پہلگام حملے کے بعد انڈیا اور پاکستان دونوں حکومتوں کی جانب سے کئی سخت اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ جن میں سندھ طاس معاہدہ منسوخ کرنے، پاکستانی شہریوں کے ویزے منسوخ کرنے اورفضائی حدود کی بندشکے بعد اب انڈیا میں متعدد پاکستانی فنکاروں کے انسٹا اکاؤنٹس بھی بند کر دیے گئے۔

ہانیہ عامر، ماہرہ خان، علی ظفرسمیت اُن ناموں کی فہرست کافی لمبی ہے جن پاکستانی اداکاروں اور فنکاروں کو انڈیا بہت پسند کیا جاتا ہے اور وہاں ان کے مداحوں کی بڑی تعداد ہے۔
ان کی فلمیں ہوں، موسیقی، ریلزیا ڈرامے انھیں انڈیا میں بڑے پیمانے پر دیکھا اور سراہا جاتا ہے۔
لیکن فی الحال ان کے انڈین شائقین ان کے انسٹاگرام اکاؤنٹ نہیں دیکھ پائیں گے۔ کیونکہ وہاں کے لوگ جب آپ ان کا انسٹاگرام اکاؤنٹ کھولیں گے تو یہ دیکھنے کو ملے گا کہ 'یہ اکاؤنٹ انڈیا میں دستیاب نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اس مواد کو محدود کرنے کی قانونی درخواست کی تعمیل کی ہے۔'
درحقیقت پہلگام حملے کے بعد انڈیا اور پاکستان دونوں حکومتوں کی جانب سے کئی سخت اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ سندھ طاس معاہدہ منسوخ کر دیا گیا، پاکستانی شہریوں کو جاری کیے گئے ویزے منسوخ کر دیے گئے اور انڈیا کی فضائی حدود بھی پاکستانی طیاروں کے لیے بند کر دی گئی ہیں۔
اسی سلسلے میں 30 اپریل کو انڈیا میں نہ صرف متعدد پاکستانی فنکاروں کے انسٹا اکاؤنٹس بلکہ پاکستانی انٹرٹینمنٹ چینلز کے یو ٹیوب اکاؤنٹس تک بھی رسائی بند کر دی گئی ہے۔
اس سے قبل پاکستانی اداکار فواد خان کی انڈین فلم عبیر گلال پر بھی انڈیا میں پابندی لگ چکی ہے۔

کون سے اکاؤنٹس بند کیے گئے؟
ہانیہ عامر کی پنجابی اور بالی وڈ کے گانوں پر بنائی گئی ریلز کو انڈین شائقین نے ہمیشہ پسند کیا ہے۔ لیکن اب ہانیہ کے اکاؤنٹ پر انڈیا میں پابندی لگا دی گئی ہے۔
اس کے علاوہ ماہرہ خان، علی ظفر، عائزہ خان، سجل علی، صنم سعید، مایا علی اور اقرا عزیز حسین کے اکاؤنٹس بھی بند کر دیے گئے ہیں۔
انڈین فلموں میں کام کرنے والے فواد خان کا اکاؤنٹ اب بھی فعال ہے۔ اس مضمون کی اشاعت تک مشہور اداکار وہاج علی، صبا قمر، یمنہ زیدی، مہوش حیات وغیرہ کے اکاؤنٹس ابھی تک فعال ہیں۔

پاکستانی ڈرامہ چینلز بھی بند ہو گئے
زندگی گلزار ہے، ہمسفر، تیرے بن، میرے پاس تم ہو، میم سے محبت، بسمل جیسے کئی ڈرامہ سیریز ہیں جنہیں انڈیا میں خوب دیکھا اور سراہا گیا لیکن اب انڈین صارفین انھیں بھی نہیں دیکھ پائیں گے۔
انڈیا میں ہم ٹی وی اور اے آر وائی ڈیجیٹل چینلز بند کر دیے گئے ہیں۔ جب آپ ان چینلز کو کھولنے کی کوشش کریں گے تو ایک پیغام نظر آئے گاکہ 'یہ مواد فی الحال اس ملک میں دستیاب نہیں ہے کیونکہ حکومت کی جانب سے اس سے متعلق قومی سلامتی یا امن عامہ سے متعلق حکم ہے۔'
'حکومت سے ہٹانے کی درخواستوں کے بارے میں مزید تفصیلات کے لیے، براہ کرم گوگل ٹرانسپیرنسی رپورٹ ملاحظہ کریں۔'
اس سے قبل انڈیا نے 16 پاکستانی یوٹیوب چینلز کو بھی بلاک کیا تھا جن میں ڈان، جیو نیوز، سماء، دی پاکستان ایکسپیریئنس وغیرہ شامل ہیں۔

