’آزاد فلسطینی ریاست کو دفن کرنے‘ کا اسرائیلی ’ای ون سیٹلمنٹ‘ منصوبہ ہے کیا؟

مقبوضہ مغربی کنارے میں مشرقی یروشلم اور مالی ادومیم کی بستی کے درمیان 3 ہزار 401 مکانات تعمیر کرنے کے حوالے سےای۔ونکہلائے جانے والا یہ منصوبہ کئی دہائیوں تک سخت مخالفت کے باعث فریز (ناقابل عمل) رہا ہے۔ بین الاقوامی برادری میں اکثریت ان بستیوں کو بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی قرار دیتی ہے تاہم اسرائیل ان ممالک کے مؤقف سے اختلاف رکھتا ہے۔
اسرائیلی وزیر خزانہ بیتسلئیل سموترچ
Reuters
اسرائیلی وزیر خزانہ بیتسلئیل سموترچ 'ای ون' منصوبے سے متعلق بریفنگ دے رہے ہیں

اسرائیل کے دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے وزیر خزانہ بیتسلئیل سموترچ کے متنازع آبادکاری منصوبے کے حوالے سے دیے گئے ایک بیان پر شدید تنقید کی جا رہی ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہیہ ’فلسطینی ریاست کے تصور کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دے گا۔‘

مقبوضہ مغربی کنارے میں مشرقی یروشلم اور مالی ادومیم کی بستی کے درمیان 3 ہزار 401 مکانات تعمیر کرنے کے حوالے سےای۔ونکہلائے جانے والا یہ منصوبہ کئی دہائیوں تک سخت مخالفت کے باعث فریز (ناقابل عمل) رہا ہے۔

بین الاقوامی برادری میں اکثریت ان بستیوں کو بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی قرار دیتی ہے تاہم اسرائیل ان ممالک کے مؤقف سے اختلاف رکھتا ہے۔

بدھ کے روز وزیر خزانہ سموترچ نے اس منصوبے کی حمایت کرتے ہوئے اسے ایک ’تاریخی کامیابی‘ قرار دیا تھا۔

فلسطینی وزارتِ خارجہ نے اس منصوبے کو ’'نسل کشی، جبری بے دخلی اور زمین کے الحاق کے جرائم کا تسلسل‘ قرار دیا ہے، تاہم اسرائیل طویل عرصے سے ان الزامات کو مسترد کرتا آیا ہے۔

اقوامِ متحدہ، یورپی یونین اور کئی ممالک مثلاً برطانیہ اور ترکی نے بھی ای۔ون آبادکاری منصوبے پر تنقید کی ہے اور اسے روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔

’ای ون‘ منصوبہ ہے کیا؟

اسرائیل نے مقبوضہ مغربی کنارے میں مالی ادومیم جیسی کئی بستیاں تعمیر کر رکھی ہیں
Reuters
اسرائیل نے مقبوضہ مغربی کنارے میں مالی ادومیم جیسی کئی بستیاں تعمیر کر رکھی ہیں

اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان سب سے زیادہ متنازع مسائل میں سے ایک مسئلہ سیٹلمنٹ یعنی آبادکاریاں ہیں۔

ای۔ونآبادکاری منصوبہ پہلی بار 1990 کی دہائی میں اس وقت کے اسرائیلی وزیراعظم اسحاق رابین کے دور میں تجویز کیا گیا تھا، اس میں ابتدائی طور پر 2,500 گھر بنانے کی تجویز دی گئی تھی۔

2004 میں اس کا دائرہ بڑھا کر تقریباً 4,000 یونٹس تک کر دیا گیا جن میں کمرشل اور سیاحتی عمارتیں بھی شامل تھیں۔

2009 سے 2020 کے درمیان اس منصوبے کے مختلف مراحل کا اعلان کیا گیا جن میں زمینوں کو ضبط کیا جانا، نقشہ سازی اور سڑکوں کی تعمیر کے منصوبے شامل تھے۔

تاہم ہر بار بین الاقوامی دباؤ کے باعث ان تجاویز کو منجمد کرکے عمل درآمد روک دیا گیا۔

'ای ون' متنازع کیسے بنا؟

اسرائیلی وزیر
BBC
اسرائیلی وزیر کے مطابق اس منصوبے کے بعد کوئی ایسی کوئی ریاست ہی نہیں ہو گی جسے تسلیم کیا جائے

'ای-ون' منصوبے کو عرصہ دراز سے الگ فلسطینی ریاست کے قیام میں رکاوٹ سمجھا جاتا رہا ہے جس کی وجہ اس کا سٹریٹجک محل وقوع ہے۔ یہ جنوبی یروشلم کے علاقوں کو اس کے شمالی حصوںسے الگ کرتا ہے۔

