چار دہائیاں قبل پاکستان سے انڈیا ہجرت کر کے شادی کرنے اور چھ بچوں کی ماں بننے والی نسرین اختر کی زندگی بدل گئی۔ یہ ایک خاندان کی کہانی ہے جو کشمیر کی متنازع تاریخ کو بیان کرتی ہے۔فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق 55 سالہ نسرین اختر اور ان کا خاندان انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے گاؤں سلوا میں رہتے ہیں۔ پاکستان اور انڈیا کے درمیان حالیہ کشیدگی انہیں بھی جھگڑے میں کھینچ لائی۔انہیں، ان کے چار بھائیوں اور چار بہنوں کو پولیس نے حراست میں لے لیا تھا اور ملک بدر کرنے کے لیے پاکستان کی سرحد پر لے آئے تھے۔نسرین اختر نے کہا کہ ’یہ بہت حیران کن تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کروں۔ میں بخار سے کانپ رہی تھی۔‘پاکستان اور انڈیا 1947 میں برطانوی راج کے خاتمے کے بعد کئی جنگیں لڑ چکے ہیں، جب سامراجی افسران نے نقشے پر سیدھی لائن کھینچ کر دو ملکوں اور وہاں رہنے والوں کی تقسیم کی۔مسلم اکثریت والے کشمیر پر دونوں ممالک کا دعویٰ ہے اور یہ ایک فلیش پوائنٹ رہا ہے۔انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں باغیوں نے 1989 سے آزادی یا پاکستان کے ساتھ الحاق کے لیے بغاوت کر رکھی ہے۔1965 کی جنگ میں نسرین کے والدین پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں آ گئے تھے۔ لیکن 1982 میں سرحد پر نرمی کے بعد وہ واپس چلے گئے۔نسرین اختر کی بڑی بہن نشین نے کہا کہ ’ان کی زمین، خاندان اور جڑیں یہاں تھیں۔‘نسرین کے 35 سالہ بیٹے فیصل مجید نے کہا کہ وہ پہلگام میں ہونے والے حملے سے صدمے میں تھے لیکن انہوں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ اس سے ان پر کوئی اثر پڑے گا۔
فیصل نے کہا کہ ’ہم نے یہ نہیں سوچا تھا کہ ہم بھی متاثر ہوں گے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)
فیصل نے کہا کہ ’جب کشمیر میں عام لوگ ہلاک ہوئے اور ہماری حکومت نے ملک بدری کا کہا تو ہم نے یہ نہیں سوچا تھا کہ ہم بھی متاثر ہوں گے۔ ایسا لگا کہ میرے اوپر کئی ٹن پتھر آ گرے ہیں۔‘
نسرین پاکستان کی سرحد پر پہنچیں اور یہ جگہ ان کی یاداشت سے گم ہو چکی تھی۔انہوں نے کہا کہ ’جب میں چھوٹی بچی تھی تو اپنے والدین کے ساتھ یہاں آئی تھی۔ میرے بہن بھائی اور رشتے دار سب یہاں ہیں۔‘نسرین اختر نے کہا کہ وہ پہلگام حملے کے بعد غصے کو سمجھتی ہیں لیکن اس کی وجہ سے ان جیسے عام لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔’میں نے مارے جانے والے لوگوں کا درد محسوس کیا، لیکن میں ان کے بارے میں بھی درد رکھتی ہوں جنہیں نکل جانے کا کہا جا رہا ہے۔‘لیکن جب نسرین اور ان کا خاندان سرحد عبور کرنے کے لیے تیار تھے تو انڈین عدالت کے ایک حکم نامے نے ان کی ملک بدری روک دی۔ان کے شوہر فضل حسین نے کہا کہ ’خدا کا شکر ہے کہ یہ نہیں ہوا۔ ہم سب یتیم ہو جاتے۔ میں یہاں تنہا رہ جاتا جس طرح یہ وہاں اکیلی رہ جاتیں۔‘
انڈیا کی فوج نے کہا کہ لائن آف کنٹرول پر کئی مقامات پر اس کا پاکستان کی فوج کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ ہوا (فوٹو: اے ایف پی)
اقوام متحدہ کے چیف انتونیو گوتریس نے پیر کو کہا کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان ’کشیدگی عروج‘ پر پہنچ گئی ہے اور خبردار کیا کہ ’اب تحمل اور جنگ کے دہانے سے پیچھے ہٹنے کا وقت ہے۔‘
منگل کو انڈیا کی فوج نے کہا کہ لائن آف کنٹرول پر کئی مقامات پر اس کا پاکستان کی فوج کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ ہوا ہے جو 24 اپریل سے جاری ہے۔یہ فائرنگ نسرین اختر کے گاؤں کے قریب بھی ہو رہی ہے لیکن ان کے خاندان کے لیے ان کی واپسی کسی جشن سے کم نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’جب میں نے اپنے خاوند، بھینسوں اور بکریوں کو دیکھا تو مجھے محسوس ہوا کہ میں گھر لوٹ آئی ہوں۔ میرے شوہر نے خوشی سے چلاتے ہوئے اور پھولوں کا ہار پہنا کر استقبال کیا۔‘