2017 میں جب ڈونلڈ ٹرمپ نے بطور امریکی صدر چین پر ٹیرف نافذ کیا تھا تو اس کا فائدہ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک نے اٹھایا تھا کیوں کہ بہت سے کارخانے ویتنام، کمبوڈیا اور دیگر ممالک منتقل ہو گئے۔

2017 میں جب ڈونلڈ ٹرمپ نے بطور امریکی صدر چین پر ٹیرف نافذ کیا تھا تو اس کا فائدہ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک نے اٹھایا تھا کیوں کہ بہت سے کارخانے ویتنام، کمبوڈیا اور دیگر ممالک منتقل ہو گئے۔
ٹرمپ کے حالیہ فیصلوں میں ویتنام اور کمبوڈیا پر 46 اور 49 فیصد محصولات عائد کر دیے گئے ہیں جبکہ انڈونیشیا اور ملائیشیا پر بھی 32 اور 24 فیصد ٹیرف لگایا گیا ہے۔ اس سے پہلے ان ممالک کو ’ٹیرف سے بچنے والے‘ قرار دیا جاتا تھا۔
چین نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک نئی سفارتی مہم کا آغاز کیا ہے جس کے تحت صدر شی جن پنگ نے ان ممالک کو دورہ کرتے ہوئے زور دیا کہ وہ امریکی اقدامات کا مل کر مقابلہ کریں اور یہ وعدہ بھی کیا کہ وہ انڈونیشیا سے درآمدات بڑھائیں گے۔ یوں انھوں نے چین کو معاشی گلوبلائزیشن کا دفاع کرنے والے ملک کے طور پر پیش کیا ہے۔
سنگاپور یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر این چونگ نے بی بی سی چین کو بتایا کہ ’جنوب مشرقی ایشیائی ممالک ہمیشہ بیچ میں رہے ہیں، امریکہ اور چین کے۔ لیکن اب یہ خطہ چین کے قریب ہو رہا ہے۔ ٹرمپ کے رویے نے امریکی شہرت کو چوٹ پہنچائی ہے۔‘
لیکن ان کے مطابق سوال یہ ہے کہ چین پر کتنا بھروسہ کیا جا سکتا ہے؟
’ان ممالک کو چین کی سرمایہ کاری اور منڈی دونوں کی ہی ضرورت ہے اور صدر شی نے بہت سے وعدے کیے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ چین کو درپیش مشکلات اور عالمی معاشی منظر نامے کو دیکھتے ہوئے یہ سوچنا ہو گا کہ کیا چین واقعی ان وعدوں پر پورا اتر سکتا ہے؟‘
معاشی خودمختاری
ٹرمپ کے حالیہ فیصلوں میں ویتنام اور کمبوڈیا پر 46 اور 49 فیصد محصولات عائد کر دیے گئے ہیں جبکہ انڈونیشیا اور ملائیشیا پر بھی 32 اور 24 فیصد ٹیرف لگایا گیا ہےدنیا کی پانچویں بڑی معیشت کی حیثیت سے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی آسیان تنظیم عالمی رسد کا اہم جزو ہے۔ اس خطے میں انٹیل کمپنی کے سیمی کنڈکٹر، سیم سنگ کے سمارٹ فون سے لے کر نائیکی کے جوتے تک تیار ہوتے ہیں۔ لیکن امریکی اور چین کی پہلی تجارتی جنگ شروع ہونے کے بعد اس خطے میں کافی سرمایہ کاری ہوئی۔
آسٹریلیا کے لوئی انسٹیٹیوٹ میں جنوب مشرقی ایشیا پروگرام کی ڈائریکٹر سوزینا پیٹن کا کہنا ہے کہ ’ایک طرح سے دیکھا جائے تو ناصرف جنوب مشرقی ایشیائی معیشت کا معاشی پارٹنر ہے بلکہ اس کا حریف بھی ہے۔‘
2018 سے 2022 کے بیچ امریکی کمپنیوں نے خطے میں ہونے والی مجموعی سرمایہ کاری کا 25 فیصد فراہم کیا جو جاپان اور یورپی یونین سے زیادہ تھی۔
