پولیس حکام کے مطابق پرنسپل کے قتل کے الزام میں اس بچے کے ماموں کو گرفتار کر لیا گیا ہے جنھیں پیٹا گیا تھا اور قتل کا مقدمہ کچلاک پولیس اسٹیشن میں درج کیا گیا لیکن مقدمے کی سنگینی کے باعث اسے ’سیریس کرائمز انویسٹیگیشن ونگ‘ (ایس سی آئی ڈبلیو) کے حوالے کیا جا چکا ہے۔
کراچی کے رہائشی سکندر خان دو ماہ قبل ہی بلوچستان کے شہر کوئٹہ کے قریب کچلاک میں واقع ایک نجی سکول میں بطور پرنسپل تعینات ہوئے تھے۔
ان کے بہنوئی محمد تنویر کے مطابق اس سے قبل سکندر بلوچستان میں ہی 20 سال سے موسی خیل اور ہرنائی سمیت دیگر علاقوں میں درس و تدریس سے منسلک تھے۔
تاہم چند دن قبل ان کے سکول میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس کے نتیجے میں پولیس کے مطابق انھیں قتل کر دیا گیا۔
کچلاک پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او محمد اجمل نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پہلی جماعت کے ایک طالب علم محمد کو کلاس میں مبینہ طور پر شور کرنے پر سکندر خان نے تھپڑ مارنے کے علاوہ ان کو پیٹا بھی تھا جس کے تین دن بعد انھیں قتل کر دیا گیا۔‘
بی بی سی اردو کے فیچر اور تجزیے براہ راست اپنے فون پر ہمارے واٹس ایپ چینل سے حاصل کریں۔ بی بی سی اردو واٹس ایپ چینل فالو کرنے کے لیے کلک کریں۔
پولیس حکام کے مطابق پرنسپل کے قتل کے الزام میں اس بچے کے ماموں کو گرفتار کر لیا گیا ہے جنھیں پیٹا گیا تھا اور قتل کا مقدمہ کچلاک پولیس اسٹیشن میں درج کیا گیا لیکن مقدمے کی سنگینی کے باعث اسے ’سیریس کرائمز انویسٹیگیشن ونگ‘ (ایس سی آئی ڈبلیو) کے حوالے کیا جا چکا ہے۔
ایس سی آئی ڈبلیو کے انویسٹیگیشن شعبے کے سربراہ ایس ایس پی سید صبور آغا نے بی بی سی کو بتایا کہ ملزم سے آلہ قتل بازیاب کروانے کے بعد عدالت سے 7 روز کا ریمانڈ حاصل کر لیا گیا ہے۔
راضی نامہ اور معافی
کچلاک پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او محمد اجمل نے بی بی سی کو بتایا کہ ’نجی سکول میں پہلی جماعت کے طالب علم کو کلاس میں شور کرنے پر تھپڑ مارنے کا واقعہ 2 جون کو پیش آیا تھا۔‘
یہ معاملہ پولیس تک جا پہنچا اور کچلاک پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او محمد اجمل کے مطابق ’پرنسپل کے قتل سے ایک روز پہلے بچے کے والد سے ان کا راضی نامہ بھی ہوا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ دونوں کے درمیان راضی نامہ کچلاک پولیس سٹیشن میں ہی طے پایا تھا۔
ایس سی آئی ڈبلیو کے تفتیشی ونگ کے سربراہ صبور آغا نے بتایا کہ ’راضی نامے کے لیے پرنسپل نے بچے کے والد کو دس ہزار روپے کی ادائیگی بھی کی تھی۔‘
کچلاک کے ایس ایچ او محمد اجمل کہتے ہیں کہ ’بچے کے والد نے پرنسپل کو معاف کر دیا اور راضی نامے کے بعد کہا کہ اب وہ کوئی قانونی چارہ جوئی نہیں کریں گے۔‘
کچلاک پولیس سٹیشن کے ایس ایچ او محمد اجمل نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پہلی جماعت کے ایک طالب علم محمد کو کلاس میں مبینہ طور پر شور کرنے پر سکندر خان نے تھپڑ مارنے کے علاوہ ان کو پیٹا بھی تھا جس کے تین دن بعد انھیں قتل کر دیا گیا‘قتل کیوں ہوا؟
ایس ایچ او محمد اجمل کا دعوی ہے کہ راضی نامے کے باوجود بچے کے ماموں کے دل میں رنج باقی تھا۔
سکندر خان کے قتل کی ایف آئی آر کچلاک پولیس اسٹیشن میں پولیس ہی کے سب انسپکٹر سہیل ندیم کی مدعیت میں درج کی گئیجس کے مطابق پانچ جولائی کو وہ کچلاک میں کلی آٹوزئی روڈ پر گشت کر رہے تھے جب انھیں اطلاع ملی کہ ایک نجی اسکول کے پرنسپل سکندر خان کو کسی نے چھری مار کر قتل کر دیا ہے۔
