ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا اور پاکستان میں کشیدگی کے دوران دونوں جانب سے ہوئے ڈرون حملے دہائیوں پرانی دشمنی میں ایک نئے اور خطرناک موڑ کا آغاز ہیں جس میں دونوں اطراف نے روایتی گولہ باری کے ساتھ ساتھ ایک متنازع اور کشیدہ سرحد کے پار ایسے ہتھیاروں کا استعمال بھی کیا گیا جو فضا میں اڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
جنوبی ایشیا میں جوہری طاقت کے حامل دو ہمسائیہ ممالک کے درمیان دنیا کی پہلی ڈرون جنگ چھڑنے کے بعد اب سیز فائر کا اعلان ہو چکا ہے۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر حالیہ کشیدگی کے دوران ڈرون اور میزائل حملے کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ڈرون حملے دہائیوں پرانی دشمنی میں ایک نئے اور خطرناک موڑ کا آغاز ہیں جس میں دونوں اطراف سے روایتی گولہ باری کے ساتھ ساتھ ایک متنازع اور کشیدہ سرحد کے پار ایسے ہتھیاروں کا استعمال بھی کیا گیا جو فضا میں اڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
خاموشی سی اور ریموٹ کنٹرول کی مدد سے چلنے والے ڈرون، جن کے استعمال کی تردید کرنا آسان ہے، انڈیا اور پاکستان کے دہائیوں پرانے تنازع میں ایک نئے باب کا اضافہ ہیں۔
جہارا مٹیسک امریکی نیول وار کالج میں پروفیسر ہیں۔ انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’انڈیا اور پاکستان کا تنازع ایک نئے ڈرون دور میں داخل ہو رہا ہے جس میں نظروں سے اوجھل آنکھیں اور درست اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت یہ طے کر سکتی ہیں کہ تنازع بڑھے گا یا نہیں۔ اسی لیے جنوبی ایشیا کے متنازع آسمانوں میں جو ملک ڈرون جنگ کی صلاحیت پر عبور حاصل کر لے گا وہی اس کی سمت کا تعین بھی کرے گا۔‘
منگل اور بدھ کی درمیانی شب شروع ہونے والی اس کشیدگی میں دونوں اطرف سے جانی و مالی نقصانات کے دعوے کیے گئے۔
جمعرات اور پھر جمعے کی شام سے دونوں ملکوں کے مابین حالات زیادہ کشیدہ ہو گئے۔ پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق انڈیا کی طرف سے پاکستان میں اسرائیلی ڈرون بھیجے گئے اور فوج نے جمعے کی شام تک 77 ایسے ڈرون مار گرائے تھے۔
پاکستانی حکام کی جانب سے ان ڈرونز، جو مبینہ طور پر اسرائیلی ساختہ ہیروپ ڈرون ہیں، کو مختلف طریقوں سے گرانے جانے کا دعوی کیا گیا۔ دوسری جانب انڈیا نے دعویٰ کیا تھا ان ڈرون سٹرائیکس کے نتیجے میں پاکستان میں متعدد دفاعی ریڈار سسٹم ناکارہ بنائے گئے جن میں سے ایک لاہور میں تھا۔ تاہم پاکستان نے اس کی تردید کی تھی۔
