انڈیا کے زیرِانتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے طلبا کا کہنا ہے کہ پہلگام واقعے کے بعد انہیں انڈیا میں ہراساں کیا جا رہا ہے اور دھمکیاں دی جا رہی ہیں کہ وہ اپنے ہاسٹل یا اپارٹمنٹس چھوڑ کر چلے جائیں۔فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق جموں و کشمیر سٹوڈینٹس ایسوسی ایشن کے کنوینر ناصر خوہامی نے بتایا ہے کہ ’اترکھنڈ، اتر پردیش اور ہماچل پردیش سمیت متعدد ریاستوں میں کشمیری طلبا کو مبینہ طور پر اپنے کرائے کے اپارٹمنٹس یا یونیورسٹی کے ہاسٹل چھوڑنے کو کہا گیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہماچل پردیش کی ایک یونیورسٹی کے طلبا کو ہاسٹل کے دروازے توڑنے کے بعد ہراساں کیا گیا اور ان پر حملہ کیا گیا۔ طلباء کو مبینہ طور پر ’دہشت گرد‘ کہا گیا۔‘
ناصر خوہامی نے مزید کہا کہ یہ صرف سکیورٹی کا مسئلہ نہیں ہے، ’یہ ایک مخصوص علاقے اور شناخت سے تعلق رکھنے والے طلبا کے خلاف نفرت کی سوچی سمجھی مہم ہے۔‘
طلبا کا کہنا ہے کہ گروپ نے کشمیری مسلم طلبا کو دھمکی دی کہ اگر انہوں نے فوری طور پر علاقہ نہیں چھوڑا تو انہیں سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔جموں و کشمیر کے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ وہ ریاستی حکومتوں کے ساتھ رابطے میں ہیں جہاں طلبا خود کو غیرمحفوط سمجھ رہے ہیں اور ان سے کہا ہے کہ وہ اضافی احتیاط برتیں۔کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھی انڈیا کے وزیر داخلہ امیت شاہ سے اپیل کی ہے کہ وہ تاجروں اور طلبا کو کھلے عام دھمکیاں دینے والے بعض عناصر کو روکیں۔واضح رہے کہ 22 اپریل کو انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے کم از کم 26 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
ناصر خوہامی نے کہا کہ ہماچل پردیش کی ایک یونیورسٹی کے طلبا کو ہاسٹل کے دروازے توڑنے کے بعد ہراساں کیا گیا (فوٹو: اے این آئی)
حکام کا کہنا ہے کہ یہ گذشتہ ایک برس کے دوران کا بدترین حملہ ہے۔
پہلگام کشمیر کا مشہور سیاحتی مقام ہے اور سری نگر سے تقریباً 90 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ مسلم اکثریتی خطے میں اس کی آزادی کے لیے عسکریت پسند گروہ سنہ 1989 سے سرگرم ہیں۔انڈیا نے سنہ 2019 میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی تھی اور ریاست کو دو وفاقی علاقوں (یونین ٹیریٹریز) جموں و کشمیر اور لداخ، میں تقسیم کر دیا تھا۔ اس اقدام سے پاکستان اور انڈیا کے درمیان تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے تھے۔