درآمدی سامان کی کسٹمر ویلیو کم، کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ کتنے سستے؟

image
پاکستان کے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے ذیلی ادارے ڈائریکٹوریٹ جنرل آف کسٹمز ویلیوایشن کراچی نے پرانے اور استعمال شدہ کمپیوٹر سسٹمز، لیپ ٹاپس، پرنٹرز اور اُن سے منسلک اشیا کی درآمد پر کسٹمز ویلیو میں کمی کر دی ہے۔

ڈائریکٹوریٹ جنرل آف کسٹمز ویلیوایشن کی جانب سے جاری کردہ ویلیویشن رولنگ نمبر 2000/D025 کے مطابق یہ نئی قیمتیں پچھلی ویلیوایشن کے مقابلے میں 20 سے 35 فیصد تک کم کر دی گئی ہیں۔

نئی رولنگ کے تحت استعمال شدہ لیپ ٹاپس، کور (Duo) سے لے کر کور آئی نائن تک کی ویلیوایشن 34 ڈالر فی یونٹ سے 210 ڈالر فی یونٹ تک مقرر کی گئی ہیں۔

اسی طرح استعمال شدہ کمپیوٹرز (سی پی یو) کی ویلیو، پی فور سے لے کر کور آئی نائن تک، 14 ڈالر فی یونٹ سے 75 ڈالر فی یونٹ مقرر کی گئی ہے۔

اردو نیوز کو دستیاب کسٹمز رولنگ کے مطابق ایل سی ڈی مانیٹرز کی ویلیو 1.32 ڈالر فی انچ رکھی گئی ہے۔

ماہرین کے مطابق استعمال شدہ لیپ ٹاپس اور کمپیوٹرز کی ویلیوایشن میں کمی کے اثرات پاکستان میں ان کی مارکیٹ پر بھی پڑیں گے اور آنے والے دنوں میں ان مصنوعات کی قیمتوں میں مزید کمی متوقع ہے۔

کسٹمز ویلیوایشن رولنگ میں مزید کیا کہا گیا ہے؟

ڈائریکٹوریٹ جنرل آف کسٹمز ویلیوایشن کراچی کے مطابق نئی رولنگ سیکشن 25A کے تحت نافذالعمل ہو گی۔ اس کا مقصد مارکیٹ قیمتوں اور پرانی ویلیوز کے درمیان موجود فرق کو ختم کرتے ہوئے درآمدات پر مناسب ٹیکس وصولی کو یقینی بنانا ہے۔

ڈائریکٹوریٹ کے مطابق یہ فیصلہ متعلقہ سٹیک ہولڈرز سے مشاورت اور 90 دن کے امپورٹ ڈیٹا اور مارکیٹ سروے کے بعد کیا گیا ہے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان میں بھی بیرونِ ممالک کی طرح سیکنڈ ہینڈ اشیاء کے لیے پرائس بینڈ مقرر کیا جا سکتا ہے (فائل فوٹو: ٹیک جوس)

سٹیک ہولڈرز سے مشاورت

ڈائریکٹوریٹ نے 27 فروری 2025 کو درآمد کنندگان اور دیگر سٹیک ہولڈرز کے ساتھ اجلاس منعقد کیا جس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ پرانے ماڈلز اور جنریشنز کی اشیا کی مارکیٹ میں قیمتیں نمایاں طور پر کم ہو چکی ہیں۔

سٹیک ہولڈرز سے درآمدی دستاویزات بھی طلب کی گئیں تاکہ قیمتوں کے تعین میں شفافیت یقینی بنائی جا سکے۔

ڈائریکٹوریٹ نے واضح کیا ہے کہ اگر کوئی کمپیوٹر ہارڈ ڈرائیو کے بغیر درآمد کیا جائے تو مقررہ قیمت میں سے 3 ڈالر فی یونٹ کم کر دیے جائیں گے۔ اسی طرح اگر کسی کنسائنمنٹ میں مال کی ڈیکلئیر شدہ قیمت مقررہ ویلیو سے زیادہ ہو تو ڈیوٹی اسی زیادہ قیمت پر عائد کی جائے گی۔

