امریکی اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ نے اپنی رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ مئی کے پہلے ہفتے میں پاکستان میں گرمی کا نیا ریکارڈ قائم ہو سکتا ہے جبکہ پاکستان کے محکمہ موسمیات نے 30 اپریل سے ملک کے بیشتر حصوں میں بارش کی پیشگوئی کی ہے۔ان رپورٹس کی وجہ سےشہری شش و پنج میں پڑ گئے ہیں کہ آخر کون سی خبر درست ہے۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ میں جیکب آباد، نوابشاہ یا دادو جیسے پاکستانی شہر جہاں ماضی میں بھی اپریل اور مئی میں شدید گرمی ریکارڈ ہوتی رہی ہے اب اس ریکارڈ کے ٹوٹنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ دوسری جانب پاکستان کے محکمہ موسمیات نے جن حصّوں میں بارش کی پیش گوئی کی ہے وہ ملک کے شمالی علاقہ جات ہیں۔
پاکستان کے محکمۂ موسمیات کی جانب سے جاری کردہ ایڈوائزری کے مطابق 30 اپریل سے چار مئی کے دوران کشمیر، مظفرآباد، راولا کوٹ، باغ، حویلی، سدھنوتی، کوٹلی اور میرپور میں گرج چمک، ژالہ باری اور چند مقامات پر تیز بارش متوقع ہے۔
اسی طرح اسلام آباد، راولپنڈی، مری، اٹک، چکوال، کلر کہار، جہلم، منڈی بہاؤالدین، گجرات، گوجرانوالہ، حافظ آباد، سیالکوٹ، نارووال، لاہور، ساہیوال، قصور، اوکاڑہ، فیصل آباد، جھنگ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، سرگودھا اور میانوالی کے اضلاع بھی بارش اور ژالہ باری کی لپیٹ میں آئیں گے۔
خیبرپختونخوا کے علاقوں چترال، دیر، سوات، بونیر، شانگلہ، ملاکنڈ، وزیرستان، کوہاٹ، لکی مروت، پشاور، مردان اور کرم میں بھی بارش اور گرج چمک کا امکان ظاہر کیا گیا ہے جبکہ گلگت بلتستان کے اضلاع استور، دیامر، نگر، ہنزہ، سکردو، گانچھے، شگر اور گلگت میں بھی ژالہ باری اور بارش متوقع ہے۔
محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ 2 مئی سے 5 مئی کے دوران جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان کے مختلف اضلاع جیسے ملتان، ڈیرہ غازی خان، بہاولپور، بہاولنگر، سکھر، میرپور خاص، عمرکوٹ، ژوب، خضدار، موسیٰ خیل اور بارکھان میں گرد آلود ہوائیں، گرج چمک اور بارش کا امکان ہے۔
اس کے علاوہ 11 مئی سے شمال مشرقی پنجاب میں نمی والی ہوائیں داخل ہونے کا امکان ہے جو مزید بارشوں کی بنیاد بن سکتی ہیں۔
محکمہ موسمیات کے ڈپٹی ڈائریکٹر عرفان ورک نے کہا کہ اگلے ایک ہفتے میں درجۂ حرارت اوپر جانے کے بجائے کم ہوگا (فوٹو: اے ایف پی)
محکمہ موسمیات کے ڈپٹی ڈائریکٹر عرفان ورک نے اُردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خبروں کے برعکس پاکستان میں محکمہ موسمیات نے جو پیشگوئی کی ہے اُس پر قائم ہیں۔
’یہ سوشل میڈیا کا زمانہ ہے اور ہر کوئی اپنی مرضی سے خبر دینا مناسب سمجھتا ہے لیکن عموماً یہ خبریں حقائق کے برعکس ہوتی ہیں۔‘
انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’جب یہ خبر چھپتی ہے کہ پاکستان میں دنیا کا گرم ترین دن آنے والا ہے تو قاری اس خبر کو پڑھنے کے لیے لپکتے ہیں اس لیے ایسی سرخیاں نکالی جاتی ہیں لیکن سائنسی طور پر محکمہ موسمیات کی پیش گوئی کے مطابق اگلے ایک ہفتے میں درجہ حرارت اوپر جانے کے بجائے کم ہوگا کیونکہ اس دوران اندھی بارش اور ژالہ باری کے امکانات موجود ہیں۔‘
خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے بھی جب پاکستان میں ہیٹ ویو سے بچنے کی تیاریاں کی جا رہی تھیں اس وقت بھی اچانک شدید ژالہ باری نے نہ صرف شہریوں کی گاڑیوں سولر پلیٹس اور عمارتوں کے شیشوں کو نقصان پہنچایا تھا بلکہ درجہ حرارت میں کمی کا باعث بھی بنی تھی۔
اگر گزشتہ ہفتے کے عالمی موسمی رجحانات کا جائزہ لیا جائے تو اپریل 2024 کے اختتام پر دنیا میں سب سے زیادہ درجۂ حرارت پاکستان کے شہر جیکب آباد اور دادو میں ریکارڈ کیا گیا، جو کہ 47.5 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچا۔ انڈیا کے شہر بارمر، راجستھان میں درجہ حرارت 46.4 ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ ہوا، جو معمول سے چھ ڈگری زیادہ تھا۔
ماہرین کے مطابق ان دونوں علاقوں کا موسم عموماً خشک اور گرم ہوتا ہے، لیکن اس حد تک گرمی بہرحال تشویشناک ہے۔ نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ اپریل کے مہینے میں دنیا کا اب تک کا سب سے زیادہ درجہ حرارت بھی پاکستان کے شہر نوابشاہ میں 2018 میں ریکارڈ کیا گیا تھا، جو 50 ڈگری سینٹی گریڈ تھا۔ اسے اپریل کا عالمی ریکارڈ سمجھا جاتا ہے۔
ماہرین کا کہنا کہ مئی کے آغاز میں ایک نیا عالمی ریکارڈ بنے گا، ایک قیاس آرائی ضرور ہو سکتی ہے مگر فی الحال اس کی کوئی سائنسی بنیاد دستیاب نہیں۔
دوسری جانب دیکھا جائے تو ہر گزرنے والا سال پچھلے سال کی نسبت زیادہ گرم ہوتا جا رہا ہے۔ جون 2024 میں مئی 202 کو دنیا کا گرم ترین مہینہ قرار دیا گیا تھا۔
عالمی سطح پر بھی 2024 کو ناسا، کاپرنیکس موسمیاتی تبدیلی سروس، برطانیہ کے محکمہ موسمیات اور امریکی ادارہ نوا نے 2024 کو دنیا کا سب سے گرم سال قرار دیا تھا۔
’نوا‘ نے ایک تفصیلی نقشہ جاری کیا جس میں دنیا بھر کے اہم موسمیاتی واقعات، جیسے شدید گرمی کی لہریں، خشک سالی، سمندری طوفان، شدید بارشیں اور برفباری میں کمی کو نمایاں کیا گیا ہے۔
’نیویارک ٹائمز‘ نے دعویٰ کیا ہے کہ مئی کے پہلے ہفتے میں پاکستان دنیا کے گرم ترین مقامات میں شامل ہو سکتا ہے (فوٹو:اے ایف پی)
نوا کی رپورٹ کے مطابق درجہ حرارت میں غیر معمولی اضافے کی وجہ سمندری درجہ حرارت میں اضافہ، ایل نینو کے تسلسل، انسانی سرگرمیوں سے خارج ہونے والی گرین ہاؤس گیسیں اور جنگلات کی کٹائی جیسے عوامل ہیں۔
اگرچہ ان عالمی رجحانات کی روشنی میں خطے میں ہیٹ ویوز کی شدت کا امکان ہے لیکن پاکستان کے مخصوص موسمی حالات جیسے نمی والی ہوائیں، بارشیں، ژالہ باری اس امکان کو محدود کر سکتے ہیں۔
پاکستان کے وزارتِ موسمیاتی تبدیلی کا موقف ہے کہ عالمی درجہ حرارت میں اضافہ بنیادی طور پر صنعتی سرگرمیوں، توانائی کے روایتی ذرائع جیسے کوئلہ اور تیل کے استعمال، شہری علاقوں کے بے ہنگم پھیلاؤ، اور جنگلات کی بے دریغ کٹائی کا نتیجہ ہے۔
جب فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین اور نائٹرس آکسائیڈ جیسی گرین ہاؤس گیسیں بڑھتی ہیں تو وہ زمین کی حرارت کو واپس فضا میں جانے سے روکتی ہیں، جس سے زمین کا درجہ حرارت مسلسل بڑھتا ہے۔
ایل نینو جیسے سمندری مظاہر بھی بحرالکاہل اور بحر ہند کے پانیوں کو گرم کر دیتے ہیں، جس کے اثرات پاکستان، انڈیا، افریقہ اور جنوبی امریکہ تک محسوس کیے جاتے ہیں۔