پاکستان نے اعلان کیا کہ کراچی، لاہور اور راولپنڈی سمیت مختلف شہروں میں 77 انڈین ڈرون گرائے گئےلیزر گائیڈڈ میزائل، ڈرون اور یو اے ویز جدید دور کے میدان جنگ کا حصہ بن چکے ہیں جن کی مدد سے عسکری کارروائیوں کی افادیت اور اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت میں خاطرخواہ اضافہ ہوتا ہے۔ ان کی مدد سے فضائی حملوں کے لیے اہداف کا درست طریقے سے تعین کیا جا سکتا ہے اور اگر ان پر اسلحہ لگا ہو تو پھر ان کی مدد سے اہداف کو نشانہ بھی بنایا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ ڈرونز کو دشمن کے فضائی دفاعی نظام کو دبانے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، یہ دوسرے ملک کی فضا میں داخل ہو کر دشمن کے ریڈار کا پتہ چلا سکتے ہیں اور پھر اِن ریڈارز کو اینٹی ریڈی ایشن میزائل یا پھر کسی اور ڈرون کی مدد سے نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
پروفیسر جہارا مٹیسک کا کہنا ہے کہ ’یوکرین اور روس نے جنگ کے دوران ایسا ہی کیا ہے۔ ٹارگٹ اور ٹرگر کرنے کی دوہری صلاحیت ڈرون کو اہم بناتی ہے جو لڑاکا طیاروں کو خطرے میں ڈالے بغیر فضائی دفاعی نظام کو متاثر کر سکتا ہے۔‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا کے پاس موجود ڈرون کی اکثریت اسرائیلی ساختہ ہے جن میں ’آئی اے آئی سرچر‘ اور ’ہیرون‘ کے علاوہ ’ہارپی‘ اور ’ہیروپ لوئٹرنگ ایمونیشن‘ شامل ہیں جو کہ ڈرون ہونے کے ساتھ ساتھ میزائلوں کا کام بھی انجام دیتے ہیں اور خودکار نگرانی اور انتہائی درست نشانہ لگانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
خاص طور پر ہاروپ کا استعمال اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ انڈیا کی جنگی حکمت عملی اب مہنگے اور خاص طور پر ہدف کو نشانہ بنانے والے حملوں کی طرف بڑھ رہی ہے جو جدید جنگوں میں لوئٹرنگ میزائلز کی بڑھتی ہوئی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے۔
ماہرین کے مطابق ہیرون ڈرون کو انڈیا امن اور جنگ دونوں کے دوران فضا کی بلندی میں موجود اپنی آنکھوں کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ ’آئی اے آئی سرچر ایم کے ٹو‘ ڈرون، جو 18 گھنٹے تک پرواز کر سکتا ہے، 300 کلومیٹر تک فاصلہ طے کر سکتا ہے اور سات ہزار میٹر کی بلندی پر پرواز کر سکتا ہے۔
انڈیا نے حال ہی میں امریکہ سے ’ایم کیو نو بی پریڈیٹر ڈرون‘ حاصل کرنے کے لیے چار ارب ڈالر کا معاہدہ کیا ہے۔ یہ ڈرون مسلسل 40 گھنٹے تک 40 ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کر سکتا ہے۔ اس کے حصول سے انڈیا کی ڈرون صلاحیت میں کافی اضافہ ہو گا۔
اس کے علاوہ انڈیا ’اس سورام‘ صلاحیت کو حاصل کرنے کی کوشش بھی کر رہا ہے جس کے تحت ایک بہت بڑی تعداد میں چھوٹے چھوٹے ڈرون بھیج کر دشمن کے فضائی دفاعی نظام کو مفلوج کر دیا جاتا ہے جس کے بعد لڑاکا طیاروں کو دراندازی کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔
لاہور سے دفاعی تجزیہ کار اعجاز حیدر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پاکستان کے پاس موجود ڈرونز کی صلاحیت بھی وسیع اور متنوع ہے جس میں غیر ملکی اور مقامی سطح پر تیار شدہ ڈرون شامل ہیں۔‘
ان کے مطابق پاکستان کے پاس ’تقریبا ایک ہزار ڈرون ہیں جن میں چینی سی ایچ فور اور ترکی کے بیراکتر آقنجی کے علاوہ مقامی براق اور شاہپر ڈرون شامل ہیں۔ اُن کے مطابق پاکستان نے لائٹرنگ میونیشن کی صلاحیت بھی حاصل کر لی ہے۔‘
