فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل، سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کر لیا

image
سپریم کورٹ نے خصوصی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔

پیر کو سماعت کے موقع پر جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ محفوظ فیصلہ ہے اور اسی ہفتے سنا دیا جائے گا۔

سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی سماعت کے دوران حساس قانونی نکات، 9 مئی کے واقعات، فوجی افسران کی سزاؤں اور آئینی و فوجی اختیارات پر بحث ہوئی۔

سات رکنی آئینی بینچ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں قائم ہے، جس میں جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن شامل ہیں۔

سماعت کے دوران اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل کا آغاز کیا اور 9 مئی کے ملک گیر پرتشدد واقعات کا تفصیل سے ذکر کیا۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 9 مئی کو دن تین بجے سے شام تک ملک میں 39 مقامات پر حملے ہوئے، جن میں جی ایچ کیو، لاہور میں کور کمانڈر ہاؤس، ایئربیس میانوالی اور آئی ایس آئی کے دفاتر شامل ہیں۔

انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ ’پنجاب میں 23، خیبر پختونخوا میں آٹھ، سندھ میں سات جبکہ بلوچستان میں ایک واقعہ پیش آیا۔‘

ان کے مطابق ’یہ حملے اتفاقیہ نہیں تھے بلکہ منظم منصوبہ بندی کے تحت کیے گئے اور اگر اس روز لاہور پر بیرونی جارحیت ہوتی تو ہم جواب دینے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔‘

عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا فوج نے اپنے کسی افسر کے خلاف فوجداری کارروائی کی؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کور کمانڈر لاہور سمیت تین اعلیٰ افسران کو بغیر پنشن کے ریٹائرڈ کیا گیا، جبکہ 14 افسران کی کارکردگی پر ناپسندیدگی اور عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا۔

سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آرمی ایکٹ تو واضح کرتا ہے کہ محکمانہ کارروائی کے ساتھ فوجداری سزا بھی دی جاتی ہے۔

سماعت کے دوران جسٹس امین الدین خان نے واضح کیا کہ عدالت اس مقدمے کا شارٹ آرڈر اسی ہفتے جاری کرے گی (فوٹو: اے پی پی)

جسٹس نعیم اختر افغان نے اٹارنی جنرل کو تنبیہہ کی کہ وہ غلط راستے پر چل پڑے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے 9 مئی واقعے کے میرٹ پر کسی کو بات نہیں کرنے دی کیونکہ اس سے ٹرائل اور اپیل پر اثر پڑے گا اور کچھ سوالات کے جوابات شاید ممکن نہ ہوں، جیسے کیا کور کمانڈر لاہور بطور گواہ ٹرائل کورٹ میں پیش ہوئے؟

عدالت نے اس موقع پر آرمی ایکٹ میں ترامیم، اپیلوں کے طریقہ کار اور فوجی عدالتوں کی آئینی حیثیت پر بھی سوالات اٹھائے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ آرمی ایکٹ میں ترمیم کیوں نہیں کی گئی جبکہ آئین میں 26 ویں ترمیم ہو چکی ہے۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ میں ترمیم کیوں نہیں ہو پاتی۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے 86 افراد اب تک اپیلیں دائر کر چکے ہیں جبکہ باقی کو اپیل کے لیے وقت میں نرمی دی جائے گی۔

انہوں نے عدالت سے وقت کی کمی کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ آج میں نے 45 منٹ مانگے تھے، جن میں سے 25 منٹ عدالتی سوالات میں گزر گئے۔

جسٹس  مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ سوال یہ نہیں کہ جرم ہوا یا نہیں، بلکہ سوال یہ ہے کہ اپیل کا جواز کیا ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ جناح ہاؤس کا دروازہ کیسے کھلا؟ اگر اندر سے کھولا گیا تو ملی بھگت کا پہلو بنتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وہ اس پہلو پر وضاحت بعد میں پیش کریں گے۔

سماعت کے دوران عدالت نے آرمی ایکٹ میں ترامیم، اپیلوں کے طریقہ کار اور فوجی عدالتوں کی آئینی حیثیت پر بھی سوالات اٹھائے (فوٹو: اردو نیوز)

سماعت کے دوران جسٹس امین الدین خان نے واضح کیا کہ عدالت اس مقدمے کا شارٹ آرڈر اسی ہفتے جاری کرے گی۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے سپریم کورٹ کے آئینی بینچ سے گزارش کی کہ عدالت سویلینز کو اپیل کا حق دینے کے حوالے سے کوئی واضح آبزرویشن دے تاکہ قانون سازی کی سمت طے ہو سکے۔ انہوں نے اس موقف کو تقویت دینے کے لیے ماضی کے عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیا اور کہا کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا کہنے کی ایک مثال سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی مدتِ ملازمت میں توسیع سے متعلق عدالتی فیصلے میں موجود ہے۔

اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اس فیصلے میں عدالت نے پارلیمنٹ کو باقاعدہ ہدایت جاری کی تھی اور قانون سازی کے لیے چھ ماہ کا وقت بھی دیا گیا تھا۔

  بعد ازاں عدالت نے سماعت مکمل کرتے ہوئے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔

 


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.