یہ مغربی کنارے کے اہم شہروں رام اللہ اور بیت لحم کے درمیان جغرافیائی رابطے کو بھی ختم کر دے گا۔

مغربی کنارے میں اسرائیلی آباد کاری پر نظر رکھنے والے گروپ'پیس ناؤ' کے مطابق نئے یونٹس کی تعمیر سے مالی ادومیم بستی کے حجم میں 33 فیصد اضافہ ہو گا جس کی موجودہ آبادی اس وقت 38 ہزار ہے۔

اسرائیلی گروپ کے مطابق یہ منصوبہ رہائشی علاقوں کو ملحہ صنعتی زونز سے ملا دے گا جس سے مغربی کنارے کے بڑے حصے پر اسرائیل کو اپنا کنٹرول مزید مضبوط کرنے میں مدد ملے گی۔

گروپ کے مطابق 'ای-ون' سیٹلمنٹ کو حتمی منظوری کے لیے بدھ کو ٹیکنیکل کمیٹی کے سامنے رکھا جائے گا جو پہلے ہی اس سے متعلق تمام اعتراضات کو مسترد کر چکی ہے۔

مقبوضہ مغربی کنارہ کیا ہے؟

مغربی کنارہ
Reuters
دنیا کے مختلف ممالک اس منصوبے کی مخالفت کر رہے ہیں

مغربی کنارہ اسرائیل اور دریائے اُردن کے درمیان واقع زمینی علاقہ ہے جہاں لگ بھگ 30 لاکھ فلسطینی آباد ہیں۔

یہ مشرقی یروشلم اور غزہ کی طرح مقبوضہ فلسطینی علاقوں کا حصہ ہے۔ مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں قائم 160 یہودیوں بستیوں میں تقریباً سات لاکھ یہودی آباد ہیں۔

فلسطینیوں نے ہمیشہ یہاں یہودی آباد کاری کی مخالفت کی ہے۔ اسرائیل مجموعی طور پر مغربی کنارے کا کنٹرول رکھتا ہے۔ لیکن 1990 سے فلسطینی حکومت، فلسطینی اتھارٹی کے نام سے یہاں کے قصبوں اور شہروں کا نظم و نسق چلاتی ہے۔

سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے بعد مغربی کنارے میں بھی اسرائیل نے اپنے دباؤ میں اضافہ کیا ہے۔ اسرائیل اسے اپنی سکیورٹی کے لیے ناگزیر قرار دیتا ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق جون میں اسرائیلی آبادی کاروں کی جانب سے تقریباً 100 فلسطینیوں کو زخمی کیا گیا تھا۔ سنہ 2025 کے پہلے چھ ماہ کے دوران اسرائیلی ابادکاروں نے 757 حملے کیے جن میں فلسطینیوں کی ہلاکت کے ساتھ ساتھ اُن کی املاک کو بھی نقصان پہنچایا۔

فلسطینیی اور ہیومن رائٹس گروپس اسے اسرائیلی فورسز کی ناکامی قرار دیتے ہیں جو بطور قابض فوج فلسطینیوں اور اپنے شہریوں کے تحفظ کے ذمے دار ہیں۔ ان گروپس کا الزام ہے کہ اسرائیلی فوج نے آباد کاروں کے حملوں پر اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔

اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ مقبوضہ علاقوں میں آباد کاری کو ممنوع قرار دینے والے جنیوا کنونشنز کا یہاں اطلاق نہیں ہوتا ہے۔ تاہم اسرائیل کے اپنے اتحادی اور بین الاقوامی ماہرین اس دعوے کو متنازعہ قرار دیتے ہیں۔

فلسطینیوں کا مطالبہ ہے کہ ان تمام یہودی بستیوں کو ختم کیا جائے کیوں کہ جن علاقوں میں یہ بنائی گئی ہیں وہ مستقبل کی آزاد فلسطینی ریاست کا حصہ ہوں گی۔

تاہم اسرائیلی حکومت فلسطینیوں کے اپنی ریاست کے حق کو تسلیم نہیں کرتی اور دلیل دیتی ہے کہ مغربی کنارہ اسرائیل کا حصہ ہے۔

جولائی 2024 میں اقوام متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالت، انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس (آئی سی جے) نے کہا تھا کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کی مسلسل موجودگی غیر قانونی ہے او آباد کاروں کو وہاں سے نکل جانا چاہیے۔

عدالت نے مزید کہا کہ مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں پر اسرائیلی پابندیاں مذہب اور نسل کی بنیاد پر 'منظم امتیازی سلوک' کے مترادف ہیں۔

اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے عدالت کے اس فیصلے کو 'جھوٹ کا پلندہ' قرار دیا تھا۔