اعجاز حیدر کے مطابق ’پاکستانی فضائیہ تقریبا ایک دہائی سے اس صلاحیت کو اپنے نظام میں شامل کرنے پر کام کر رہی ہے۔‘ ان کے مطابق ایک اہم جزو ایسے ’ونگ مین ڈرون‘ ہیں جو لڑاکا طیاروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
پروفیسر جہارا کا ماننا ہے کہ ’اسرائیل کی تکنیکی معاونت، ہیروپ اور ہیرون ڈرون کی فراہمی، انڈیا کے لیے اہم رہی جبکہ پاکستان کا ترکی اور چین پر انحصار اسلحہ کی دوڑ کو ثابت کرتا ہے۔‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ ڈرونز کا استعمال پاکستان اور انڈیا کے درمیان تنازع میں یہ ایک نیا موڑ ہے تاہم روس اور یوکرین کے درمیان ڈرون کی جنگ سے یہ مختلف ہے۔ ان کے مطابق روس اور یوکرین کی جنگ میں ڈرون کو عسکری کارروائیوں میں مرکزی کردار حاصل ہو چکا ہے اور جاسوسی سمیت اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے ہزاروں ڈرون استعمال کیے گئے ہیں۔
انڈیا کے دفاعی تجزیہ کار منوج جوشی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’لڑاکا طیاروں یا بھاری میزائلوں کے بجائے ڈرون کا استعمال ایک کم تر عسکری راستہ ہے۔ ان کے مطابق ڈرون کم اسلحہ لے کر جا سکتے ہیں تو یہ ایک محدود کارروائی ہوتی ہے۔ تاہم اگر یہ کسی وسیع فضائی کارروائی کا آغاز ہوں تو پھر معاملہ بدل جاتا ہے۔‘
اعجاز حیدر کا ماننا ہے کہ انڈیا کے زیرانتظام جموں میں حالیہ کارروائی پاکستان کی جانب سے بڑے پیمانے پر عسکری کارروائی نہیں تھی۔ یاد رہے کہ پاکستان نے جموں میں ڈرون حملے کی تردید کی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان تنازع میں یہ ایک نیا موڑ ہے تاہم روس اور یوکرین کے درمیان ڈرون کی جنگ سے یہ مختلف ہےماہرین کا ماننا ہے کہ یوکرین اور روس میں میدان جنگ کو یکسر بدلنے والے ڈرون کا پاکستان اور انڈیا کے تنازعمیں محدود اور علامتی کردار رہا ہے۔ منوج جوشی کے مطابق ’ہم جو ڈرون جنگ دیکھ رہے ہیں یہ زیادہ دیر چلنے والی نہیں ہے اور شاید یہ ایک بڑے تنازع کا آغاز ہو۔‘
اُن کا کہنا ہے کہ ’یہ تنازع کم ہونے یا بڑھنے، دونوں کا اشارہ ہو سکتے ہیں کیوںکہ دونوں کا ہی امکان موجود ہے۔ ہم ایک ایسی جگہ کھڑے ہیں جہاں سے یہ تنازع کیا رُخ اختیار کرتا ہے، واضح نہیں۔‘
اگرچہ انڈیا نے سرحد پار کیے بغیر اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے ڈرون استعمال کیے ہیں تاہم اس طریقے سے بھی چند سوال پیدا ہوتے ہیں۔
پروفیسر جہارا کے مطابق ’ڈرون جاسوسی اور سٹرائیک کے راستے فراہم کرتا ہے جس میں تنازع کو بڑھانے کا خطرہ کم ہوتا ہے لیکن ایک نئی صورتحال بھی پیدا ہوتی ہے جس میں ہر وہ ڈرون جو گرایا جائے یا ہر وہ ریڈار جو مفلوج کیا جائے، ایک ایسی ممکنہ صورت حال پیدا کر سکتا ہے جس میں تناؤ دو جوہری طاقت کے حامل ممالک کے درمیان کسی بھی وقت بڑھ سکتا ہے۔‘