ٹرانزٹ اور ری فیولنگ کے سٹریٹجک مرکز تک، گوادر ایئرپورٹ کا سفر

image

نور محمد 50 برس قبل عمان کے دارالحکومت مسقط گئے تھے۔ وہاں پر انہوں نے پولیس کی نوکری کی اور اب ریٹائرڈ ہو کر کوئی کاروبار کرنے کا سوچ رہے ہیں۔

نور محمد کے بچے بھی مسقط کے ہی رہائشی ہیں تاہم ان کے کئی قریبی رشتہ دار پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے جنوب مغربی ساحلی شہر گوادر میں قیام پذیر ہیں جن سے ملنے وہ کبھی کبھار یہاں آتے ہیں اور چند دن کے قیام کے بعد واپس عمان چلے جاتے ہیں۔

نور محمد کا ارادہ ہے کہ اب وہ باقاعدگی سے پاکستان آیا کریں اور کاروبار بھی ایسا کریں جو گوادر اور مسقط دونوں جگہ چلے۔

حال ہی میں تعمیر ہونے والے نئے گوادر ایئرپورٹ کے انٹرنیشنل ڈیپارچر لاؤنج میں روایتی جبہ اور ٹوپی پہنے نور محمد مسقط کی فلائٹ میں بیٹھنے کے لیے تیار ہیں اور ایک سرشاری کے ساتھ اپنے مستقبل کے عزائم سے آگاہ کر رہے ہیں۔

 

وہ بتاتے ہیں کہ ان کی سوچ میں تبدیلی کی بڑی وجہ پاکستان اور عمان کے سفر میں آنے والی آسانی ہے جو 20 جنوری 2025 کو کھلنے والے اس نئے ایئرپورٹ کے آغاز کے بعد پیدا ہوئی ہے۔

پاکستان نے چین کی مدد سے تقریبا 240 ملین ڈالر کی لاگت سے گوادر میں نیا انٹرنیشنل ایئرپورٹ تعمیر کیا جس کا بنیادی مقصد مستقبل میں گوادر کی گہرے سمندر کی بندرگاہ پر ہونے والے بین الااقوامی کاروبار کے لیے سرمایہ کاروں، صنعتکاروں، تاجروں اور سیاحوں کو سفر کی بہترین سہولیات فراہم کرنا ہے۔

چار ہزار 300 ایکڑ (17 مربع کلومیٹر) پر پھیلا ہوا یہ نیو گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ (این جی آئی اے) پاکستان کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا ہوائی اڈہ ہے جس پر دنیا کے سب سے بڑے مسافر بردار طیارے بھی اتر سکتے ہیں۔

یہ ایئرپورٹ پاک چین اقتصادی راہداری کا فلیگ شپ منصوبہ سمجھا جاتا ہے اور حکام اس کو گوادر اور پاکستان کی ترقی کے ایک اہم سنگ میل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

گوادر ایئرپورٹ کے لیے 42 فٹ اونچی اور 14 ہزار مربع میٹر پر مشتمل جدید سہولیات سے آراستہ خوبصورت اور سمارٹ ٹرمینل بلڈنگ تعمیر کی گئی ہے جو ابتدائی طور پر سالانہ چار لاکھ سے زائد مسافروں کو ہینڈل کر سکے گی جبکہ اس کا کارگو ٹرمینل متنوع کارگو اقسام کو سنبھالنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے جس کی صلاحیت سالانہ 30 ہزار ٹن ہے۔

ایئرپورٹ کے قیام نے کئی لوگوں کے لیے رابطے اور کاروبار کی نئی راہ کھولی ہے۔ فوٹو: اردو نیوز

ایئرپورٹ کا رن وے 3658 میٹر لمبا اور 75 میٹر چوڑا ہے اور اس کو 23 میٹر چوڑے ٹیکسی وے سے جوڑا گیا ہے۔

اس رن وے پر 400 سے 500 مسافروں کی گنجائش رکھنے والے ایئربس 380، بوئنگ 747 جیسے دنیا کے بڑے مسافر بردار طیارے بھی لینڈ اور ٹیک آف کر سکتے ہیں۔

اس کے رن وے اور کنٹرول ٹاور پر جدید لینڈنگ آلات نصب کیے گئے ہیں جو یہاں سے دن رات اور ہر موسم میں پروازوں کی آمد اور روانگی ممکن بناتے ہیں۔

نئے ہوائی اڈے میں ہائی ٹیک نیویگیشنل سسٹم، جدید ایئر ٹریفک کنٹرول ٹاور، کریش یا پھر آگ لگنے کی صورت میں ریسکیو، فیول سٹوریج، ڈی سیلینیشن پلانٹ، گرڈ سٹیشن، واٹر سپلائی سسٹم، پی ٹی سی ایل فائبر آپٹک سسٹم اوردیگر سہولیات کی فراہمی کے لیے متعلقہ عمارتیں اور بنیادی ڈھانچہ تعمیر کیا گیا ہے۔