ایئر فریٹ کے ذریعے درآمد کی صورت میں سی فریٹ اور ایئر فریٹ میں موجود فرق کو بھی ویلیو میں شامل کیا جائے گا۔

اس کے علاوہ بعض اشیاء جیسا کہ ہارڈ ڈسک یا نیٹ ورکنگ آلات کا وزن مقررہ حد سے زیادہ ہونے کی صورت میں کسٹمز ویلیو ان کے وزن کے مطابق طے کی جائے گی۔

کسٹمز ویلیوایشن کے مطابق یہ رولنگ نہ صرف کمپیوٹرز اور لیپ ٹاپس تک محدود ہے بلکہ پرنٹرز، سکینرز، کمپیوٹر کیبلز، سپیکرز اور دیگر آئی ٹی آلات پر بھی لاگو ہو گی۔

کسٹمز ویلیوایشن کے مطابق یہ رولنگ نہ صرف کمپیوٹرز اور لیپ ٹاپس تک محدود نہیں ہے (فائل فوٹو: ٹی بی ایف کمپوٹنگ، فیس بک)

اس اقدام کا مقصد مارکیٹ میں کم قیمت پر فروخت ہونے والی پرانی اشیا کی درآمد کے حوالے سے مؤثر ریگولیشنز قائم کرنا اور قومی خزانے کو مالی نقصان سے بچانا ہے۔

قیمتوں میں کتنی کمی ہو سکتی ہے؟

راولپنڈی کی لیپ ٹاپس اور کمپیوٹرز کی بڑی مارکیٹ دبئی پلازہ میں کاروبار کرنے والے تاجر چوہدری حسن علی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ویلیوایشن کم ہونے سے مقامی مارکیٹ میں قیمتوں پر نمایاں اثر پڑے گا۔‘

ان کے مطابق ایک کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ کی قیمت میں 15 سے 20 ہزار روپے تک کمی ہو سکتی ہے۔

چوہدری حسن علی نے مزید بتایا کہ ’بیرونِ ممالک سے استعمال شدہ لیپ ٹاپس اور کمپیوٹرز دو طریقوں سے منگوائے جاتے ہیں، ایک فضائی راستے سے اور دوسرا سمندری راستے سے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’فضائی راستے سے درآمد ہونے والی اشیا پر 17 فیصد ڈیوٹی عائد ہوتی ہے جب کہ کراچی پورٹ کے ذریعے آنے والی اشیا پر 7 فیصد ڈیوٹی لاگو کی جاتی ہے۔ یہ وجوہ قیمتوں میں کمی یا اضافے کی وجہ بنتی ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’حکومت نے چھ ماہ قبل فضائی راستے سے درآمد ہونے والے استعمال شدہ کمپیوٹرز اور لیپ ٹاپس پر ڈیوٹی میں تین فیصد کمی کی تھی۔‘

بعض تاجروں کا خیال ہے کہ ایک کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ کی قیمت میں 15 سے 20 ہزار روپے تک کمی ہو سکتی ہے (فائل فوٹو: بلوم پاکستان)

چوہدری حسن علی نے کہا کہ ’بیرون ممالک سے اشیاء کی خریداری ڈالرز میں ہوتی ہے اور ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کا بھی لیپ ٹاپس اور کمپیوٹرز کی قیمتوں پر براہِ راست اثر پڑتا ہے۔‘

چوہدری حسن علی نے مزید بتایا کہ ’نئی جنریشن کے لیپ ٹاپس کی آمد کے باعث پرانی جنریشن کی قیمتیں خودبخود کم ہو جاتی ہیں۔‘

ان کے مطابق ’اس وقت 14 اور 15 سیریز کے لیپ ٹاپس کی قیمتیں قریباً ایک لاکھ 50 ہزار روپے کے قریب ہیں، جبکہ کچھ ماہ قبل یہ قیمتیں ایک لاکھ 70 ہزار روپے سے زائد تھیں۔‘

اوور انوائسنگ کا رجحان

معاشی امور پر نظر رکھنے والے سینیئر ماہرِ معیشت اور سابق وزیر مملکت ہارون شریف کے مطابق ایف بی آر کا موقف یہ ہے کہ جب بیرونِ ممالک سے ری کنڈیشن یا سیکنڈ ہینڈ اشیا درآمد کی جاتی ہیں تو ان کی ویلیو کو بڑھا کر دکھائی جاتی ہے یعنی ان کی ’اوور انوائسنگ‘ کی جاتی ہے۔

