پہلگام حملہ: عسکریت پسندوں نے انڈین حکومت کے ’ڈارلِنگ ڈیپارٹمنٹ‘ پر حملہ کیوں کیا؟

انڈین حکومت کے دعووں کے مطابق اس کے زیر انتظام کشمیر میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد سیاحوں کی آمد میں تاریخی اضافہ ہو رہا تھا۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر عسکریت پسند سیاحوں کی ہلاکت سے کون سا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں؟
Reuters
Reuters

کشمیر میں 1990 میں شورش کے آغاز کے بعد مسلح عسکریت پسندوں نے فوجی، نیم فوجی اور دیگر سکیورٹی اہداف پر تو درجنوں حملے کیے ہی ہیں مگر اس دورانیے میں شدت پسندوں کی جانب سے شہریوں کو ہلاک کیے جانے کے واقعات بھی پیش آتے رہے ہیں۔

مسلح شورش کے آغاز کے بعد عسکریت پسندوں کی جانب سے سینکڑوں کشمیری شہریوں کو ’حکومتی مخبر‘ ہونے کے الزام میں ہلاک کیا گیا اور بعد کی دہائیوں میں بھی کشمیری ہندوؤں (پنڈتوں) کی بستیوں پر حملے کیے گئے اور وہاں عام شہریوں کو ہلاک کیا گیا۔

پہلگام حملے پر بی بی سی اُردو کی خصوصی لائیو کوریج

سنہ 2017 میں امرناتھ غار کی یاترا کرنے والے ہندو یاتریوں پر فائرنگ کی گئی تھی جس میں سات یاتری ہلاک ہو گئے تھے لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ سرینگر سے 120 کلومیٹر کی دوری پر واقع ’پہلگام‘ گاؤں کی بائی سرن وادی میں مسلح عسکریت پسندوں نے سیاحوں پر فائرنگ کی جس میں 26 افراد ہلاک ہوئے۔

یاد رہے کہ انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد سے سیاحوں کی آمد میں تاریخی اضافہ ہو رہا تھا۔

تو یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر عسکریت پسند سیاحوں کو ہلاک کر کے کون سا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں؟

’معصوم سیاحوں کو سرکاری کامیابی کا اشتہار بنایا گیا‘

جموں کے انگریزی روزنامہ ’کشمیر ٹائمز‘ کی مُدیر اور مُصنفہ انورادھا بھسین کے مطابق آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے بعد انڈین حکومت نے جموں کشمیر میں سیاحت کو ’ایک سیاسی پراجیکٹ کے طور پر متعارف کروایا تھا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ کشمیر میں ’نارملسی‘ (یعنی حالات نارمل ہونے) کا معیار یہاں بسنے والے عام شہریوں کی سوچ نہیں بلکہ سیاحوں کی آمد کو قرار دیا گیا تھا۔

انورادھا بھسین کہتی ہیں کہ ’انڈین حکومت کی جانب سے بتایا جاتا رہا کہ فلاں سال اتنے کروڑ سیاح کشمیر آئے اور اس سال اتنے کروڑ سیاح آ گئے اور پھر دلی میں بڑے رہنماوٴں نے بھی ایسی ایسی باتیں کیں جن سے انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے باسیوں کو یہ تاثر ملا کہ انڈیا سے سیاح وہاں سیرسپاٹا کرنے نہیں بلکہ انڈیا کی جیت کا جشن منانے آتے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’اہم بات یہ ہے کہ آج کی نوجوان نسل انتہا پسندانہ سوچ سے جلد ہی متاثر ہو کر بنیاد پرست ہو جاتی ہے۔ میں یقین سے نہیں کہہ سکتی کہ ایسا ہی ہے، لیکن ہو سکتا ہے کہ جب سیاحوں کو کشمیر میں سرکار کی سکیورٹی پالیسی کی کامیابی کا اشتہار بنایا گیا تو کچھ گمراہ نوجوان اس سے بھڑک گئے ہوں۔‘

Reuters
Reuters
سیاحت میں اضافے اور نارملسی کے دعوؤں سے متعلق پروفیسر ایلورا کہتی ہیں کہ ’چند سال کی خاموشی سے سکیورٹی ادارے بھی سمجھنے لگے تھے کہ سب ٹھیک ہو گیا، یہ اُسی غفلت کا نتیجہ ہے‘

