے جس کے بعد انھیں بالکل معذوری کی حالت میں اس ہسپتال سے باہر نکلنا ہو گا۔
چار سال قبل بعد جب انھیں ہسپتال سے ڈسچارج کیا گیا تو وہ چلنے پھرنے، بولنے اور یہاں تک کہ اپنی آنکھیں کھولنے کے قابل بھی نہیں تھیں۔ انھیں یہ بتا دیا گیا تھا کہ اب وہ کبھی چل پھر نہیں سکیں گی۔
درحقیقت میگن ’فنکشنل نیورولوجیکل ڈس آرڈر‘ (ایف اینڈ ڈی) نامی بیماری میں مبتلا تھیں۔ اس بیماری میں مبتلا افراد کا دماغ درست انداز میں جسم کے باقی اعضا تک سگنلز نہیں پہنچا سکتا اور اس نظام میں خرابی پیدا ہو جاتی ہے۔
اس کے بعد پیٹربرگ میں وہ ایک نیورولوجیل کیئر ہوم میں داخل ہوئیں اور 18 ماہ تک کی جانے والی تھیراپی کے بعد اب ان کی زندگی یکسر مختلف ہو گئی ہے اور اب ایک ’نیل ٹیکنیشن‘ بننے کی امید کے ساتھوہ اپنے گھر واپس آنے کی تیاری کر رہی ہیں۔
’گردن سے نیچے جسم مکمل معذور ہو چکا تھا‘
میگن جب 18 برس کی عمر میں ایگل ووڈ نیورولوجیل کیئر سینٹر گئیں تو اُن کے مطابق وہ بالکل ایک بچے جیسی ہی تھیں۔
وہ اس سے پہلے کبھی اکیلے نہیں رہی تھیں۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اُن کے لیے یہ سب آسان نہیں تھا۔ ’میرے خیال میں مجھے میرے اپنے سہارے پر چھوڑنا میرے والدین کے لیے ایک مشکل فیصلہ تھا۔ مشکل یہ تھی کہ میں اپنے لیے کچھ کرنے کے قابل بھی نہیں تھی۔ گردن سے نیچے میرا جسم مکمل طور پر معذور ہو چکا تھا۔‘
ان کے مطابق ’میں دیکھ نہیں سکتی تھی، میں چل نہیں سکتی تھی۔ مجھے اس لفظ سے نفرت ہے مگر اس وقت واقعی میںبہت لاغر تھی۔‘
میگن کا کہنا ہے کہ 13 برس کی عمر سے ہی ان کی صحت بگڑنا شروع ہو گئی تھی۔ اُن کے مطابق یہ مسئلہ آہستہ آہستہ بڑھتا گیا اور پھر کرتے کرتے سنہ 2021 میں معاملہ زیادہ خرابی کی طرف چلا گیا۔
’مجھے ہسپتال لے جایا گیا کیونکہ میرے اہلخانہ کو لگا کہ مجھے فالج یا کچھ اس طرح کا مسئلہ ہو گیا ہے کیونکہ میں بولنے کی صلاحیت سے محروم ہو گئی تھی۔‘
میگن کا کہنا ہے کہ ’مجھے ضروری ٹیسٹ وغیرہ کے لیے چار دن کے لیے ہسپتال لے جایا گیا مگر پھر مجھے وہاں سے دو سال بعد چھٹی مل سکی۔‘
بعد میں میگن کی بیماری کی تشخیص کی گئی اور انھیں بتایا گیا کہ انھیں دراصل ’ایف این ڈی‘ تھا یعنی ان کا دماغ جسم کو درست طور پر پیغام رسانی نہیں کر پا رہا تھا۔
وہ کہتی ہیں کہ ’اس عارضے میں دماغ سے جسم کو پیغام رسانی بند ہو جاتی ہے جو پھر ہر طرح کی نیورولوجیکل علامات کا باعث بن جاتا ہے۔ میں اپنے لیے کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں رہی تھی اور میرے بولنے کی صلاحیت بھی ختم ہو گئی تھی۔‘
ان کے مطابق ’میں دیکھنے کے قابل نہیں تھی لہٰذا میں اپنی آنکھیں بھی نہیں کھول سکتی تھی۔ میرا دماغ کھلی اور بند آنکھوں میں فرق نہیں کر پا رہا تھا۔‘
وہ کوئی چیز نگل بھی نہیں سکتی تھیں چنانچہ انھیں کھانا خوراک کی نالی کے ذریعے دیا جاتا تھا۔