مثال کے طور پر اگر کسی کمپیوٹر کی اصل قیمت 50 ہزار روپے ہو تو درآمدی دستاویزات میں اس کی قیمت ایک لاکھ روپے ظاہر کر دی جاتی ہے۔

ہارون شریف کے مطابق کمپیوٹر آلات پر ڈیوٹی کم ہونے کی وجہ سے اوور انوائسنگ کا رجحان زیادہ ہوتا ہے اور فریقین یعنی خریدار اور فروخت کنندہ، اس عمل سے مالی فائدہ حاصل کرتے ہیں۔

ہارون شریف کے مطابق کمپیوٹر آلات پر ڈیوٹی کم ہونے کی وجہ سے اوور انوائسنگ کا رجحان زیادہ ہوتا ہے (فائل فوٹو: میتھڈٖ سی آر ایم)

ایف بی آر کی مشکلات اور اندازہ لگانے کا طریقہ

ہارون شریف کا کہنا تھا کہ ’ایف بی آر کے لیے سیکنڈ ہینڈ یا ری کنڈیشنڈ اشیاء کی درست قیمت لگانا آسان نہیں کیونکہ نئی اشیا کی قیمتیں تو آن لائن دستیاب ہوتی ہیں مگر استعمال شدہ اشیا کی قیمت کا انحصار ان کی حالت پر ہوتا ہے۔‘

ان کے مطابق پاکستان میں ٹریڈرز کی بڑی تعداد اوور انوائسنگ کا سہارا لیتی ہے، خاص طور پر اُن اشیا پر جن پر ڈیوٹی کم ہو۔

یہی وجہ ہے کہ ایف بی آر نے زمینوں کی طرح امپورٹڈ اشیاء کی ویلیوایشن کے لیے بھی ایک فارمولا اپنایا ہے جس کے تحت قریباً 35 فیصد قیمت کم کر کے ویلیو مقرر کی جاتی ہے۔‘

ہارون شریف نے تجویز دی کہ ’پاکستان میں بھی بیرونِ ممالک کی طرح سیکنڈ ہینڈ اشیاء کے لیے پرائس بینڈ مقرر کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً پانچ سال پرانی اشیاء کے لیے قیمت کی ایک حد طے کی جائے۔ اس کے علاوہ ایف بی آر کو چاہیے کہ بین الاقوامی مارکیٹس کی اوسط قیمتوں کو بنیاد بنا کر ویلیوایشن کرے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ اگرچہ ایک محنت طلب کام ہے لیکن موجودہ ٹیکنالوجی اور معلومات کی فراہمی کے دور میں یہ ممکن ہے۔‘

فضائی راستے سے درآمد ہونے والی اشیا پر 17 فیصد ڈیوٹی عائد ہوتی ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ہارون شریف کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں کمپیوٹرز اور آئی ٹی مصنوعات کی مارکیٹ بہت زیادہ مسابقتی ہے اور یہاں کسی ایک ادارے یا گروپ کی اجارہ داری نہیں ہے۔‘

ان کے مطابق مارکیٹ کی وہ قیمتیں ہی طے کی جاتی ہیں جو صارفین ادا کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’کوئی مال اگر اوور انوائسنگ کے ساتھ درآمد ہوا ہو تو بھی مارکیٹ میں فروخت کنندہ اسے اصل قیمت کے قریب ہی فروخت کرتا ہے، کیونکہ مقابلہ سخت ہے اور آئی ٹی مصنوعات عام طور پر ہر طبقے میں مقبول ہیں۔‘

ہارون شریف کے مطابق ترقی یافتہ ممالک میں ٹیکنالوجی کے تیزی سے بدلاؤ کی وجہ سے یہ اشیا سستے داموں دستیاب ہوتی ہیں، جس کی بدولت درآمد کنندگان مناسب مارجن کے ساتھ انہیں پاکستانی مارکیٹ میں فروخت کرتے ہیں۔

 


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.