ایف آئی آر کے متن کے مطابق ’جب سب انسپکٹر سہیل ندیم نجی سکول کے قریب پہنچے تو باہر گلی میں ایک شخص کی نعش خون میں لت پت پڑی تھی اور مقتول کے سر، سینے، پیٹ اور بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر زخم کے نشان تھے۔‘
کچلاک پولیس کے ایس ایچ او نے بتایا کہ ’قتل کا یہ واقعہ سنگین نوعیت کے کیسز کے ذمرے آتا ہے اس لیے اسے ایس سی آئی ڈبلیو کے حوالے کردیا گیا ہے۔‘
ایس سی آئی ڈبلیو کے تفتیشی ونگ کے سربراہ صبور آغا نے بتایا کہ ’ملزم نے قتل کے لیے جو آلہ استعمال کیا تھا وہ برآمد کر لیا گیا ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’ملزم کو متعلقہ مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرکے 7 روزہ ریمانڈ حاصل کیا گیا اور واقعے کی مختلف پہلووں سے تحقیقات جاری ہیں۔‘
’ہماری بھرپور کوشش ہو گی کہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے تحقیقات ہر طرح سے مکمل ہوں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’تفتیش مکمل ہونے کے بعد مقدمے کا چالان متعلقہ عدالت میں جمع کیا جائے گا۔‘
قتل کیے جانے والے پرنسپل کون تھے؟
کچلاک میں قتل ہونے والے نجی سکول پرنسپل سکندر خان کا تعلق کراچی سے تھا۔ بی بی سی کو دستیاب معلومات کے مطابق کراچی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھوں نے درس و تدریس کا پیشہ اپنایا اور بلوچستان چلے آئے۔
ان کے بہنوئی کے مطابق ’سکندر خان شادی شدہ تھے اور ان کے دو بچوں میں ایک بیٹا اور ایک بیٹی شامل ہیں جن کی عمریں7 سے 10 سال کے درمیان ہیں۔‘
محمد تنویر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’سکندر بلوچستان کے پسماندہ ترین علاقے موسیٰ خیل، ہرنائی اور دیگر علاقوں میں بھی پڑھاتے رہے۔‘
دو ماہ قبل ہی انھوں نے کوئٹہ شہر سے اندازاً 25کلومیٹر دور کچلاک میں ایک نجی پرائمری اسکول میں ملازمت اختیار کی جبکہ اس سے پہلے وہ کوئٹہ میں پڑھا رہے تھے۔
محمد تنویر نے بتایا کہ ’سکندر کی اہلیہ اور بچے انھیں کہتے رہتے تھے کہ وہ کراچی واپس آ جائیں۔ اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ ان کو ایک معمولی بات پر اس بیدردی کے ساتھ قتل کر دیا جائے گا تو ہم ان کو کبھی بھی وہاں جانے نہیں دیتے۔‘
سکندر خان کے ساتھ کام کرنے والے ایک استاد نے بی بی سی سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’سکندر ایک محنتی اور تجربہ کار ٹیچر تھے اور اسی لیے سکول پرنسپل کا عہدہ ان کو دیا گیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’سکول کے مالک سکندر کو شراکت داری کی بھی پیشکش کی تھی اور سکندر نے اس بات پر آمادگی ظاہر کی تھی کہ وہ اپنی بیوی اور بچوں کو کراچی سے یہاں منتقل کریں گے۔‘
’لیکن ان کی ناگہانی موت نے انھیں اس کا موقع ہی نہیں دیا۔‘
درایں اثنا آل پاکستان پرائیویٹ سکولز فیڈریشن بلوچستان کے صدر نذر بڑیچ اور دیگر عہدیداروں نے ہرنسپل کےقتل کی مذمت کی ہے ۔
اس سلسلے میں فیڈریشن کے عہدیداروں کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق ’بچے کے خاندان اور پرنسپل کے درمیان ایک راضی نامہ ہو چکا تھا اور پرنسپل نے خاندان کو دس ہزار روپے بھی ادا کر دیے تھے تاہم اس کے باوجود ایک انسان کی جان لے لی گئی۔‘
فیڈریشن نے واقعے کے بارے میں تحقیقات کرنے اور واقعے میں بالواسطہ یا بلاواسطہ ملوث تمام افراد کو شامل تفتیش کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