بی بی سی مانیٹرنگ نے ٹی آر ایف سے منسوب اس بیان کا جائزہ لیا تو پتا چلا کہ نہ صرف اس بیان میں نہ تو ٹی آر ایف کے نام کا ذکر ہے اور نہ ہی گروپ کا لوگو موجود ہے جبکہ گروپ نے ماضی میں مسلسل بیانات میں اپنا نام اور لوگو استعمال کیا۔
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں سیاحوں پر حملے میں 26 افراد ہلاک ہوئےانڈین میڈیا میں پہلگام میں سیاحوں پر حملے میں 27 افراد کی ہلاکت کی ذمہ داری کے حوالے سے جو نام بار بار لیا گیا ہے وہ ایک کالعدم عسکریت پسند گروپ ’دا ریزسٹنس فرنٹ‘ کا ہے۔
ان دعووں کی بنیاد اس تنظیم کے نام سے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والا ایک بیان ہے۔
بی بی سی مانیٹرنگ نے ٹی آر ایف سے منسوب اس بیان کا جائزہ لیا تو پتا چلا کہ نہ صرف اس بیان میں نہ تو ٹی آر ایف کے نام کا ذکر ہے اور نہ ہی گروپ کا لوگو موجود ہے جبکہ گروپ نے ماضی میں مسلسل بیانات میں اپنا نام اور لوگو استعمال کیا۔
یہی نہیں بلکہ وہ ماضی میں گروپ کے جاری کردہ ایسے بیانات سے بالکل مختلف بھی ہے جن میں مختلف حملوں کی ذمہ داری قبول کی گئی۔
اگرچہ انڈین میڈیا نے بڑے پیمانے پر ٹی آر ایف کا نام لیا لیکن بیان میں اس نام کا ذکر بالکل نہیں کیا گیا بلکہ اس کے بجائے وہ اپنی شناخت صرف ’کشمیر ریزسٹنس‘ کے طور پر کروا رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کی ایک رپورٹ میں انڈین حکام کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ گروپ نے سوشل میڈیا اور آن لائن فورمز پر ’کشمیر ریزسٹنس‘ کا نام استعمال کیا تاہم، اس گروپ نے ماضی میں اپنے پروپیگنڈے میں ’ریزسٹنس فرنٹ‘ کا نام استعمال کیا اور ’کشمیر ریزسنٹس‘ کی اصطلاح گذشتہ بیانات میں اس گروپ کی جانب سے استعمال ہوتی دکھائی نہیں دیتی۔
تازہ ترین بیان، جو سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر کچھ حامی جہادی اکاؤنٹس کے ذریعے شیئر کیا گیا، آپریشن کی نوعیت یا حملہ آوروں کے بارے میں بھی تفصیلات نہیں دیتا۔
ٹی آر ایف، جسے انڈین حکومت نے کالعدم شدت پسند تنظیم لشکر طیبہ کی ذیلی تنظیم یا پراکسی قرار دیا ہے، ماضی میں عام شہریوں، خاص طور پر دوسری ریاستوں سے آنے والے تارکین وطن کارکنوں اور کشمیر میں اقلیتی ہندو برادری پر حملوں کا دعویٰ کرتی رہی ہے تاہم گروپ نے ماضی میں بڑے پیمانے پر اس سے منسوب حملوں کی تردید بھی کی۔
جون 2024 میں، جموں میں ہندو زائرین کو لے جانے والی بس کو نشانہ بنانے والے حملے کو مقامی اور بین الاقوامی میڈیا نے بڑے پیمانے پر اس گروپ سے منسوب کیا تھا لیکن ٹی آر ایف نے بعد میں ایک بیان جاری کیا، جس میں حملے سے تعلق کی تردید کی گئی اور اس کے نام سے بیان جاری کرنے والے ’جہلم میڈیا ہاؤس‘ سے بھی لاتعلقی کا اعلان کیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹی آر ایف سے منسوب تازہ ترین بیان کو علاقے یا عسکریت پسند گروپوں پر نظر رکھنے والے بیشتر تجزیہ کاروں یا ماہرین نے بھی شیئر نہیں کیا۔
