ممبئی کے ولے پارلے ریلوے اسٹیشن پر ایک عام سی صبح تھی، لوگ اپنے اپنے راستوں میں مصروف تھے، لیکن اسٹیشن کی سیڑھیوں پر چپکایا گیا پاکستانی پرچم ہر گز معمولی حرکت نہ تھی۔ وہ جھنڈا شاید کسی کے لیے صرف ایک اسٹیکر ہو، مگر ایک باپردہ مسلم لڑکی کے لیے یہ ضمیر کی چوٹ تھا۔ وہ رُکی، جھکی، اور بغیر کچھ کہے اس پرچم کو کھرچنے لگی۔
اچانک ایک ہجوم نے اسے گھیر لیا۔ کوئی اسے غدار کہنے لگا، کوئی پاکستان جانے کا مشورہ دینے لگا۔ ایک شخص نے طنزیہ لہجے میں کہا، "تمہیں پتا ہے آج کل ماحول کیا چل رہا ہے؟"۔ لیکن وہ لڑکی گھبرائی نہیں، نہ ڈری۔ بس اتنا کہا، "کیوں نہیں نکالیں گے؟ ہم نکالیں گے!"، اور جب ایک شخص نے پرچم پر قدم رکھا تو وہ بولی، "پیر مت رکھو!"۔ اس کی آواز میں کوئی جھجک نہ تھی، بلکہ یقین کی دھڑکن تھی۔
ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی، اور وہی عمل جسے ایک باحیا مسلم عورت نے دل کی صفائی سے کیا، شدت پسندوں کے زہریلے بیانیے میں غداری بن گیا۔ اسے "فتنہ پرست"، "پاکستانی ایجنٹ"، اور "ملک دشمن" قرار دیا جانے لگا۔ یہ سب صرف اس لیے کہ اس نے نفرت سے بھری ایک علامت کو اپنے راستے سے ہٹانے کی جرات کی تھی۔
اس واقعے نے صرف ہندو انتہا پسندوں کے چہرے بے نقاب نہیں کیے، بلکہ ان مسلمانوں کو بھی آئینہ دکھا دیا جو سیاست کی کرسیوں پر بیٹھے قوم کے ٹھیکیدار بنے بیٹھے ہیں۔ وہی سیاستدان جو مسلمانوں کے نام پر ووٹ مانگتے ہیں، پھر پاکستان مخالف بیانات دے کر حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ خریدتے ہیں۔
یہ سب تماشا ایک سوال چھوڑتا ہے: کیا آج کا بھارت مذہب کی بنیاد پر حب الوطنی کا فیصلہ کرتا ہے؟ کیا مسلمان، جو اپنے ہی ملک میں پیدا ہوا، اگر وہ کسی اشتعال انگیز عمل کے خلاف کھڑا ہو جائے تو اسے پاکستان کا ایجنٹ کہہ دیا جاتا ہے؟ کیا یہ ملک صرف اس وقت تمہارا ہے جب تم خاموش رہو؟