ڈھلتی شام کے ساتھ پرانی دہلی کی گلیوں میں رش اور بھی بڑھ جاتا ہے جس میں پیدل چلنے والے مشکل سے راستہ بنا پاتے ہیں رکشے ہارن پر ہارن بجاتے جاتے ہیں۔ لیکن اس شور و ہنگامے کے بیچ، چھتوں پر ایک خاموش روایت زندہ ہو جاتی ہے۔

پرانی دلی کے علاقے میں سورج ڈھلتے ہی رش بے انتہا بڑھ جاتا ہے۔ لوگ کام کاج کے بعد گھروں کی جانب رواں دواں ہوتے ہیں اور ہر جانب رکشوں کے ہارن کی آوازیں سنائی دیتی ہے۔
ڈھلتی شام کے ساتھ پرانی دلی کی گلیوں میں یہ رش بعض اوقات اس حد تک بڑھ جاتا ہے کہ پیدل چلنے والے بھی اپنا راستہ مشکل ہی سے بنا پاتے ہیں۔ لیکن اس شور و ہنگامے کے بیچ، یہاں موجود گھروں کی چھتوں پر ایک خاموش اور صدیوں پرانی روایت زندہ ہو جاتی ہے۔
پرانی دلی کے مختلف گھروں کی چھتوں سے کبوتر اُڑائے جاتے ہیں، فضا میں ایک چھت سے دوسری چھت تک سیٹیوں کی آوازیں گونجتی ہیں۔ کبوتر ان آوازوں کا جواب دیتے ہیں اور آسمان میں ایک جادوئی منظر نظر آتا ہے۔
کبوتربازی پرانی دلی میں صرف ایک شوق نہیں، بلکہ یہ اس شہر کی پہچان اور مغلیہ ورثے سے جُڑی ایک روایت ہے۔ انڈین نیشنل ٹرسٹ فار آرٹ اینڈ کلچرل ہیریٹیج کے لیے دلی میں ورثہ واکس کرانے والے رتنندو رے کہتے ہیں: ’ایک کبوترباز اپنے کبوتروں پر بے حد فخر کرتا ہے۔ یہ اس کی پہچان، ثقافتی شناخت اور اپنے پن کا حصہ ہوتا ہے۔‘
کبوتر بازی مردوں کا مشغلہ رہا ہے۔ مگر مرد کبوتربازوں کی دنیا میں دلی کی ایک عورت نے صرف کبوتروں سے محبت کی بنیاد پر اپنی الگ پہچان بنا لی ہے۔ اب لوگ انھیں عزت دیتے ہیں، سراہتے ہیں، اور انھوں نے آسمان میں بھی جگہ بنا لی ہے۔
’کبوتربازی اپنے عروج پر شہنشاہ جہانگیر کے زمانے میں پہنچی‘
کبوتربازی کی روایت صدیوں پرانی ہے جس کی جڑیں مہابھارت کے دور (400 قبل مسیح سے 200 عیسوی کے درمیان) تک جاتی ہیں۔ اُس وقت یہ شوق محلات میں شاہی خاندان کی تفریح کے لیے اپنایا گیا تھا۔ مصنفہ اور مؤرخ رانا صفوی کے مطابق ’محل کی خواتین اکثر جھروکوں میں بیٹھ کر فضا میں اُڑتے کبوتروں کا نظارہ کیا کرتی تھیں۔‘
البتہ وہ بتاتی ہیں کہ یہ شوق خاص طور پر مسلم حکمرانوں کے دور میں ایک باقاعدہ کھیل کی صورت اختیار کر گیا۔
صفوی کہتی ہیں ’کبوتربازی اپنے عروج پر شہنشاہ جہانگیر کے زمانے میں پہنچی جنھوں نے اس شوق کو عشق بازی سے تشبیہ دی۔ انھوں نے ماہر کبوتربازوں کو دلی بلوایا اور اس روایت کو ایک نئے فن کا درجہ دیا۔‘
آج بھی شہر بھر میں ہزاروں لوگ اس روایت کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ پہلے شاگرد بنتے ہیں اور وقت کے ساتھ ترقی کر کے خلیفہ کے درجے تک پہنچتے ہیں اور آخرکار جب ان کی مہارت کو تسلیم کر لیا جاتا ہے تو وہ ’استاد‘ کہلاتے ہیں جو کبوتربازی میں سب سے اعلیٰ درجہ ہے۔‘