بی بی سی مانیٹرگ کے مطابق نامناسب برانڈنگ اور محدود مواد کی وجہ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خطے کے دیگر جہادی گروپوں، جیسے کہ دولتِ اسلامیہ اور القاعدہ سے وابستہ تنظیموں کے برعکس ٹی آر ایف کا میڈیا آپریشن زیادہ مربوط نہیں اور یہ گروپ ٹیلی گرام کے ذریعے ’ریزٹسنس میڈیا‘ کے نام سے اپنا پروپیگنڈا کرتا ہے۔
ماضی میں ٹی آر ایف کے بیانات ’جہلم میڈیا ہاؤس‘ کے ذریعے آتے تھے لیکن، گذشتہ برس جموں حملے کے بعد، ٹی آر ایف نے جہلم میڈیا ہاؤس کو رد کرتے ہوئے کہا کہ اس میڈیا آؤٹ لیٹ کا گروپ سے ’براہ راست یا بالواسطہ‘ کوئی تعلق نہیں۔
زیادہ تر انڈین میڈیا نے کالعدم لشکر طیبہ کو اس حملے کا اصل ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا ہے کہ ٹی آر ایف صرف ایک ’سموک سکرین‘ ہے حالانکہ اس نے پہلگام میں ہونے والی ہلاکتوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
23 اپریل کو ٹائمز آف انڈیا نے رپورٹ کیا کہ سجاد گل کی قیادت میں ٹی آر ایف کی کارروائیوں کو پاکستانی ریاست اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کی حمایت حاصل ہے۔
نیوز 18 ویب سائٹ پر ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ ٹی آر ایف نے خود کو لشکر طیبہ اور حزب المجاہدین جیسے اسلامی گروپوں سے دور کرنے کے لیے ’غیر مذہبی علامات اور بیان بازی کو اپنایا‘ اس نے وقت کے ساتھ ساتھ اپنی توجہ سکیورٹی فورسز کے ساتھ تصادم سے نرم اہداف پر حملہ کرنے پر مرکوز کر دی۔
پہلگام حملے کے فوری بعد انڈین میڈیا کی جانب سے ایک مشتبہ سوشل میڈیا پوسٹ کی بنیاد پر کسی عسکریت پسند گروپ کو اس کارروائی کا ذمہ دار قرار دینے پر بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے انڈین صحافی شیبا اسلم فہمی کا کہنا تھا کہ ’وہ پہلگام ہو یا ماضی کے ایسے دیگر واقعات انڈین میڈیا بارہا خود کو شرمندہ کر چکا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہ شاک ڈاکٹرائن ہے۔ ایسا کچھ کہہ دو کہ سب کی توجہ اس پر مرکوز ہو جائے۔ ٹی آر ایف جیسے گروپ کا نام ڈال کر ’شاک ویلیو‘ پیدا کی جا رہی ہے۔‘
انڈین صحافی نے یہ بھی کہا کہ ’انڈیا میں 2014 کے بعد سے میڈیا سیلف ٹریگر موڈ پر رہتا ہے۔ جب بھی کسی بڑے حادثے کے بعد حکومت سے سخت سوال کرنے کی اور یہ بتانے کی نوبت آتی ہے کہ آپ نے اپنا کام کیوں نہیں کیا تو میڈیا خود ہی حکومت کی طرف سے بیٹنگ کرنے لگتا ہے، اسے کور فائر دینے لگتا ہے تاکہ باقی سارے سوال چھپ جائیں اور وہ سوال جو حکومت سننا چاہتی ہے وہی سامنے آئیں۔‘
شیبا فہمی کا کہنا ہے کہ ’اس بار بھی کارپوریٹ میڈیا نے حکومت کو ایسے سوالات سے بچانے کی بھرپور کوشش کی کہ پہلگام میں سکیورٹی کیوں نہیں تھی، ردعمل میں تاخیر کیوں ہوئی لیکن سوشل میڈیا کی وجہ سے یہ سوال اب وہاں پوچھے جا رہے ہیں اور یہ صرف انڈیا تک محدود نہیں رہا۔‘