چین نے بھی سرمایہ کاری کی لیکن اس کا حجم آٹھ فیصد تھا۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ چینی سرمایہ کاری کا اصل حجم اس سے کہیں زیادہ ہے کیوں کہ بہت سے سرمایہ کاری براہ راست نہیں ہوئی بلکہ ہانگ کانگ کے راستے یا آف شور کمپنیوں کے ذریعے ہوئی۔
2017 میں جب ڈونلڈ ٹرمپ نے بطور امریکی صدر چین پر ٹیرف نافذ کیا تھا تو اس کا فائدہ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک نے اٹھایا تھا کیوں کہ بہت سے کارخانے ویتنام، کمبوڈیا اور دیگر ممالک منتقل ہو گئےتاہم اب امریکی محصولات کا نشانہ بننے کے بعد یہ ممالک زیادہ چینی سرمایہ کاری کے خواہشمند ہیں۔ اس خواہش کے راستے کی رکاوٹ چین کو درپیش معاشی چینلج بن سکتے ہیں۔
یہ ممکن ہے کہ بیروزگاری اور کمزور معاشی ترقی کا سامنا کرنے کی وجہ سے چین بیرونملک سرمایہ کاری محدود کر دے تاکہ مقامی طور پر ملازمتوں کو بچایا جا سکے۔
چین کی سفارتی حکمت عملی
معیشت کے علاوہ بھی تناؤ موجود ہے۔ پروفیسر این چونگ کا کہنا ہے کہ چین اور آسیان ممالک ہمسائے ہیں اور خودمختار بھی ہیں لیکن اختلافات بھی موجود ہیں۔
ساؤتھ چائنہ سمندر میں تنازع ایک اہم کڑی ہے جہاں چین کے دعوے ویتنام، فلپائن اور ملائیشیا کے دعووں سے متصادم ہیں۔
چین کی جانب سے ان ممالک میں موجود چینی نسل کے شہریوں سے روابط نے بھی حساسیت کو جنم دیا ہے۔ انڈونیشیا اور ملائیشیا جیسے مسلمان اکثریت ممالک میں چین کے اندر مسلمانوں سے ہونے والے سلوک پر بھی تحفظات پائے جاتے ہیں۔
دوسری جانب تائیوان اور جنوبی چین سمندر میں کشیدگی بڑھنے کا خدشہ موجود ہے جو ان ممالک کے لیے اہم تجارتی راستہ بھی ہے۔ ان پانیوں میں کسی قسم کا تنازع ناصرف عالمی رسد کو متاثر کرے گا بلکہ ان ممالک کی معیشت بھی اس سے بچ نہیں پائے گی۔
این چونگ کے مطابق ’جنوب مشرقی ایشیائی ممالک محتاط رہنا چاہتے ہیں کیوں کہ وہ چین کی عسکری طاقت سے آگاہ ہیں کہ وہ ان کے استحکام اور خوشحالی کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔‘
چین خطے کے حالات اور صورت حال سے واقف ہے۔ اپنے حالیہ دورے کے دوران چینی صدر شی جن پنگ نے نوآبادیاتی نظام کے خلاف مشترکہ جستجو پر تو بات کی لیکن وہ چین اور ویتنام کی جنگ جیسے موضوع سے دور رہے۔ انھوں نے حالیہ تنازعات پر بھی بات نہیں کی۔
تائیوان اور جنوبی چین سمندر میں کشیدگی بڑھنے کا خدشہ موجود ہے جو ان ممالک کے لیے اہم تجارتی راستہ بھی ہے۔ ان پانیوں میں کسی قسم کا تنازع ناصرف عالمی رسد کو متاثر کرے گا بلکہ ان ممالک کی معیشت بھی اس سے بچ نہیں پائے گیکارلائل تھیئر آسٹریلیا کی نیو ساؤتھ ویلز یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں جن کا کہنا ہے کہ فلپائن کے مقابلے میں چین ویتنام سے مختلف رویہ اپنا رہا ہے جس میں نرمی ہے۔
کمبوڈیا میں بھی چینی سفارت کاری کا الگ انداز نظر آ رہا ہے۔ کمبوڈیا کے ایک بحری اڈے کی چینی سرمای کاری سے متنازع توسیع کے منصوبے کو شی جن پنگ کے دورے کے دوران اہمیت ملی لیکن کمبوڈیا کے صدر نے کہا کہ یہ اڈہ ان کے ملک کے کنٹرول میں ہی ہے۔
خطے میں بدلتا رجحان