سوشل میڈیا پر میمز کا سیلاب
انڈین حکومت کے اس فیصلے کے بعد سوشل میڈیا پر میمز کا سیلاب آگیا ہے۔ ہانیہ عامر کے انسٹاگرام پر پابندی کے حوالے سے سب سے زیادہ میمز بنائے جا رہے ہیں۔ خبریں ہیں کہ ہانیہ عامر دلجیت دوسانجھ کے ساتھ ایک فلم کر رہی ہیں۔
فلم غدر کے بہت سے ڈائیلاگ ٹرینڈ کر رہے ہیں اور دونوں ممالک سے اس پر ریلیز اور میمز بن رہے ہیں۔
اس کے علاوہ اس معاملے پر سوشل میڈیا پر بحث بھی جاری ہے جس میں کچھ لوگ انڈین حکومت کے اس فیصلے کا احترام کر رہے ہیں اور کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ان کا قصور کیا ہے۔

جاوید اختر نے کیا کہا؟
اس سب کے درمیان مصنف اور نغمہ نگار جاوید اختر کا انڈین نیوز ایجنسی پی ٹی آئی کو دیا گیا انٹرویو وائرل ہو رہا ہے۔
اس بات چیت میں انھوں نے کہا کہ 'پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمیں پاکستانی فنکاروں کو انڈیا آنے کی اجازت دینی چاہیے؟ اس پر دو مکاتب فکر ہیں اور دونوں صحیح معلوم ہوتے ہیں۔ اب تک یہ سب یک طرفہ رہا ہے۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'نصرت فتح علی خان انڈیا آئے، مہندی حسن انڈیا آئے، غلام علی انڈیا آئے، نور جہاں بھی ایک بار انڈیا آئیں، ہم نے ان کے لیے بڑی بڑی استقبالیہ تقریبات منعقد کیں، کئی بڑی تقریبات منعقد ہوئیں، بہت اچھی پرفارمنس ہوئی۔'
'فیض احمد فیض برصغیر کے عظیم شاعر تھے۔ میں انھیں پاکستانی نہیں کہوں گا کیونکہ وہ پاکستان میں رہتے تھے، کیونکہ وہ وہیں پیدا ہوئے تھے۔ لیکن وہ برصغیر کے شاعر تھے۔ وہ امن اور محبت کے شاعر تھے۔ جب وہ انڈیا آئے توان کے ساتھ ملک کے سربراہ جیسا سلوک کیا جاتا تھا۔'
جاوید اختر نے کہا 'میرا مطلب ہے کہ جس طرح حکومت نے ان کی دیکھ بھال کی اور ان کی دیکھ بھال کی۔ مجھے نہیں لگتا کہ وہاں ایسا ہوا ہے۔ مجھے پاکستان کے لوگوں سے کوئی شکایت نہیں ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ وہ ان سے محبت کرتے ہیں۔'
ان کا مزید کہنا تھا کہ 'پاکستان کے عظیم شاعروں نے لتا منگیشکر پر نظمیں لکھی ہیں۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ لتا منگیشکر 60 اور 70 کی دہائی میں پاکستان میں سب سے زیادہ مقبول انڈین تھیں۔ لیکن لتا منگیشکر کا پاکستان میں کوئی فنی مظاہرہ کیوں نہیں تھا؟'
'ہم نے ان کے فنکاروں کو کھلے دل سے گلے لگایا، لیکن ان کی حکومت نے ہمارے لیے ایسا کبھی نہیں کیا۔'
فنکاروں پر پابندیاں کیا حل لائیں گی؟
تھیٹر نے ہمیشہ دونوں ملکوں کی سرحدوں کو جوڑا ہے۔ پاکستانی تھیٹر کے نامور فنکار انڈیا میں اپنے فن کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں لیکن اب یہ سب ممکن نظر نہیں آتا۔
بی بی سی پنجابی نے اس بارے میں پنجابی ڈرامہ نگار اور تھیٹر ڈائریکٹر کیول دھالیوال سے بات کی۔
کیول دھالیوال کا کہنا ہے کہ ان سیاسی مسائل کو حکومتوں کے درمیان اپنے طریقے سے حل کرنا چاہیے۔ فنکاروں پر پابندی لگا کر مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔
'فنکار محبت کا پیغام دیتے ہیں، بلکہ ایسے حالات میں وہ دونوں ملکوں کے درمیان خلیج کے بجائے پل کا کام کرتے ہیں۔ جنگ کسی مسئلے کو حل نہیں کر سکتی، انسانیت کو ترجیح دینی چاہیے۔ پابندیوں کا تو کیا، یہ پہلے بھی کئی بار لگائی گئی ہیں، اور آئندہ بھی لگتی رہیں گی۔ لیکن اس سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔'
فلم ساز پالی بھوپندر اسے سیاست کی ناکامی سمجھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہماری سیاست میں نظریے کا فقدان ہے۔
وہ کہتے ہیں، 'سیاست بھی معاشرے کو چلاتی ہے۔ کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت اسے سمجھنا پڑتا ہے۔ فنکار ہمیشہ دو قوموں کے درمیان سمجھوتہ کرتے ہیں۔ وہ معاشرے کے آخری پل کو محفوظ رکھتے ہیں۔'
'اس طرح کے فیصلے صرف نفرت میں اضافہ کریں گے، ثقافتی تعلق کو توڑیں گے اور آنے والی نسل کو مزید نفرت سے بھریں گے۔ اس طرح کے فیصلے نفرت کی فضا پیدا کرتے ہیں۔'