پاکستان کی وفاقی حکومت نے معذور افراد کے لیے ٹیکس سے مستثنیٰ گاڑیوں کی درآمد کی اجازت دے رکھی ہے، تاہم پیچیدہ سرکاری طریقہ کار اور منظوری کے طویل مراحل کے باعث مستحق افراد کو ان گاڑیوں کے حصول میں کئی برس کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔مری سے تعلق رکھنے والے شہری محمود الحسن عباسی کو بھی اسی قسم کی تاخیر کا سامنا کرنا پڑا، جنہوں نے پہلی مرتبہ سال 2017 میں ڈیوٹی فری گاڑی کے لیے وفاقی حکومت سے اجازت حاصل کرنے کا عمل شروع کیا، مگر کئی برسوں کی کوشش کے باوجود کامیابی حاصل نہ کر سکے۔انہوں نے وفاقی نظام سے مایوس ہو کر بالآخر سال 2023 میں پنجاب حکومت سے رجوع کیا۔ وہاں بھی قریباً ڈیڑھ سال کے انتظار کے بعد اُن کا عمل مکمل ہوا، لیکن مجموعی طور پر انہیں یہ پورا عمل مکمل کرنے میں آٹھ برس لگ گئے۔ اس دوران وہ اپنی تعلیم مکمل کر کے پیشہ ورانہ میدان میں بھی قدم رکھ چکے تھے۔محمود الحسن نے اردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ انہوں نے جولائی یا اگست 2017 میں معذور افراد کے حقوق سے متعلق ادارے (سی آر پی ڈی) کو درخواست دی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ انہیں بتایا گیا کہ چھ ماہ بعد ان کا حتمی انٹرویو ہوگا، لیکن 2017 سے 2023 کے دوران وفاقی سطح پر ایک بھی انٹرویو نہیں لیا گیا۔پنجاب حکومت سے رجوعمحمود الحسن عباسی نے کہا کہ ’چھ سال گزر جانے کے باوجود جب کوئی پیش رفت نہ ہوئی تو اُنہیں سی آر ڈی پی کے ایک افسر نے ہی مشورہ دیا کہ وہ اگر پنجاب حکومت سے رجوع کریں تو ان کا کیس جلد نمٹایا جا سکتا ہے۔‘انہوں نے مزید وقت ضائع نہیں کیا اور پنجاب حکومت سے رجوع کیا۔ محمود الحسن کے مطابق انہوں نے 2023 میں پنجاب حکومت کو نئی درخواست جمع کروائی، مگر وہاں بھی انتظار کی گھڑیاں طویل رہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ’چند روز قبل بالآخر پنجاب حکومت کے توسط سے میرا کیس وفاقی وزارتِ تجارت تک پہنچا، اور مجھے یہ اطلاع دی گئی کہ میری درخواست منظور کر لی گئی ہے۔‘محمود الحسن کا کہنا تھا کہ ’ان کے مشاہدے کے مطابق پنجاب کی ٹیم نسبتاً زیادہ متحرک اور فعال ہے۔ اگرچہ وہاں کی رفتار مثالی نہیں، لیکن وفاقی نظام کے مقابلے میں خاصی بہتر ہے۔ اسلام آباد میں سی آر پی ڈی کے دفاتر پرآسائش اور سہولیات سے آراستہ ہیں، مگر عملی کارکردگی صفر کے برابر ہے۔‘انہوں نے وضاحت کی کہ ’یہ سکیم درحقیقت صرف جسمانی طور پر معذور افراد کے لیے مختص ہے۔ یعنی وہ شہری جو ہاتھ یا پاؤں کے استعمال سے محروم ہوں۔ نابینا افراد اس سہولت کے اہل نہیں۔ ان معذور افراد کے لیے خصوصی طور پر تیار کردہ گاڑیاں فراہم کی جاتی ہیں، جن میں ہاتھ سے چلنے والے کنٹرول یا دیگر معاون آلات نصب ہوتے ہیں۔‘
معذور افراد کے لیے مخصوص پالیسی 2020 میں متعارف کرائی گئی (فوٹو: اے ایف پی)
حتمی منظوری وزارتِ تجارت دیتی ہے، ڈپٹی ڈائریکٹر سی آر پی ڈی
