انڈیا کی ڈیجیٹل وار، جنگی حالات میں سائبر حملوں سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟

image
پاکستان اور انڈیا کے درمیان جاری کشیدگی صرف سرحدوں تک محدود نہیں رہی، بلکہ انڈیا کی جانب سے پاکستان کے سرکاری اداروں پر سائبر حملے بھی کیے جا رہے ہیں۔

نیشنل کمپیوٹر ایمرجنسی رسپانس ٹیم (نیشنل سرٹ) نے اس حوالے سے بدھ کو ایک ایڈوائزری جاری کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ’دشمن قوتیں پاکستان کے ڈیجیٹل نظام کو نشانہ بنانے کے لیے سرگرم ہو چکی ہیں۔‘

اس کشیدگی کے دوران ہی وفاقی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی شزہ فاطمہ خواجہ نے یہ تصدیق بھی کی تھی کہ ’انڈیا سے پاکستان کے مختلف سرکاری اداروں پر سائبر حملے کیے گئے ہیں، جنہیں ناکام بنا دیا گیا ہے۔‘

ایڈوائزری کے مطابق ’جعلی ای میلز، مشکوک لنکس، سوشل میڈیا پر جھوٹے پروفائلز اور چوری شدہ لوگوز کے ذریعے عام شہریوں سے لے کر سرکاری و نجی اداروں تک، ہر کسی کو ہدف بنایا جا سکتا ہے۔ اس صورتِ میں سائبر سکیورٹی کے اصولوں پر سختی سے عمل کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔‘

سائبر سکیورٹی ماہرین کے مطابق عام حالات میں سائبر حملے زیادہ تر مالی فائدے یا بلیک میلنگ کے لیے کیے جاتے ہیں، جبکہ جنگی حالات میں ان کا مقصد حساس معلومات چُرانا، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور معروف شخصیات کو نشانہ بنا کر پروپیگنڈا کرنا ہوتا ہے۔

’ان حملوں میں فشنگ لنکس، جعلی پروفائلز اور فیک نیوز استعمال کی جاتی ہیں، اور یہ حملے انفرادی کے بجائے گروہی یا عوامی سطح پر کیے جاتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچایا جا سکے۔‘

سائبر حملوں سے بچاؤ کے لیے کیا ایڈوائزری جاری کی گئی؟

نیشنل سرٹ کے مطابق ہیکرز نے عوام کو دھوکہ دینے کے لیے جدید طریقے اختیار کیے ہیں۔ کیو آر کوڈز کے ذریعے معلومات چوری کرنے کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

’اس کے علاوہ سوشل میڈیا اور میسجنگ ایپس پر مشکوک لنکس کا سیلاب آیا ہوا ہے۔ ایڈوائزری کے مطابق ان لنکس پر کلک کرنے سے صارفین کے موبائل یا کمپیوٹر سسٹمز ہیک ہو سکتے ہیں۔‘

سرٹ نے خبردار کیا ہے کہ صرف حساس ادارے یا بڑی تنظیمیں ہی نہیں بلکہ عام سوشل میڈیا صارفین بھی ان حملوں کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ اسی لیے ہر فرد کو اپنی ڈیجیٹل ذمہ داری کا ادراک کرنا ہوگا۔

سائبر حملوں کے اثرات اور تدارک

ایڈوائزری میں کہا گیا ہے کہ ’ان حملوں پر اگر قابو نہ پایا گیا تو ملک گیر سطح پر سنگین نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔‘ اس حوالے سے نیشنل سرٹ نے مختلف حفاظتی تجاویز بھی جاری کی ہیں۔

سرٹ نے بتایا ہے کہ ’شہری سوشل میڈیا پر غیر مصدقہ پیغامات پھیلانے اور مشکوک اور نامعلوم لنکس پر کِلک کرنے سے گریز کریں۔‘

علاوہ ازیں ایڈوائزری میں بتایا گیا ہے کہ ’اکاؤنٹس کی دوہری تصدیق (Two-Factor Authentication) کو فعال کیا جائے جبکہ سسٹمز میں اینٹی وائرس اور فائر وال اپڈیٹ رکھے جائیں اور نیٹ ورک مانیٹرنگ کو بھی سخت بنایا جائے۔‘

متحد ہو کر ڈیجیٹل سرحدوں کا دفاع کریں

نیشنل سرٹ کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کی ڈیجیٹل سلامتی اب قومی سلامتی کا حصہ بن چکی ہے۔ اس کے تحفظ کے لیے سرکاری، نجی اور عوامی سطح پر مربوط اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم سب مل کر سائبر حملوں کے خلاف ایک ڈیجیٹل دفاعی لائن قائم کریں۔‘

جنگی حالات میں سائبر حملے عام سائبر حملوں سے مختلف کیسے ہوتے ہیں؟

سائبر سکیورٹی ماہر محمد اسد الرحمان کے مطابق ’عام حالات میں ہونے والے سائبر حملوں کا مقصد زیادہ تر مالی فائدہ یا ذاتی نوعیت کی معلومات حاصل کرنا ہوتا ہے۔‘

’ان حملوں میں لوکل سکیمرز شامل ہوتے ہیں جو مالیاتی لین دین، اکاؤنٹس تک رسائی اور بلیک میلنگ جیسے طریقوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔‘

اُنہوں نے اُردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ ’جنگ یا کشیدہ حالات میں سائبر حملوں کی نوعیت اور اہداف کافی حد تک مختلف ہو جاتے ہیں۔‘ 

’ایسے وقت میں دشمن قوتیں صرف مالی فائدے کے لیے نہیں بلکہ قومی سلامتی اور سوشل سٹرکچر کو متاثر کرنے کے لیے بھی حملے کرتی ہیں۔‘

حملوں کے خاص اہداف کیا ہو سکتے ہیں؟

محمد اسد الرحمان کے مطابق ’حملہ آور ان افسروں کے اکاؤنٹس تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو قانون نافذ کرنے یا حساس اداروں سے منسلک ہوتے ہیں تاکہ ان کے ذریعے مزید اہلکاروں کی معلومات یا انٹیلیجنس رپورٹس حاصل کی جا سکیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’انفلونسرز یا معروف سماجی شخصیات کے اکاؤنٹس ہیک کر کے پروپیگنڈا کیا جا سکتا ہے۔ اس کا مقصد معاشرے میں خوف، بےچینی یا غلط فہمی پیدا کرنا ہوتا ہے۔‘

’حملہ آور جعلی خبریں، جھوٹے پیغامات یا ویڈیوز وائرل کرتے ہیں تاکہ عوامی رائے کو متاثر کیا جا سکے یا ملک میں افراتفری پھیلائی جا سکے۔‘

محمد اسد الرحمان نے مزید بتایا کہ ’طریقہ واردات اگرچہ زیادہ تر روایتی فشنگ لنکس اور جعلی ویب سائٹس پر ہی مبنی ہوتا ہے، لیکن جنگی حالات میں یہ حملے زیادہ منظم اور بڑے پیمانے پر کیے جاتے ہیں۔‘

’اس دوران مخصوص افراد کے بجائے گروہوں یا پوری آبادی کو ہدف بنایا جاتا ہے۔ فیک لِنکس اور مشکوک مواد بڑے پیمانے پر پھیلایا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد متاثر ہوں۔ ان حالات میں صرف ٹیکنالوجی ہی نہیں بلکہ عوامی شعور اور احتیاط بھی ڈیجیٹل دفاع کا اہم حصہ بن جاتے ہیں۔‘


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.