صوبہ سندھ میں حالیہ دنوں میں ان آن لائن فراڈ نیٹ ورکس کے خلاف کریک ڈاؤن تیز کر دیا گیا ہے جو ’جز وقتی ملازمت‘ یا ’گھر بیٹھے پیسے کمائیں‘ جیسے پُرکشش اشتہاروں کے ذریعے شہریوں کو لوٹ رہے ہیں۔یہ نیٹ ورکس سوشل میڈیا، واٹس ایپ گروپس، یا مشہور ویب سائٹس پر اشتہارات کے ذریعے بے گناہ شہریوں، بالخصوص طلبہ اور گھریلو خواتین کو نشانہ بنا رہے ہیں۔یہ پارٹ ٹائم نوکری کا فراڈ ہے کیا؟جعل سازی کی ان سرگرمیوں میں عموماً یہ وعدہ کیا جاتا ہے کہ روزانہ صرف دو سے تین گھنٹے کام کر کے ہزاروں روپے کمائے جا سکتے ہیں۔ کام کی نوعیت بتائی جاتی ہے جن میں آن لائن ریویوز دینا، کلکنگ، ڈیٹا انٹری یا یوٹیوب ویوز بڑھانا شامل ہوتا ہے۔لیکن حقیقت میں یہ نیٹ ورکس ابتدا میں رجسٹریشن فیس یا سافٹ ویئر خریدنے کے نام پر رقم لیتے ہیں، اور بعد میں یہ کام دیتے ہیں اور نہ ہی ایڈوانس میں لی گئی رقم واپس کرتے ہیں۔ کئی کیسز میں یہ گروہ ابتدا میں رقم کی ادائیگی کر کے متاثرہ افراد کا اعتماد جیتتے ہیں اور پھر بڑی رقم لے کر غائب ہو جاتے ہیں۔کراچی ایسٹ پولیس کے ترجمان محمد عمر کے مطابق عوام کی آگاہی کے لیے پولیس کی جانب سے یہ مہم چلائی جارہی ہے تاکہ شہریوں کو ایسی جعل سازیوں سے بچایا جاسکے۔ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ چند ماہ میں پارٹ ٹائم جاب فراڈ سے متعلق شکایات میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ درجنوں واقعات سامنے آئے ہیں جن میں شہریوں سے ایڈوانس کے نام پر پیسے لے کر انہیں کوئی کام نہیں دیا گیا۔وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کے سابق افسر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ان جعل سازوں کا نیٹ ورک بہت منظم انداز میں کام کرتا ہے۔ کئی کیسز میں یہ نیٹ ورکس بیرون ممالک کے آئی ڈیز سے بھی آپریٹ ہو رہے ہوتے ہیں، جبکہ ان کے مقامی ایجنٹ کراچی کے لوگوں سے موبائل بینکنگ اور جاز کیش کے ذریعے رقم وصول کرتے ہیں۔‘متاثرین کی کہانیاںناظم آباد کی رہائشی صبا فیض نے بتایا کہ انہیں فیس بک پر ایک اشتہار دکھائی دیا جس میں لکھا تھا کہ گھر بیٹھے پانچ ہزار روپے روزانہ کمائیں۔ جب صبا نے رابطہ کیا تو انہوں نے ان سے 15 سو روپے اکاؤنٹ ایکٹیویشن کے لیے مانگے۔ صبا کے مطابق انہوں نے فوری طور پر 15 سو روپے دے دیے لیکن اس کے بعد نہ کام ملا نہ ان کا کوئی جواب آیا۔ایک اور متاثرہ طالب علم اسد کا کہنا تھا کہ ’انہوں نے شروع میں مجھے روزانہ پانچ سو روپے دیے، میں خوش ہو گیا۔ پھر مجھ سے ایک بہتر پلان میں اَپ گریڈ ہونے کے لیے کہا، جس کے لیے 10 ہزار روپے مانگے۔ میں نے جیسے ہی رقم ادا کی تو انہوں نے مجھے بلاک کر دیا۔‘
ایف آئی اے کے مطابق ایسے فراڈز کی روک تھام کے لیے ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ رابطے میں ہیں (فوٹو: سندھ پولیس)
ایف آئی اے اور سائبر کرائم یونٹ کا کردار
ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کے مطابق ایسے فراڈز کی روک تھام کے لیے ویب سائٹس اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ رابطے میں ہیں تاکہ جعلی اشتہارات فوری طور پر ہٹائے جا سکیں۔ماہرین کی رائےسائبر سکیورٹی ماہرین کے مطابق ایسے دھوکے باز افراد خود کو قانونی ظاہر کرنے کے لیے فیک ویب سائٹس، جعلی کمپنی رجسٹریشنز اور مصنوعی ریویوز کا سہارا لیتے ہیں۔ماہر قانون ڈاکٹر نعمان احمد کا کہنا ہے کہ ’جب تک متاثرہ افراد سامنے آ کر قانونی کارروائی نہیں کریں گے، ان گروہوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی مشکل ہو گی۔‘پارٹ ٹائم جاب کے نام پر ہونے والا فراڈ کوئی معمولی معاملہ نہیں۔ اس نے کئی گھروں کے خواب چکنا چور کیے ہیں۔ سندھ پولیس کا حالیہ اقدام قابلِ تحسین ہے، لیکن اس کا دائرہ کار بڑھانے اور عوامی آگاہی مہم شروع کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ کوئی اور بے گناہ شہری ان جعلی وعدوں کے جال میں نہ پھنسے۔