اردو نیوز نے اس پالیسی پر ادارہ برائے بحالی معذوراں (سی آر پی ڈی) کے ڈپٹی ڈائریکٹر رانا طارق علی خان سے گفتگو کی۔ ان کے مطابق، معذور افراد کے لیے ڈیوٹی فری گاڑی کی فراہمی وزارتِ تجارت کے دائرہ اختیار میں آتی ہے، جبکہ سی آر پی ڈی کا کردار صرف درخواست گزار کی اہلیت جانچنے تک محدود ہے۔انہوں نے بتایا کہ ’درخواست دہندگان تحریری درخواست جمع کرواتے ہیں، جس کے بعد انہیں نرگس میمن ہسپتال (نرم ہسپتال) بھیجا جاتا ہے، جہاں ڈاکٹر فرید اللہ زمری کی سربراہی میں قائم میڈیکل بورڈ ان کا انٹرویو اور جائزہ لیتا ہے۔ درخواست گزار اگر معیار پر پورا اترے تو اُسے سی آر پی ڈی واپس بھیجا جاتا ہے جہاں سے اسے اہلیت کا سرٹیفکیٹ جاری کر دیا جاتا ہے۔‘رانا طارق کے مطابق میڈیکل بورڈ کا ہر 15 دن بعد اجلاس کرتا ہے اور ماہانہ قریباً ایک درجن درخواستیں موصول ہوتی ہیں۔ حتمی منظوری، درآمدی اجازت نامہ اور دیگر تمام مراحل وزارتِ تجارت اور متعلقہ ادارے انجام دیتے ہیں۔وزارتِ تجارت کی پالیسیمعذور افراد کے لیے مخصوص پالیسی 2020 میں متعارف کرائی گئی، جس کا مقصد جسمانی معذوری کے شکار افراد کو آمد و رفت میں سہولت فراہم کرنا ہے۔ صرف وہی شہری اس سہولت سے مستفید ہو سکتے ہیں جو پیدائشی یا کسی حادثے کے باعث ہاتھ یا پاؤں کے استعمال سے محروم ہوں۔ ذہنی معذوری یا عمر رسیدگی کی بنیاد پر یہ سہولت فراہم نہیں کی جاتی۔پالیسی کے مطابق درآمد کی جانے والی گاڑی بالکل نئی ہونی چاہیے اور اس کا انجن 1350 سی سی سے زائد نہ ہو۔ اسے معذور افراد کی ضرورت کے مطابق تیار کیا گیا ہو، مثلاً اس میں ہاتھ سے کنٹرول کرنے والا نظام یا دیگر معاون آلات نصب ہوں۔اس عمل کے لیے معذوری کا تصدیقی سرٹفیکیٹ، میڈیکل بورڈ کی رپورٹ اور دیگر لازمی دستاویزات درکار ہوتی ہیں۔ منظوری کے بعد وزارتِ تجارت درآمدی اجازت نامہ جاری کرتی ہے۔ یہ گاڑی صرف ذاتی استعمال کے لیے مخصوص ہوتی ہے اور اسے فروخت نہیں کیا جا سکتا۔ تین پہیوں والی موڈیفائیڈ موٹر سائیکل کی درآمد کی بھی اجازت ہے، بشرطیکہ وہ مخصوص معذوری کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے تیار کی گئی ہو۔
گاڑی امپورٹ کرنے کا یہ پورا عمل کئی مہینوں یا برسوں پر محیط ہو سکتا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
درخواست جمع کروانے کا طریقہ کار
ڈیوٹی فری گاڑی کے حصول کے لیے معذور افراد سب سے پہلے سی آر پی ڈی یا متعلقہ ادارے میں درخواست جمع کرواتے ہیں، جس کے ساتھ شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس، معذوری کا سرٹیفکیٹ، آرتھوپیڈک ڈاکٹر کی رپورٹ، آمدنی کا ثبوت، اور ایک حلف نامہ منسلک کرنا ضروری ہوتا ہے۔ بعدازاں انہیں نرم ہسپتال بھیجا جاتا ہے، جہاں میڈیکل بورڈ ان کی مکمل جانچ کرتا ہے۔ کامیاب درخواست دہندگان کو سی آر پی ڈی سے اہلیت کا سرٹیفکیٹ جاری کیا جاتا ہے، جس کی بنیاد پر وزارتِ تجارت درآمدی اجازت نامہ اور نو آبجیکشن سرٹیفکیٹ جاری کرتی ہے۔تاہم یہ پورا عمل کئی مہینوں یا برسوں پر محیط ہو سکتا ہے۔ اس کی شفافیت، سہولت اور رفتار بہتر بنانے کے لیے حکومتی سنجیدگی اور مؤثر اصلاحات نہایت ضروری ہیں۔شہری جب وزارتِ تجارت سے درآمدی اجازت نامہ حاصل کر لیتے ہیں، تو پھر وہ پالیسی کے مطابق اپنی پسند کی گاڑی متعلقہ کمپنی سے بُک کروا سکتے ہیں۔