گوادر ایئرپورٹ سے ہفتے میں پانچ پروازیں چلتی ہیں جن میں سے دو عمان کے دارلحکومت مسقط اور تین پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی جاتی ہیں۔

نور محمد کے مطابق اس ایئرپورٹ کے قیام نے ان کے لیے اور ان جیسے دیگر کئی لوگوں کے لیے رابطے اور کاروبار کی نئی راہ کھولی ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’گوادر میں پہلے بہت چھوٹا سا ایئرپورٹ تھا، دور دراز جگہ پر۔ وہاں چھوٹے اترتے تھے، اب یہ نیا ایئرپورٹ ہے، فلائٹ بھی بہتر ہے اور سفر بھی آسان ہو گیا ہے۔‘

مقامی کاروباری افراد کہتے ہیں کہ نیا گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ فوٹو: اردو نیوز

نور محمد پہلے چار، پانچ یا کم سے کم ایک سال بعد پاکستان آتے تھے لیکن اب ہر ماہ آنا چاہتے ہیں کیوں کہ سفر مشکل نہیں رہا۔ ان کی خواہش ہے کہ گوادر کا یہ نیا ایئرپورٹ دنیا کے دوسرے بڑے ایئرپورٹس سے منسلک ہو اور یہاں سے دیگر خطوں کے لیے بھی زیادہ سے زیادہ پروازیں شروع ہوں تاکہ ان کو آمد و رفت کے لیے جہاز کی سستی ٹکٹیں مل سکیں اور وہ یہاں سے دنیا کے ہر ملک میں جا سکیں۔

وہ کہتے ہیں ’اگر ہر ملک سے فلائیٹ آئے گی تو ٹکٹ بھی سستا ہوگا اور ہم آسانی سے آ جا سکیں گے۔ مثلاً اگر ہم بنکاک یا مسقط سے آنا چاہیں تو گوادر براہ راست آ جائیں۔ ادھر سے دوسرے ملکوں میں جانا آسان ہو جائے گا، ہمیں بہت فائدہ ہوگا۔‘

نور محمد مستقبل میں گوادر ایئرپورٹ کو جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کا کاروباری مرکز تصور کر رہے ہیں۔

’اس ایئرپورٹ کو مسقط کے علاوہ دوسرے ممالک جیسے دبئی، مصر, سعودی عرب، اردن، خلیجی ممالک، ازبکستان، قازقستان، ایران میں چاہ بہار اور شیراز وغیرہ سے منسلک کیا جائے تو بہت فائدہ ہو گا اور کاروبار بھی بڑھے گا کیونکہ لوگ ادھر سے آتے جاتے ہیں۔‘

ان کا خیال ہے کہ یہ ایئرپورٹ علاقے میں کارگو کی آمدورفت کا ایک بڑا مرکز بن سکتا ہے اور اس کے لیے کام جلد شروع ہونا چاہیے۔

سی فوڈ کا بڑا کولڈ سٹوریج اور ترسیل

ایئرپورٹ مینیجر خالد کاکڑ، جنہوں نے گوادر میں ایوی ایشن کی بین الااقوامی معیار کی تمام سہولیات فعال کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، بتاتے ہیں کہ ایئرپورٹ کا کارگو ٹرمینل گوادر کے گہرے سمندر کو مدنظر رکھتے ہوئے سی فوڈ کے بڑے کولڈ سٹوریج سے آراستہ کیا جا رہا ہے اور اس کا بیشتر کام رواں سال اگست میں مکمل ہو جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ گوادر کی مقامی کاروباری برادری سی فوڈ کولڈ سٹوریج کے علاوہ دیگر اشیا کے زخیرے اور ان کی ترسیل کے نظام میں گہری دلچسپی لے رہی ہے۔

گہرے سمندر کو مدنظر رکھتے ہوئے کارگو ٹرمینل کو سی فوڈ کے بڑے کولڈ سٹوریج سے آراستہ کیا جا رہا ہے۔ فوٹو: اردو نیوز

لیکن عمان کے قومی بنک میں کام کرنے والے امام کریم بلوچ کے لیے نیا گوادر انٹرنیشنل ایئرپورٹ کچھ اور معنی رکھتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ پرانے ایئرپورٹ پر زیادہ سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے اکثر عمان سے براہ راست پرواز نہیں آتی تھی اور انہیں بچوں کے ساتھ کراچی سے بذریعہ سڑک گوادر آنا پڑتا تھا جو کہ ایک انتہائی تکلیف دہ امر تھا۔

 

’پہلے پرانے ایئرپورٹ سے پروازیں بند ہوتی تھیں تو ہم کراچی جاتے تھے۔ کراچی سے یہاں تک نو گھنٹے کا (سڑک کا) سفر تھا۔ آپ کو پتہ ہے، گاڑی کا سفر بڑا لمبا ہوتا ہے۔ تو جو فیملی والے آتے تھے، وہ بہت تنگ ہو جاتے تھے۔ آٹھ نو گھنٹے کا سفر تھا۔ اب یہ فلائٹ کھل گئی ہے تو مکران بیلٹ، گوادر بیلٹ کے لوگوں کے لیے بہت بڑی سہولت ہو گئی ہے۔‘