ٹرمپ نے کہا ہے کہ 70 سے زیادہ ممالک نے امریکہ سے رابطہ کیا ہے کہ وہ ٹیرف پر مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے میں بہت سے ممالک کے لیے یہ ایک مشکل صورت حال ہے۔
ملائیشیا اس خطے میں ایک ایسا ملک ہے جس پر سب سے کم ٹیرف لگایا گیا ہے اور اسی وجہ سے دیگر ممالک سے کاروبار یہاں منتقل ہو رہے ہیں۔
چینی سوشل میڈیا پر بھی یہ بحث ہو رہی ہے کہ کیا فیکٹریاں ملائیشیا منتقل کر دی جائیں۔
چینی سوشل میڈیا پر بھی یہ بحث ہو رہی ہے کہ کیا فیکٹریاں ملائیشیا منتقل کر دی جائیںویتنام کی پالیسی کسی بانس جیسی ہے اور جس طرح سے ایک بانس لچکدار ہوتا ہے ویسے ہی ویتنام بھی جب کبھی چین اور امریکہ کے دباؤ کا سامنا کرتا ہے تو ایک لچکدار حکمت عملی اپنا لیتا ہے۔
خطے کے تمام ممالک میں ہی ایک غیر جانب داری کی پالیسی ہے جو سرد جنگ کے بعد سے اپنائی گئی۔
الیگزینڈر وونگ، ایشیا پیسیفک سینٹر فار سکیورٹی سٹڈیز، کا کہنا ہے کہ ’ویتنام اس پالیسی میں کامیاب رہا لیکن اس وقت اس پر عملدرآمد کچھ مشکل ہے۔‘
ان کے مطابق ’ویتنام کو اندازہ تھا کہ ایک دن ایسا آئے گا لیکن وہ اس کے لیے تیار نہیں تھے۔‘ انڈونیشیا کو بھی ایسی ہی مشکل کا سامنا ہے جس نے اب تک نیوٹرل رویہ اپنایا ہوا تھا۔
تاہم اب انڈونیشیا کا چین پر معاشی انحصار معاملات کو پیچیدہ بنا رہا ہے۔ سینٹر فار اکنامک اینڈ لا سٹڈیذ کی ڈائریکٹر بھیما کا کہنا ہے کہ ’اب نیوٹرل رہنا ممکن نہیں لگ رہا کیوں کہ گذشتہ سال چین سے درآمدات سالانہ بنیادوں پر33 فیصد بڑھیں۔‘
ان کے مطابق اس کا مطلب ہے کہ ’انڈونیشیا کا چین پر انحصار اور بڑھے گا اور یہ برکس کے قریب ہو جائے گا۔‘

پروفیسر کارلائل کا کہنا ہے کہ ’موجودہ صورت حال سے نمٹنے کے لیے چار طریقے ہو سکتے ہیں۔ نیوٹرل رہنا، کسی ایک ملک کی جانب جھک جانا، صورت حال کو دیکھ کر رخ بدلنا اور مشکل میں پھنسے رہ کر مفادات کا تحفظ کرنا۔‘
ان کا کہنا ہے کہ فلپائن ایک مثال ہے کیوں کہ اس ملک نے انیس سو اکاون میں کمیونسٹ چین سے بچنے کے لیے امریکہ سے اتحاد کر لیا تھا۔
اکثر کمزور ممالک کسی مضبوط ریاست سے اس لیے اتحاد کر لیتے ہیں کہ کسی تنازع میں انھیں حمایت اور مدد مل سکے۔ میانمار، کمبوڈیا اور لاؤس، جو چین سے قریب ہیں، ایسی ہی مثالیں ہیں۔
پروفیسر کارلائل کے مطابق ملائیشیا اور ویتنام ایسی مثالیں ہیں جنھیں نے حالات کا مقابلہ بخوبی کیا اور چھوٹے ممالک ہوتے ہوئے ایک سے زیادہ طاقتوں سے تعلقات قائم کیے۔
انڈیا اور انڈونیشیا نے غیر جانب داری کی حکمت عملی اپنائی۔ اس وقت ایسا لگ رہا ہے کہ ٹرمپ کے اقدامات کے خلاف یہ ممالک ایک مشترکہ اتحاد دکھائیں گے۔ ملائیشیا کے وزیر اعظم انور ابراہیم نے کہا ہے کہ ان کا ملک آسیان کا مشترکہ اور متحد موقف پیش کرے گا۔
تاہم ڈاکٹر پینگ نیان، جو ہانگ کانگ کے ایشیین سٹڈیز سینٹر کے ڈائریکٹر ہیں، کے مطابق ایک نئی حکمت عملی سامنے آ رہی ہے جس میں یہ ممالک ’چین اور امریکہ سے ہٹ کر بین الاقوامی امور کو دیکھ رہے ہیں اور یورپ سمیت دیگر منڈیوں سے تعلقات قائم کر رہے ہیں تاکہ کسی بھی بڑی طاقت پر انحصار کو ختم کیا جائے۔‘