روایت کو توڑنے والی واحد خاتون کبوترباز
کبوتربازی پر ہمیشہ سے مردوں کا غلبہ رہا ہے اور یہ روایت نسل در نسل باپ سے بیٹے کو منتقل ہوتی آئی ہے لیکن دلی کی شاہین پروین اس روایت کو توڑنے والی واحد خاتون کبوترباز ہیں۔
خواجہ میر درد بستی کے علاقے میں رہنے والی پروین دن بھر بیوی، ماں اور دادی جیسے مختلف کردار نبھاتی ہیں لیکن جیسے ہی انھیں کچھ وقت میسر آتا ہے تو وہ بانس کی سیڑھیاں چڑھ کر اپنے گھر کی چھت پر چلی جاتی ہیں۔ اس بلندی سے نیچے تنگ گلیوں میں مرد چھوٹے چھوٹے ڈھابوں میں کبابوں کا مزہ لے رہے ہوتے ہیں۔
پروین دن کا آغاز اپنے 100 سے زائد کبوتروں کا معائنہ کر کے کرتی ہیں تاکہ یہ یقین ہو سکے کہ سب صحت مند ہیں۔ پھر وہ انھیں خاص دانے کھلاتی ہیں اور مقررہ وقت پر اُڑان کی مشق کرواتی ہیں۔
واپسی کے اشارے کے طور پر وہ سیٹی یا تالیاں بجاتی ہیں۔ شام کے وقت سب کبوتروں کی حاضری لگتی ہے، گھونسلوں کی جانچ ہوتی ہے اور وہ کبوتروں کو مقابلوں کے لیے تیار کرتی ہیں۔
پروین کی آواز سب سے منفرد سنائی دیتی ہے
سورج ڈھلتے ہی جبفضا میں کبوتروں کو بلانے کے لیے مردوں کی آوازیں گونج رہی ہوتی ہیں تو ان سب کے درمیان پروین کی آواز سب سے منفرد سنائی دیتی ہے۔ جب وہ پوری طاقت سے پکارتی ہیں تو لوگ کھڑکیوں اور چھتوں سے جھانک کر اپنی پسندیدہ کبوترباز کی ایک جھلک دیکھتے ہیں۔
کبوتربازی ان کے لیے ایک روایت بھی ہے اور ایک جذبہ بھی۔ پروین کہتی ہیں کہ کبوتروں کے ساتھ وقت گزارنے سے اُنھیں سکون اور اطمینان ملتا ہے۔
وہ کہتی ہیں ’اگر میں ان کے ساتھ وقت نہ گزاروں تو بیمار محسوس کرنے لگتی ہوں۔۔۔ یہ میرے بچوں کی طرح ہیں۔‘
پروین کے بھائی کبوتر بازی کے خلاف تھے
پروین نے مردوں کے غلبے والی اس دنیا میں جو عزت اور مقام حاصل کیا ہے وہ کسی طور آسان نہیں تھا۔
وہ اس شوق کی بنیاد اپنے والد کو قرار دیتی ہیں ’ہر روز جب میں سکول سے واپس آتی تو ابو مجھے چھت پر لے جاتے جہاں وہ اپنے کبوتروں کا شوق پورا کرتے تھے۔ وہیں سے مجھے پرندوں سے محبت ہوئی۔‘
لیکن اس راستے میں رکاوٹیں بھی آئیں۔ ان کے بھائی کبوتر بازی کے خلاف تھے اور بعد میں دوسرے لوگ بھی تنقید کرتے رہے کہ یہ شوق ایک عورت کو زیب نہیں دیتا۔
مگر پروین نے ہمت نہیں ہاری۔ کبوتروں سے محبت نے انھیں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا۔