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سرکاری حلقوں میں کشمیر کا محکمہ سیاحت انڈین حکومت کا ’ڈارلِنگ ڈیپارٹمنٹ‘ کہلاتا ہے۔ کشمیر میں سیاحتی انفراسٹرکچر تعمیر کرنے کے لیے محکمہ سیاحت کو اربوں روپے کی فنڈنگ ملتی ہے جبکہ سیاحتی منصوبوں کی تشہیر کے لیے بھی حکومت خطیر رقم خرچ کرتی ہے۔

گذشتہ برس کشمیر میں انڈین حکومت کے اس دعوے پر کافی بحث ہوئی تھی کہ ڈیڑھ کروڑ سے کم آبادی والے جموں کشمیر میں صرف ایک سال کے دوران دو کروڑ سیاح آئے تھے۔

جموں یونیورسٹی میں جموں کشمیر کے امور سے متعلق انسٹیٹیوٹ کی سربراہ پروفیسر ایلورا پُوری بھی سیاحت کو ’نارمیلسی کا بیرومیٹر‘ (یعنی حالات کے نارمل ہونے کی دلیل یا پیمانہ) ماننے سے انکار کرتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ سیاح کسی بھی تعداد میں کشمیر آئیں مگر سیاحت کو سکیورٹی حالات نارمل ہونے کی علامت سمجھنا غلط ہے۔

سیاحت میں اضافے اور نارمیلسی کے دعوؤں سے متعلق پروفیسر ایلورا کہتی ہیں کہ ’چند سال کی خاموشی سے سیکورٹی ادارے بھی سمجھنے لگے تھے کہ سب کچھ ٹھیک ہو گیا، یہ اُسی غفلت کا نتیجہ ہے۔‘

کیا یہ کشمیر کی آبادی میں تبدیلی کے خدشات کا ردعمل ہے؟

’دا دیش بھگت‘ نام سے پوڈ کاسٹ کرنے والے ایک انڈین یوٹیوبر نے پہلگام حملے سے متعلق منگل کے روز ہی ایک پوڈ کاسٹ کیا جسے صرف 18 گھنٹے میں 24 لاکھ سے زیادہ لوگوں نے دیکھا۔

انھوں نے عسکری گروپ ’دا ریزِسٹنس فرنٹ‘ کا ایک بیان نقل کیا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ کشمیر میں پچھلے چند سال کے دوران 85 ہزار انڈین شہریوں کو ڈومیسائل سند( کشمیر کی شہریت) دی گئی۔

بیان کے مطابق فرنٹ نے دھمکی دی ہے کہ ’جو لوگ سیاح بن کر آتے ہیں اور پھر یہاں آباد ہوتے ہیں، ان کے خلاف تشدد کیا جائے گا۔‘

اس بیان پر انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے مبصرین مختلف آرا رکھتے ہیں۔

انورادھا بھسین کہتی ہیں کہ ڈومیسائل قانون اُن درجنوں قوانین کے مقابلے میں چھوٹا مسئلہ ہے جن کی وجہ سے کشمیریوں کو لگتا ہے کہ ’اُن کی عزّت، شناخت اور اقتصادی آزادی اُن سے چھینی جا رہی ہے۔ ان ہی چیزوں کو لے کرکشمیر میں انڈین پالیسیوں کے خلاف بہت سارا غصہ ہے اور وقت کے ساتھ اِس غصے کو ظاہر کرنے والی ساری سول آوازوں کو خاموش کر دیا گیا۔‘

تاہم موٴرخ اور معروف تجزیہ نگار پیر غلام رسول کہتے ہیں کہ ’ایک سیاح فرصت کے لمحات گزارنے کے لیے کچھ سرمایہ لے کر کشمیر آتا ہے اور واپس چلا جاتا ہے۔ ایک سیاح سیٹلر (آباد کار) نہیں ہو سکتا۔‘

ان کے مطابق کشمیری صدیوں سے اپنی شناخت اور اپنی زمین کو لے کر نہایت حساس رہے ہیں۔

ڈومیسائل اسناد کی تقسیم کے بارے میں گذشتہ ماہ کشمیر کی اسمبلی میں یہ انکشاف ہوا کہ 83 ہزار ڈومیسائل اسناد تقسیم کی گئیں جن میں سے 35 جموں کشمیر سے باہر رہنے والے غیر مسلم انڈین شہریوں کو دی گئیں۔ اس انکشاف پر حکمران جماعت اور حزب اختلاف نے یکساں شدت کے ساتھ احتجاج درج کروایا۔

