روسی صدر ولادیمیر پوتن کی جانب سے رات گئے اپنے یوکرینی ہم منصب ولادیمیر زیلنسکی کو جب آئندہ جمعرات کو استنبول میں براہِ راست مذاکرات کی پیشکش کی گئی تو انھیں ایک محتاط اور سفارتی جواب ملا۔

روسی صدر ولادیمیر پوتن کی جانب سے رات گئے اپنے یوکرینی ہم منصب ولادیمیر زیلنسکی کو جب آئندہ جمعرات کو استنبول میں براہِ راست مذاکرات کی پیشکش کی گئی تو انھیں ایک محتاط اور سفارتی جواب ملا۔
یوکرینی صدر سے یہ توقع کی جا سکتی تھی کہ وہ پوتن پر کیئو اور اس کے مغربی اتحادیوں کے مطالبے یعنی 30 دن کی جنگ بندی کے لیے رضامندی ظاہر نہ کرنے پر برس پڑتے۔
لیکن اس کے برعکس سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھتے ہوئے زیلنسکی نے اسے 'ایک مثبت پیش رفت قرار دیا کہ روسیوں نے بالآخر جنگ کو ختم کرنے پر غور شروع کر دیا ہے۔'
زیلنسکی نے یہ بھی کہا کہ یوکرین کو توقع ہے کہ روس اس بات کی تصدیق کرے گا کہ وہ پیر سے شروع ہونے والی مجوزہ 30 روزہ جنگ بندی کی پابندی کرے گا۔
یہ بتانا مشکل ہے کہ آیا زیلنسکی واقعی پوتن کی براہِ راست بات چیت کی پیشکش کو ایک 'مثبت پیش رفت' کے طور پر دیکھتے ہیں۔ یہ سب بظاہر آپٹکس کے لیے بھی کیا جا سکتا ہے۔
پوتن اور زیلنسکی دونوں ہی یہ نہیں چاہتے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے ان کا تاثر امن کی راہ میں رکاوٹ کے طور پر ہو۔
اس پر ٹرمپ کا ردِعمل واضح طور پر پُرجوش تھا۔ اس سے قبل اپنے پلیٹ فارم ٹرتھ سوشل پر لکھتے ہوئے انھوں نے ایک بار پھر اشارہ دیا کہ یہ جنگ ختم ہونے کے قریب ہے۔
انھوں نے لکھا کہ 'یہ روس اور یوکرین کے لیے ممکنہ طور پر ایک عظیم دن ہے۔' پوتن نے اس دوران کہا ہے کہ وہ اس 'تنازع کی بنیادی وجوہات' کا تدارک کرنا چاہتے ہیں۔
ان کے نقطۂ نظر سے اس کا مطلب یہ ہے کہ روس چاہتا ہے کہ یوکرین ایک خوشحال اور جمہوری یورپ کا حصہ بننے کی خواہش چھوڑ دے اور ماسکو کے مدار میں واپس آ کر بیلاروس کی طرح ایک ایسی ریاست بن جائے جو روس کی حامی ہو اور اس کے مفاد میں کام کرے۔

وہ یہ بھی چاہیں گے کہ یوکرین اس بات پر رضامندی کا اظہار کرے کہ وہ کبھی بھی نیٹو میں شامل نہیں ہو گا۔
ماسکو نے سنیچر کے روز مطالبہ کیا کہ کسی بھی سیزفائر کے آغاز سے پہلے مغرب کو یوکرین کو مسلح کرنا بند کر دینا چاہیے۔
یقیناً یہ ایسا کرنے سے یوکرین کی فرنٹ لائن پر روس کی بتدریج پیشرفت کو روکنے کی قابلیت مزید کم ہو جائے گی، یا اس سے بھی بدتر یہ کہ یوکرین کے مزید حصے پر حملے کرنے کے لیے وہ بھرپور جنگ بھی کر سکتا ہے۔
یوکرین کو اپنے اتحادیوں سے جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ ایئر ڈیفنس کے لیے آلات اور اسلحہ ہے تاکہ وہ اپنے بڑے شہروں میں سرحد کے پار سے فائر کیے جانے والے ڈرونز اور میزائلوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو روک پائے۔
اتوار کو علی الصبح ہماری آنکھ روس کے فضائی حملے کے انتباہ کے بجائے گئے سائرنز سے ہوئی اور معلوم ہوا کہ روس نے مزید ڈرون لانچ کیے ہیں۔
نو مئی کو کیئو میں امریکی سفارت خانے نے اپنے شہریوں کو ایک انتباہ جاری کیا کہ 'آنے والے دنوں میں فضائی حملوں کا بڑا خطرہ' ہے۔
سب سے بڑے خدشات میں سے ایک یہ ہے کہ کریملن ایک اور اورشینک ہائپرسونک بیلسٹک میزائل لانچ کر سکتا ہے جیسا کہ اس کی افواج نے گذشتہ نومبر میں دنیپرو میں ایک فیکٹری پر فائر کیا تھا۔
اس کی رفتار آواز کی رفتار سے 10 گنا زیادہ ہونے کے علاوہ روس کا دعویٰ ہے کہ یہ میزائل 'روکا نہیں جا سکتا'۔
تو اب اہم سوال یہ ہے کہ ٹرمپ آگے کیا کرتے ہیں اور یہ معاملہ کسی کے بھی حق میں جا سکتا ہے۔
وہ یہ بھی سوچ سکتے ہیں کہ ماسکو میں ان کی ہم منصب جنگ بندی پر راضی نہ ہونے کے لیے محض ایک کے بعد دوسرا بہانہ تلاش کر رہے ہیں یا پوتن کے ساتھ ان کے تاریخی تعلقات کو دیکھتے ہوئے کیا وہ روسی رہنما کو سفارتی لائف لائن دیں گے اور یوکرین پر استنبول میں بیٹھ کر ماسکو کے مطالبات سننے کا دباؤ ڈالیں گے، قطع نظر اس کے کہ پیر کو جنگ بندی ہوتی ہے یا نہیں؟