اس بڑھتی ہوئی گرمی کے اثرات صرف موسمی حدت تک محدود نہیں رہتے۔ گرمی کی شدت سے انسانی صحت بری طرح متاثر ہوتی ہے خاص طور پر بچے، بزرگ، اور دل یا سانس کے مریض زیادہ خطرے میں ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر ظہیر الدین نے کہا کہ ’جنوبی علاقوں خصوصاً سندھ اور جنوبی پنجاب میں درجہ حرارت بلند ہو سکتا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
ہیٹ سٹروک کے واقعات بڑھ جاتے ہیں، ہسپتالوں پر دباؤ بڑھتا ہے، پانی کی طلب میں اضافہ ہوتا ہے اور بجلی کے نظام پر بوجھ بڑھتا ہے۔ زراعت بھی اس سے متاثر ہوتی ہے، فصلیں جلد سوکھنے لگتی ہیں یا قبل از وقت پک جاتی ہیں، جس سے پیداوار میں کمی آتی ہے۔
شہروں میں درجہ حرارت دیہی علاقوں کی نسبت زیادہ ہو جاتا ہے جسے ’اربن ہیٹ آئی لینڈ ایفیکٹ‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، بارشوں کی شدت اور ترتیب میں تبدیلی کے اور قبل از وقت گلیشیئر پگھلنے کے باعث سیلاب جیسے خطرات بھی بڑھتے ہیں، جن سے شہری و دیہی انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچتا ہے۔
خطے کی مجموعی صورتحال کو دیکھا جائے تو انڈیا کے کئی علاقوں میں واقعی گرمی کی شدید لہر جاری ہے۔ خاص طور پر راجستھان، گجرات، مہاراشٹرا اور اتر پردیش میں، جہاں درجہ حرارت 45 سے 47 ڈگری سینٹی گریڈ کے درمیان ریکارڈ کیا گیا۔ تاہم، انڈیا کے مشرقی علاقوں میں پری مون سون بارشوں کی وجہ سے موسم کچھ علاقوں میں نارمل یا کم گرم ہو چکا ہے۔
دوسری طرف افغانستان میں موسم نسبتاً معتدل ہے۔ کابل، بامیان، مزار شریف اور ہرات جیسے شہروں میں اپریل کے آخری دنوں میں بارشوں کا سلسلہ جاری رہا جس سے وہاں درجہ حرارت میں کمی دیکھی گئی ہے۔ یہ صورتحال بتاتی ہے کہ اگرچہ جنوبی ایشیا کے بعض حصوں میں گرمی کی شدت ضرور موجود ہے مگر مکمل خطے میں موسمی حالات یکساں نہیں۔
اس تمام صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے سینیئر ماہرِ موسمیات ڈاکٹر ظہیر الدین کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں جنوبی علاقوں خصوصاً سندھ اور جنوبی پنجاب میں درجہ حرارت واقعی بلند ہو سکتا ہے لیکن یہ کہنا کہ عالمی ریکارڈ قائم ہوگا، فی الحال قبل از وقت ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک کے شمالی اور وسطی علاقوں میں نمی اور بارشوں کا اثر موجود ہے جو گرمی کی شدت کو معتدل بنا رہا ہے۔
’ہمیں میڈیا میں چلنے والی ہر خبر کو سائنسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ صرف ایک یا دو شہروں میں گرمی کی شدت پورے ملک یا پورے خطے کی نمائندگی نہیں کرتی۔ پاکستان میں کئی مائیکرو موسمی نظام ہیں جو ہر علاقے کو مخصوص موسم دیتے ہیں۔‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ عوام کے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ موسمی پیش گوئیوں پر روزانہ کی بنیاد پر توجہ دیں۔ اگر آپ جنوبی پاکستان کے علاقوں دادو، سکھر یا نوابشاہ میں رہتے ہیں تو گرمی سے بچاؤ کے تمام ممکنہ اقدامات ضرور کریں۔
پانی کا زیادہ استعمال، دھوپ سے پرہیز اور دوپہر کے اوقات میں باہر نکلنے سے اجتناب۔ اگر آپ شمالی یا وسطی علاقوں میں رہتے ہیں، تو آندھی، ژالہ باری اور بارش سے متعلق احتیاطی تدابیر اپنائیں۔ جیسے بجلی کے آلات سے دوری، نالوں کی صفائی، اور کمزور ڈھانچوں سے دور رہنا۔ اور سب سے بڑھ کر افواہوں کے بجائے مستند اداروں کی رپورٹس پر یقین رکھیں۔