فرانسیسی صدر شامی رہنما احمد الشرع کے پہلے دورۂ یورپ کی میزبانی کریں گے

image
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکخواں بدھ کے روز شامی رہنما احمد الشرع کا پیرس میں استقبال کریں گے، جو ان کا یورپ کا پہلا دورہ ہے۔

یہ دورہ ایک ایسے وقت میں  ہو رہا ہے جب شام کے اسلام پسند حکمران اتحاد پر بڑھتے ہوئے شکوک و شبہات اور فرانس کی دائیں بازو کی جماعتوں کی جانب سے احتجاج سامنے آیا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق دسمبر میں چودہ سالہ تباہ کن جنگ کے بعد طویل عرصے سے حکمرانی کرنے والے شامی صدر بشار الاسد کے زوال کے بعد، عالمی برادری نئی حکومت پر زور دے رہی ہے کہ وہ انفرادی آزادیوں کا احترام کرے، اقلیتوں کا تحفظ کرے اور معاشرے کے تمام طبقات کو عبوری حکومت میں شامل کرے۔

بہت سے ممالک نے کہا ہے کہ شام پر بشار الاسد دور سے عائد پابندیاں ختم کرنے سے پہلے وہ نئی حکومت کے طرزِ عمل کا مشاہدہ کریں گے۔

فرانسیس کے صدارتی آفس ایلیزے پیلس  سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’یہ ملاقات ان شامی عوام کے لیے فرانس کے تاریخی عزم کا حصہ ہے جو امن اور جمہوریت کے خواہاں ہیں۔‘

صدر میکخواں ’ایک نئے شام کی تعمیر کے لیے فرانس کی حمایت کا اعادہ کریں گے — ایک آزاد، مستحکم، خودمختار شام جو معاشرے کے تمام طبقات کا احترام کرے۔‘

صدارتی دفتر کے مطابق میکخواں شامی حکومت کے سامنے اپنے مطالبات کو اجاگر کریں گے، خاص طور پر خطے کا استحکام (بشمول لبنان) اور دہشت گردی کے خلاف جنگ۔

صدر احمد الشرع اب بھی اقوام متحدہ کی سفری پابندیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق، فرانس کو غالباً اقوام متحدہ سے استثنیٰ حاصل کرنا پڑا جیسا کہ ترکیہ اور سعودی عرب کے حالیہ دوروں کے لیے کیا گیا تھا۔

فرانس، جو شام کا سابق نوآبادیاتی حکمران رہا ہے، روسی اثرورسوخ کے برسوں بعد ملک میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کا موقع دیکھ رہا ہے۔

فروری میں، فرانس نے شام کی تعمیر نو پر پیرس میں ایک کانفرنس منعقد کی، تاکہ عبوری مرحلے کی رہنمائی کی جا سکے۔

شام کئی سال کی خانہ جنگی سے تباہ ہو چکا ہے، جہاں 90 فیصد سے زائد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔

صدر ایمانویل میکخواں نے سب سے پہلے فروری میں شام کے نئے رہنما کو فرانس آنے کی دعوت دی تھی۔

مارچ میں، انہوں نے یہ دعوت دہرائی لیکن اسے اس شرط کے ساتھ جوڑا کہ ایک ایسی شامی حکومت قائم کی جائے جو ’سول سوسائٹی کے تمام طبقات‘ کی نمائندگی کرے۔  فرانسیسی صدر نے عبوری حکومت کے ساتھ ابتدائی مذاکرات کو ’مثبت‘ قرار دیا۔

شام کی نئی اسلام پسند حکومت نے ایک جامع حکمرانی کا وعدہ کیا ہے، جو فرقہ وارانہ اور نسلی تنوع رکھنے والے ملک کے لیے ضروری ہے۔

تاہم مارچ میں فرقہ وارانہ جھڑپوں میں 1,700 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جن میں اکثریت اسد کی علوی اقلیت سے تھی، جس پر وسیع پیمانے پر تنقید ہوئی۔

صدر ایمانویل میکخواں نے سب سے پہلے فروری میں شام کے نئے رہنما کو فرانس آنے کی دعوت دی تھی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

حالیہ جھڑپوں میں دروز برادری کے جنگجو شامل تھے، اور غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے زیادتیوں کی رپورٹس نے بھی عبوری حکومت کی انتہا پسندوں پر قابو پانے کی صلاحیت پر سوالات اٹھائے ہیں۔

شامی حکومت پر دباؤ بڑھاتے ہوئے، اسرائیل نے بھی اسد کے زوال کے بعد سے شام پر سینکڑوں حملے کیے ہیں، جن میں جمعہ کو دمشق میں صدارتی محل کے قریب کیا گیا حملہ بھی شامل ہے۔

اسرائیل نے کہا کہ اس کے فوجی دروز اقلیت کے تحفظ کے لیے تیار ہیں، اور صدارتی محل کے قریب حملہ شام کے نئے حکمرانوں کو "واضح پیغام" دینے کے لیے تھا۔

تاہم عبوری حکومت نے اس حملے کو ’خطرناک اشتعال انگیزی‘ قرار دیا، جبکہ اقوام متحدہ نے اسرائیل سے شام پر حملے فوراً روکنے کا مطالبہ کیا۔

فرانس کی دائیں بازو کی جماعتوں نے اس دورے پر تنقید کی ہے۔

دائیں بازو کی رہنما میرین لی پین نے صدر میکخواں پر الزام لگایا کہ وہ ’ایک جہادی‘ سے بات چیت کر رہے ہیں، جو داعش اور القاعدہ سے منسلک رہا ہے، اور کہا کہ یہ ملاقات ’اشتعال انگیز اور غیر ذمہ دارانہ‘ ہے۔

وزیر خارجہ ژاں نویل بارو، جنہوں نے جنوری میں دمشق میں شامی رہنما سے ملاقات کی تھی، نے ان مذاکرات کا دفاع کیا۔

انہوں نے ریڈیو آر ٹی ایل کو بتایا کہ ’فرانسیسی عوام کی سلامتی شام میں داؤ پر لگی ہوئی ہے۔‘ انہوں نے مزید کہا کہ دہشت گردی اور منشیات کی سمگلنگ کے خلاف لڑائی، اور ہجرت پر قابو پانے کے لیے بھی یہ بات چیت ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ شام اور لبنان کے رہنماؤں سے بات نہ کرنا ’داعش کے لیے ریڈ کارپٹ بچھانے کے مترادف‘ ہو گا۔

دوسری جانب فرانسیسی کمپنیاں شام کی تعمیر نو میں کردار ادا کرنے کی خواہشمند ہیں۔

 


News Source   News Source Text

مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.