امام کریم بلوچ اور نور محمد کی طرح گوادر کے بیسیوں شہری عمان میں رہتے ہیں، وہاں نوکریاں اور کاروبار کرتے ہیں اور وہاں کی شہریت رکھتے ہیں۔ یہ سلسلہ 1958 سے پہلے کا چل رہا ہے جب پاکستان نے گوادر کو عمان سے 30 لاکھ امریکی ڈالرز میں خرید کر اپنا حصہ بنایا تھا۔

یہ لوگ باقاعدگی سے گوادر اور پاکستان کے دوسرے شہروں بالخصوص کراچی آتے جاتے ہیں اور انٹرنیشنل سہولیات سے مزین اس نئے ایئرپورٹ کو اپنے سفر کے لیے ایک سنگ میل قرار دے رہے ہیں۔

گوادر ایئرپورٹ: خطے کا ٹرانزٹ اور ری فیولنگ مرکز

امام کریم بلوچ نے تجویز دی کہ گوادر ایئرپورٹ کو بڑے جہازوں کے لیے زیادہ استعمال کیا جائے اور کراچی اور عمان کے درمیان ٹرانزٹ ایئرپورٹ مقرر کیا جائے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’گوادر سے چھوٹا طیارہ (اے ٹی آر ) مسقط بھیجنے کی بجائے کراچی اور گوادر سے ایک ہی بڑا جہاز مسقط روانہ کیا جائے جس کا روٹ  کراچی-گوادر-مسقط اور پھر واپسی پر مسقط-گوادر-کراچی ہو۔‘

خالد کاکڑ بتاتے ہیں کہ گوادر سے مزید قومی اور بین الااقوامی پروازوں اور بڑے جہازوں کی آمدو رفت کے لیے بھی ابتدائی تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں۔

’بہت ساری ایئرلائنز کے ساتھ گوادر سے پروازوں کے آغاز کے لیے بات چیت ہو ئی ہے۔ غیر ملکی ایئرلائنز سلام ایئر، کچھ چینی ایئرلائنز اور فلائی جناح نے گوادر سے پروازیں چلانے کے لیے دلچسپی ظاہر کی ہے۔‘

ایئرپورٹ مینیجر کے مطابق اس ایئرپورٹ کو ایک سٹیٹ آف دی آرٹ ماڈل کے طور پر ڈیزائن کیا گیا۔ فوٹو: اردو نیوز

خالد کاکڑ کے مطابق گوادر ایئرپورٹ ٹرانزٹ مرکز کے علاوہ دنیا بھر کی ایئرلائنز کے لیے اس خطے میں ری فیولنگ کی ایک بہت بڑی سہولت بننے جا رہا ہے۔

’گوادر ایئرپورٹ ایک ٹرانزٹ ہب کے طور پر ایک بہت اہم رول ادا کر رہا ہے۔ ہر لحاظ سے بہت سی ایئرلائنز کے لیے موزوں ہے کہ وہ یہاں سے ایندھن بھروائیں۔ ان کو کافی فائدہ ہے، خاص طور پر ٹائم بچانے کے لحاظ سے۔‘

’کوئی بھی ایئرلائن چاہے کہ یہاں سے ری فیولنگ کرے، تو وہ یہاں سے کر سکتی ہے۔ یہاں پاکستان سٹیٹ آئیل یہاں ری فیولنگ کی ایک بڑی سہولت قائم کر رہا ہے جس میں وقت اور ضرورت کے ساتھ مزید وسعت لائی جا سکتی ہے۔‘

سٹیٹ آف دی آرٹ سٹریٹجک ایئرپورٹ

خالد کاکڑ نے بتایا کہ ہر ایئرپورٹ کی تعمیر کے وقت دو عوامل کو مدنظر رکھا جاتا ہے جن میں ایک مسافروں کے لیے سہولیات اور دوسرا کارگو کی صلاحیت ہوتی ہے اور گوادر ایئرپورٹ ان دونوں شعبوں کے لیے انتہائی مددگار ہے۔

’چونکہ گوادر ایک پورٹ سٹی ہے، بندرگاہ اور ایئرپورٹ کا بہت گہرا تعلق ہوتا ہے، اور یہ ایک دوسرے پر انحصار بھی کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے گوادر ایئرپورٹ کی ساخت اور افادیت پر سٹریٹیجک پہلو سے بہت زیادہ توجہ مرکوز کی گئی تا کہ اس کا کوئی بھی عنصر مسافروں اور کاروباری لحاظ سے کمزور نہ ہو۔‘

ایئرپورٹ مینیجر کا کہنا تھا کہ ’ان سٹریٹجک عوامل کو دیکھتے ہوئے اس ایئرپورٹ کو ایک سٹیٹ آف دی آرٹ ماڈل کے طور پر ڈیزائن کیا گیا ہے۔‘


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.