گلگت بلتستان کی حسین وادی ہنزہ میں پراسرار بیماری کی وجہ سے 100 سے زائد یاک موت کے منہ میں چلے گئے ہیں۔
شمشال کی چراگاہ میں وبائی صورتِ حال کی وجہ سے ایک ماہ کے اندر پہاڑی بیلوں کی ہلاکتوں میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔
مقامی لوگوں کے مطابق دورافتادہ گاؤں شمشال کی چراگاہ پہاڑی بیلوں کا مسکن سمجھی جاتی ہے۔
مقامی شہری بصیر علی شاہ نے بتایا کہ ’3 سال پہلے بھی پراسرار بیماری کی وجہ سے جانور مر گئے تھے مگر اس بار صرف یاک اس بیماری کا شکار ہو کر ہلاک ہو رہے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’وبا انتہائی تیزی سے پھیل رہی ہے جس کی وجہ سے جانور ایک سے دو دنوں کے اندر دم توڑ رہے ہیں۔‘
بصیر علی شاہ کا کہنا تھا کہ ’اس سے قبل بیماری کے باعث 6 ماہ کے جانور متاثر ہو رہے تھے مگر اس بار وبا نے بڑی عمر کے یاک کو بھی شکار کیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’حالیہ دنوں میں 108 یاک مر گئے جبکہ 50 سے زائد بیمار پڑے ہیں۔ ان کا اگر بروقت علاج نہ ہوا تو وہ بھی ہلاک ہو جائیں گے جبکہ اس وبا سے دوسرے جانوروں کے بھی متاثر ہونے کا خدشہ موجود ہے۔‘
مقامی کسان یاور حسین کا کہنا ہے کہ ’شمشال کے بیشتر مقامی لوگوں کے روزگار کا ذریعہ یاک ہیں۔ ان کی ہلاکت غریب کاشت کار کے لیے بڑا معاشی دھچکا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’یاک کی قیمت 4 سے 5 لاکھ روپے ہے جبکہ اس کے گوشت کی قیمت بھی زیادہ ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہر شہری کے چار سے پانچ یاک ہلاک ہوگئے ہیں۔ آپ اندازہ لگالیں کہ کتنا نقصان ہوا ہے۔ اس وقت ان پہاڑی علاقوں ایک ہزار سے زائد یاک موجود ہیں۔‘
مقامی کسانوں نے حکومت اور انتظامیہ سے فوری طور پر اس پراسرار بیماری کی روک تھام کے لیے اقدامات کرنے کی اپیل کی ہے۔
ضلعی انتظامیہ ہنزہ کے مطابق متاثرہ علاقوں میں لائیو سٹاک کی امدادی ٹیم بھجوا دی گئی ہے جس میں وٹرنری ماہرین بھی موجود ہیں۔
انتظامیہ کا کہنا ہے کہ شمشال میں فوری طور پر ویکسینیشن کا عمل شروع کر دیا گیا ہے تاہم اس مرض کی تشخیص کے لیے ماہرین سیمپلنگ کریں گے جس کی رپورٹ آنے کے بعد ہی مرض کی جانچ کی جائے گی۔
انتظامیہ کے مطابق شمشال کی چراگاہ آبادی سے دور واقع ہے جہاں پہنچنے کے لیے گاڑی کا راستہ بھی موجود نہیں۔
محکمہ لائیو سٹاک کے سابق افسر ڈاکٹر نگہداد خان کے مطابق پہاڑی بیل سخت موسم میں رہنے والے جانور ہیں جو اونچی جگہ پر برف کے قریب اپنی آماجگاہ بناتے ہیں۔ موسم کی شدت میں رہنے کی وجہ سے یاک کا شمار بہت سخت جان جانوروں میں کیا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’سال 2020 میں بھی وبا پھیلی تھی لیکن اس وقت پنجاب سے وٹرنری ڈاکٹروں کو بلایا گیا تھا۔‘
ڈاکٹر نگہداد کے مطابق پہاڑی بیل ڈی ہائیڈریشن کے باعث ہلاک ہوئے ہیں اور یہ بظاہر ہیضے کی وبا لگ رہی ہے تاہم جلد حتمی رپورٹ سامنے آ جائے گی۔
گلگت بلتستان حکومت نے ضلعی انتظامیہ کو ہنگامی اقدامات کرنے کی ہدایت کی ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
انہوں نے مزید کہا کہ ’موسمیاتی تبدیلی کے اثرات پہاڑی جانوروں پر بھی مرتب ہو رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے یہ وبا کلائیمیٹ چینج کا شاخسانہ ہو۔‘
صوبائی حکومت کا مؤقف
گلگت بلتستان حکومت نے قیمتی جانوروں کی ہلاکت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ضلعی انتظامیہ کو ہنگامی اقدامات کرنے کی ہدایت کی ہے۔
صوبائی حکومت کا مؤقف ہے کہ یاک گلگت بلتستان کے بالائی علاقوں کے قدرتی حسن کا اہم حصہ ہیں جن کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے۔
خیال رہے کہ یاک وادی ہنزہ، ضلع غذر، استور کے علاوہ خیبر پختونخوا کے ضلع چترال کے سرحدی علاقوں بروغل، شندور اور وادی کھوت کے علاقے میں پائے جاتے ہیں۔ یہ پہاڑی بیل پالتو جانور کے طور پر رکھے جاتے ہیں جن سے محنت مشقت کے کام بھی لیے جاتے ہیں جبکہ یاک کو ذبخ کر کے اس کا گوشت بازار میں فروخت کیا جاتا ہے۔