پروفیسر ایلورا، ڈیموگرافی (آبادی کا تناسب) میں تبدیلی کے خدشات سے متعلق کہتی ہیں ’یہ خدشہ کشمیری سیاست کا اہم حصہ رہا ہے لیکن کشمیریوں کی بڑی تعداد کے لیے سیاحت روزی روٹی کا ذریعہ ہے۔ وہ کبھی ایسی کسی کارروائی کو جائز نہیں سمجھیں گے اور نہ اس کا ساتھ دیں جو اُن کے روزگار کو متاثر کرے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ کشمیریوں کی بھاری اکثریت سیاحوں کی بے مثال میزبانی کرتی ہے جس کا اعتراف خود سیاح بھی کرتے ہیں۔

’کشمیریوں نے اپنے گھروں اور مسجدوں کے دروازے کھول دیے‘

epa
EPA
پیر غلام رسول کہتے ہیں ’کشمیریوں نے اپنے گھروں اور مسجدوں کے دروازے کھول دیے، خوفزدہ سیاحوں کو کھانا کھلایا، ہسپتالوں میں خون کا عطیہ دیا‘

22 اپریل کو پہلگام میں حملے کے بعد انڈین ٹی وی چینلوں پر دعویٰ کیا گیا کہ حملہ آوروں نے شناختی کارڈ دیکھ دیکھ کر لوگوں کو ہلاک کیا تاکہ صرف ہندوٴوں کو ہی مار سکیں۔

ایک متاثرہ خاتون کی ایسی ویڈیو بھی وائرل ہے جس میں انھوں نے کہا کہ بیٹے سمیت انھیں بھی مارنے کی گزارش کے باوجود حملہ آوروں نے ماں بیٹے کو یہ کہہ چھوڑ دیا کہ ’ہم آپ کو نہیں ماریں گے۔ جاوٴ (وزیراعظم) مودی کو بتا دو۔‘

اس حوالے سے پیر غلام رسول حملے کے دوسرے دِن جموں اور کشمیر میں مسلمانوں کی بڑی تعداد کی جانب سے کیے گئے مظاہروں کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’یہ صرف کینڈل لائٹ مارچ نہیں۔ انڈین آبادی کو وہ نہیں دکھایا جاتا جو، کشمیری قوم نے اس حملے کے ردعمل میں کیا۔‘

واضح رہے بائی سَرن تک سڑک نہیں جاتی اور پہلگام تک گھوڑے پر آنا پڑتا ہے۔

پیر غلام رسولکہتے ہیں ’کشمیریوں نے اپنے گھروں اور مسجدوں کے دروازے کھول دیے، خوفزدہ سیاحوں کو کھانا کھلایا، ہسپتالوں میں خون کا عطیہ دیا، پانی اور مشروبات پیش کیے، اپنی گاڑیوں میں انھیں پہلگام سے سرینگر اور یہاں سے ایئرپورٹ پہنچانے کے لیے مفت بندوبست کیا۔‘

’ایک نوجوان کی ویڈیو وائرل ہے جو زخمی سیاح کو کندھے پر اُٹھا کر کئی کلومیٹر کا سفر کر کے اسے بچاتا ہے، دوسرا نوجوان 11 سیاحوں کو بچاتا ہے۔ یہ سب انڈین عوام کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ نامعلوم حملہ آور کا ایک جملہ وائرل ہو گیا لیکن کشمیریوں نے جو اجتماعی ردعمل ظاہر کیا اُس کی بات بھی ہونی چاہیے۔‘

’حالات ٹھیک کرنے ہیں تو کشمیریوں کو آن بورڈ لینا ہو گا‘

حکمران جماعت نیشنل کانفرنس کی ترجمان افراٴ جان کہتی ہیں کہ ’حالات ٹھیک کرنے ہیں تو کشمیریوں کو آن بورڈ لینا ہو گا‘
BBC
حکمران جماعت نیشنل کانفرنس کی افراٴ جان کہتی ہیں کہ ’حالات ٹھیک کرنے ہیں تو کشمیریوں کو آن بورڈ لینا ہو گا‘

حکمران جماعت نیشنل کانفرنس کی ترجمان افراٴ جان کہتی ہیں کہ ’کشمیر میں جو کچھ بھی دہائیوں سے ہوا اُس کا براہِ راست اثر کشمیریوں پر پڑا لیکن ساتھ ہی فورسز کے ہزاروں جوان، اقلیتی شہری اور سیاح بھی تشدد کی بھینٹ چڑھے۔‘

’ہم کہنا چاہتے ہیں کہ کشمیریوں کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ لینا ہو تو کشمیریوں کو فیصلہ سازی میں شامل کیے بغیر وہ ادھورا فیصلہ ہو گا۔ کشمیریوں کو دیوار کے ساتھ لگانے سے حالات ٹھیک نہیں ہوں گے، انھیں آن بورڈ لینا ہو گا۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.