وہ پر اعتماد انداز میں کہتی ہیں ’جب آپ کی مہارت کو سراہا جائے اور اس کی بنیاد پر برادری میں عزت ملے تو اس سے آپ کو ایک طاقت ملتی ہے۔ پھر مخالفت کرنے والوں کی آوازیں بے معنی لگتی ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں ’لوگ جو چاہیں کہیں میں وہی کروں گی جس سے مجھے خوشی اور سکون ملتا ہے۔‘
’لوگ سمجھتے ہیں کہ کسی تجربہ کار کبوترباز کا ان کی چھت پر آنا ان کے لیے باعثِ برکت ہے‘
پروین نے اپنی مہارت سے کمیونٹی میں عزت اور مقام حاصل کیا ہے۔ وہ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں ’لوگ سمجھتے ہیں کہ کسی تجربہ کار کبوترباز کا ان کی چھت پر آنا ان کے لیے باعثِ برکت ہے۔ اکثر لوگ مجھ سے درخواست کرتے ہیں کہ میں ان کے کبوتروں کو ’دعائیں‘ دوں۔‘
لیکن پروین اکثر ایسی درخواستیں ٹھکرا دیتی ہیں۔ وہ کہتی کہ ’مجھے اپنے ہی کبوتروں سے فرصت نہیں ملتی اور یہ کام تھکا دینے والا ہے۔‘
تجربہ کار کبوترباز محسن استاد اپنی مصروفیت سے وقت نکال کر دانے، دواؤں اور ایسے اخراجات پورے کرنے میں پروین کی مدد کرتے ہیں جنھیں پورا کرنا کبھی کبھار ان کے لیے مشکل ہو جاتا ہے۔
محسن کہتے ہیں ’میں پروین کی چھت پر صرف اس لیے آیا کیونکہ میں ان کی مہارت کی دل سے عزت کرتا ہوں۔‘
پروین مسکراتی ہوئے بتاتی ہیں کہ ’اس سب پر ہزاروں روپے خرچ ہوتے ہیں لیکن شکر ہے محسن ہماری مدد کر دیتے ہیں۔‘
مقابلے کے بعد درجنوں کبوترباز پروین کے پاس تحفے لے کر آئے
پروین کو سب سے بڑی کامیابی اُس وقت ملی جب ان کے کبوتروں نے ایک مقامی مقابلہ جیتا۔
یہ وہ مقابلہ تھا جس میں پرانی دلی سمیت دُور دُور سے سینکڑوں اُستاد اور کبوتر بازی کے شوقین حصہ لینے آئے تھے۔ وہ اپنے پرندوں کو مہینوں بلکہ بعض تو سالوں سے تربیت دیتے آ رہے تھے۔
اس مقابلے میں کبوتروں کو ایک دُور دراز مقام سے چھوڑا گیا جہاں سے انھیں خود اپنے گھر واپس پہنچنا ہوتا ہے۔ مقابلے کا فیصلہ رفتار، برداشت اور اپنے اُستاد کی آواز پر واپس آنے کی صلاحیت کی بنیاد پر ہوتا ہے۔
جیتنے والوں کو ٹرافیاں، نقد انعامات اور کبوتربازی کے حلقے میں بے پناہ عزت ملتی ہے۔
مقابلے کے بعد درجنوں کبوترباز پروین کے پاس تحفے لے کر آئے۔
وہ ہنستے ہوئے کہتی ہیں ’کچھ لوگوں نے تو مجھے پیسے بھی دیے۔ وہ منظر ایسا تھا جیسے انڈیا نے ورلڈ کپ جیت لیا ہو۔ کچھ نے میرے گلے میں ہار ڈالے۔۔ میں گھبرا بھی گئی اور خوش بھی ہوئی۔‘
انھوں نے بی بی سی کو مقابلے کی ویڈیوز اور تصاویر بھی دکھائیں۔
اُن کی بیٹی فخر سے کہتی ہیں ’لوگوں نے اُنھیں پہچانا اور انھیں ملنے والی عزت پہلے سے بڑھ گئی۔‘
'کسی دوسرے کبوترباز کے علاقے میں جانا بے ادبی سمجھا جاتا ہے‘
دلی آنے والے سیاحوں کے لیے کبوتربازی اب ایک دلچسپ کشش بنتی جا رہی ہے۔