بدترین حالات میں انھیں ایک دن میں 50 تک دورے پڑتے تھے مگر اب یہ کم ہو کر 10 اور 15 کے درمیان رہ گئے ہیں۔
ان کی 18 ماہ تک کی جانے والی تھیراپی زندگی میں بہتری لے آئی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اب میں اس قابل ہو گئی ہوں کہ میں بول سکتی ہوں اور دیکھ سکتی ہوں۔ مگر فی الحا میں چل نہیں سکتی۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے اپنی ٹانگیں موڑنے کے لیے سرجری کی ضرورت ہے کیونکہ میری ٹانگیں ’اکڑ‘ گئی ہیں۔ یہ بہت تکلیف دہ ہے، لیکن میں سرجری کا انتظار کر رہی ہوں، اور اس کا مطلب ہے کہ شاید میں دوبارہ کبھی چلنے کے قابل نہیں رہوں گی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ جب میرے والدین مجھے کیئر ہوم لے جائیں گے تو میں اس طرح سے پلاننگ کر رہی ہو گی۔‘ انھوں نے سوچا کہ بس یہی پوری زندگی اب میرا گھر ہو گا۔
ان کے مطابق ہسپتال میں ایک موقع ایسا آیا کہ انھیں لگا کہ جیسے اب ان کی موت قریب آ گئی ہے کیونکہ ان کے جسم نے تقریباً کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔
ان کے مطابق ڈاکٹروں کو میرے والدین کو بتانا پڑا کہ وہ بدترین خبر کے لیے تیار رہیں۔ انھوں نے نہیں سوچا تھا کہ میں 18 برس تک زندہ رہ سکوں گی مگر اب میں 20 سال کی ہوں۔‘
اب میگن نیل ٹیکنیشن بننا چاہتی ہیں اور اس بارے میں اب وہ ایک آن لائن کورس کرنے کے لیے تیاری کر رہی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اب میں زندگی میں آگے بڑھنے اور اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ وقت گزارنے کے لیے مزید انتظار نہیں کر سکتی۔ میں بہت ہی پرجوش ہوں۔‘
ایف این ڈی ایکشن کے مطابق دماغی نیٹ ورک کے اس ڈس آرڈر میں اعضا کی کمزوری، فالج، دورے، چلنے میں دشواری، اینٹھن، حسی مسائل اور بہت سی علامات شامل ہے۔
اس تنظیم کے مطابق ’بہت سے لوگوں کے لیے یہ علامات شدید ہوتی ہیں اور انھیں معذور کر دیتی ہیں اور متاثرہ شخص کی زندگی بدل کر رکھ دیتی ہیں۔‘
تنظیم نے مزید کہا کہ جب اس عارضے میں دماغ درست طریقے سے سگنل بھیجنے یا وصول کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے۔
تنظیم کا کہنا ہے کہ تاریخی طور پر ایف این ڈی کو اکثر خالصتاً نفسیاتی اور جذباتی صدمے کا نتیجہ قرار دیا جاتا رہا ہے۔
’مگر اب یہ نکتہ نظر تبدیل ہو گیا ہے اور نفسیاتی صدمے کو اب بیماری کی بنیادی وجہ کے بجائے اس کے لیے خطرے کی گھنٹی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔‘
میگن کا کہنا ہے کہ وہ اس بیماری میں مبتلا ہو کر الگ تھلگ ہو گئی تھیں، وہ مایوس تھیں اور تھک گئی تھیں کیونکہ ایف این ڈی کے ساتھ زندگی بہت عجیب سی ہے۔
وہ اب ٹک ٹاک پر اپنے تجربات شیئر کر رہی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’ہر چھوٹی سی ’وکٹری‘: چاہے وہ انگلی کو ہلانا ہو یا کوئی لفظ بولنا ہو، یہ میرے لیے جشن سے کم نہیں ہے۔‘