ایک بیان میں اسرائیلی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ 'یہودی لوگ اپنی سرزمین پر قبضہ کرنے والے نہیں ہیں۔ یہ نہ تو ہمارے ابدی دارالحکومت یروشلم پر قابض ہیں اور نہ ہیہمیں ورثے میں ملنے والے آبائی علاقے یہودیہ اور سامریہ [مغربی کنارے] پر قابض ہیں۔

مشرقی یروشلم
Reuters
فلسطینیوں اور اسرائیلی فورسز کے درمیان ان علاقوں میں کام کرنے کے معاملے پر نوک جھوک ہوتی رہتی ہے۔

'ای ون' منصوبے پر دنیا کا کیا ردعمل ہے؟

منصوبے کے اعلان کے دوران اسرائیلی وزیر خزانہ بیتسلئیل سموترچ نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بھی شکریہ ادا کیا تھا۔

اُن کا کہنا تھا کہ وہ 'صدر ٹرمپ اور اسرائیل میں امریکہ کے سفیر مائیک ہکابی کی اس معاملے پر حمایت کے شکرگزار ہیں۔ مغربی کنارہ اسرائیل سے کبھی نہ جدا ہونے والا اور خدا کی طرف سے وعدہ کی گئی زمین ہے۔'

اُن کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نتن یاہو اُن کے اس منصوبے کی حمایت کر رہے ہیں جس کے تحت 10 لاکھ نئے آباد کاروں کو مغربی کنارے میں آباد کیا جائے گا۔

فلسطینی اتھارٹی کی وزارت خارجہ نے اس منصوبے کی مذمت کرتے ہوئے اسے فلسطینی علاقوں کی وحدت اور آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے دھچکہ قرار دیا ہے۔

وزارت خارجہ کے مطابق اس منصوبے سے مغربی کنارے کو تقسیم کر کے نو آبادیاتی توسیع کی کوشش کی جا رہی ہے جس کے ذریعے مزید علاقوں کو ضم کرنا آسان ہو جائے گا۔

امریکی محکمہ خارجہ نے 'ای ون' منصوبے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ 'ایک مستحکم مغربی کنارہ اسرائیل کو محفوظ رکھنے اور امریکی انتظامیہ کے خطے میں قیام امن کے ہدف کے لیے اہم ہے۔'

لیکن اقوام متحدہ اور یورپی یونین نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ اس منصوبے کو آگے نہ بڑھائے۔

اقوام متحدہ کے مطابق 'ای ون' منصوبے سے ایک قابل عمل فلسطینی ریاست کے امکانات کو شدید نقصان پہنچے گا۔

یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ کاجا کالس کے مطابق 'ای ون' منصوبہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی اور دو ریاستی حل کو کمزور کرتا ہے۔

برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے ان منصوبوں کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے مستقبل کی فلسطینی ریاست دو حصوں میں تقسیم ہو جائے گی اور یہ بین الاقوامی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔

ترکی کی وزارت خارجہ نے بھی اس منصوبے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ 'یہ بین الاقوامی قوانین کی توہین' ہے اور اس سے فلسطینی ریاست کی علاقائی سالمیت کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

مصر نے بھی اس منصوبے کو عالمی قوانین سے متصادم اور سکیورٹی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

اُردن کی وزارت خارجہ نے بھی اس سکیم کی مخالفت کرتے ہوئے اسے جون 1967 کی سرحدوں پر مبنی ایک آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام اور فلسطینی عوام کے ناقابل تنسیخ حق پر حملہ قرار دیا ہے جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو گا۔

'ای ون' منصوبے کا اعلان ایسے وقت میں ہوا ہے جب دنیا کے مختلف ممالک بشمول برطانیہ اور کینیڈانے اس سال کے اختتام پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا عندیہ دے رکھا ہے۔

اس وقت اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے 147 باضابطہ طور پر آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرتے ہیں۔

برطانیہ کے وزیر اعظم سر کیئر سٹارمر نے کہا کہ برطانیہ بھی ستمبر میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لے گا جب تک کہ اسرائیل غزہ میں جنگ بندی پر رضامند اور دو ریاستی حل کے امکانات کو بحال کرنے سمیت کچھ شرائط کو پورا نہیں کرتا۔

'ای ون' منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے اسرائیلی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کے بعد 'کوئی ریاست ہی نہیں رہے گی جسے تسلیم کیا جائے۔

اُن کا کہنا تھا کہ 'آج دنیا میں جو کوئی بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی کوشش کر رہا ہے اسے ہمارا جواب زمین پر ملے گا۔ نہ دستاویزات کے ساتھ اور نہ ہی فیصلوں یا بیانات سے بلکہ ہم گھروں اور محلوں کی تعمیر سے اپنا جواب دیں گے۔'


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US