وہ ایک ایسے طرزِ زندگی کو قریب سے دیکھ کر حیران ہوتے ہیں جسے وہ شاید صرف بالی وڈ فلموں میں دیکھ چکے ہوں۔
رے کہتے ہیں کہ کبوترباز عموماً طے شدہ حدود (علاقوں) میں اس شوق کی تعمیل کرتے ہیں جو اُن کی چھت یا محلے کے اردگرد ہی ہوتی ہے۔
’کسی دوسرے کبوترباز کے علاقے میں جانا بے ادبی سمجھا جاتا ہے۔ یہاں باقاعدہ مقابلے اور ٹورنامنٹس بھی ہوتے ہیں جنھیں دیکھنا سیاحوں کے لیے ایک خوشگوار تجربہ ہوتا ہے۔‘
رے کی ’دعا، طاقت اور کبوتر: دلی کی وراثتی سیر اور کبوتربازی‘ کے نام سے ایک ہیریٹیج واک بھی ہے جس میں وہ مہمانوں کو گلیوں کے پیچ و خم سے گزار کر اُن چھتوں تک لے جاتے ہیں جہاں سے کبوتر نیلے آسمان میں اڑتے نظر آتے ہیں۔
سوشل میڈیا اور کانٹینٹ کریئیٹرز کی دلچسپی
پرانی دلی میں اب کانٹینٹ کریئیٹرز بھی بڑی تعداد میں آنے لگے ہیں تاکہ کبوتروں کے آسمان میں اُڑتے، چکر لگاتے مناظر کو اپنے کیمرے میں قید کر سکیں۔
جیسے ہی وہ چھتوں پر پہنچتے ہیں تجربہ کار کبوترباز فوراً حرکت میں آ جاتے ہیں۔ وہ جال کو مضبوطی سے تھام لیتے ہیں جس سے وہ کبوتروں کو اُڑان کے دوران سمت دیتے ہیں۔ یہ سب کچھ نہایت مہارت اور روانی سے ہوتا ہے۔
پھر سیٹیاں بجتی ہیں، تالیاں گونجتی ہیں اور مخصوص ردھم میں کبوترباز آوازیں لگاتے ہیں۔
فضا میں محوِ پرواز کبوتر ایک ساتھ ردعمل دیتے ہیں اور گھوم کر واپس اپنی چھت کی طرف آتے ہیں۔ اُن کے پر فضا میں ایسے حرکت کرتے ہیں جیسے محوِ رقص ہوں۔
عمران احمد سوشل میڈیا کے لیے تصاویر لینے آئے تھے، وہ ہمیں بتاتے ہیں ’میں کبوتربازوں کے یوٹیوب چینلز اور دیگر پلیٹ فارمز کو کافی عرصے سے فالو کر رہا ہوں۔ آج خوشی ہے کہ خود یہاں موجود ہوں، تصویریں کھینچ رہا ہوں اور ان خوبصورت پرندوں کے ساتھ تصویروں میں آ رہا ہوں۔‘
’یہ رشتہ کوئی مجھ سے چھین نہیں سکتا‘
جب دن ختم ہونے لگتا ہے تو پروین چھت پر چڑھتی ہیں اور اپنے کبوتروں کو آزاد کرتی ہیں۔ جیسے ہی وہ ایک خاص بلندی پر پہنچتے ہیں پروین انھیں واپس بلاتی ہیں تو وہ فوراً پلٹ آتے ہیں۔
کبوتروں کو دانہ ڈالتے پروین کہتی ہیں ’میں ہر کبوتر کو اپنی آواز پہچاننے، اپنی پکار سمجھنے اور مجھ پر اعتماد کرنے کی تربیت دیتی ہوں۔ یہ رشتہ ایک دن میں نہیں بنتا‘۔
اگرچہ وہ ابھی تک خود کو رسمی طور پر ’اُستاد‘ نہیں کہلاتیں لیکن اُن کی مہارت اور مقام سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔
وہ مسکراتے ہوئے کہتی ہیں ’یہ پرندے میرے مزاج کو محسوس کرتے ہیں اور میں ان کے جذبات کو سمجھتی ہوں۔‘
’پروں اور آسمان کے اس جہاں میں یہ مجھے اسی طرح جانتے ہیں جیسے میں انھیں جانتی ہوں۔۔۔ اور یہ رشتہ کوئی مجھ سے چھین نہیں سکتا۔‘