اُردو زبان کو کئی شاہکار افسانے دینے والے کہانی کار سعادت حسن منٹو آج ہی کے روز 11 مئی 1912 کو غیرمنقسم ہندوستان کے شہر لدھیانہ کے قصبے سمبرالہ کے ایک کشمیری خاندان میں پیدا ہوئے۔اُن کی بیوی صفیہ کی تاریخِ پیدائش بھی 11 مئی 1916 ہی ہے۔ دونوں سیاہ فریم والا چشمہ لگاتے اور دونوں کا نام بھی انگریزی کے حرف ایس سے شروع ہوتا تھا مگر دونوں میں اس سے زیادہ مماثلت نہ ہونے کے باوجود بھی ’صفیہ‘ سے الگ کر کے منٹو کی زیست کا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔دنیا سعادت حسن کو بھول گئی مگر ’منٹو‘ یاد رہ گیا جس کی ایک وجہ یہ صفیہ بھی ہیں جنہوں نے ہر مشکل وقت میں اپنے شوہر کا مسکرا کر ساتھ دیا اور یوں اُردو فکشن میں سعادت حسن منٹو کو وہ مقام حاصل ہوا جو شاعری میں مرزا اسداللہ خان غالبؔ کو ہے۔آج چوںکہ دونوں کا جنم دن ہے تو اس لیے یہ مضمون صرف سعادت حسن منٹو پر ہی نہیں بلکہ صفیہ منٹو پر بھی ہے۔ افسانہ نگار نے اپنی شادی کا احوال اپنے مضمون ’میری شادی‘ میں تفصیل سے بیان کیا ہے جس کا آغاز وہ کچھ یوں کرتے ہیں:’میں نے کبھی لکھا تھا کہ میری زندگی میں تین بڑے حادثے ہیں، پہلا میری پیدائش کا جس کی تفصیلات کا مجھے کوئی علم نہیں، دوسرا میری شادی کا، تیسرا میرا افسانہ نگار بن جانے کا۔‘سعادت حسن منٹو صرف 42 سال آٹھ ماہ اور چار دن جیے مگر وہ اس مختصر زندگی میں بھی صدیوں کے برابر زندگی جی گئے۔ انہوں نے ایک بار لکھا تھا کہ ’میری زندگی اک دیوار ہے جس کا پلستر میں ناخنوں سے کھرچتا رہتا ہوں۔ کبھی چاہتا ہوں کہ اس کی تمام اینٹیں پراگندہ کر دوں، کبھی یہ جی میں آتا ہے کہ اس ملبہ کے ڈھیر پر اک نئی عمارت کھڑی کر دوں۔‘سعادت حسن منٹو اور صفیہ کا تعلق ایسا ہی تھا جیسا فیض احمد فیض اور ایلس فیض کا، یا مارکس اور جینی کا، تو آغاز شاعر شہزاد احمد کے مضمون ’صفیہ بھابھی‘ کے اس اقتباس سے کرتے ہیں: ’صٖفیہ بھابھی کو پہلی بار میں نے منٹو کے ساتھ ہی کہیں دیکھا تھا چوںکہ ان کی تصویر پہلے ہی دیکھ چکا تھا اس لیے مجھے ان کو پہچاننے میں ذرا بھی مشکل نہ ہوئی۔ ان کی شخصیت میں مجھے کسی غیرمعمولی چیز کا احساس نہیں ہوا سوائے اس کے کہ انہیں منٹو سے بے پناہ محبت تھی ایسی محبت جس کا ذکر افسانوں میں ملتا ہے مگر منٹو کے افسانوں میں نہیں ملتا۔ میرا خیال ہے کہ منٹو بھی ان سے محبت کرتا ہو گا مگر اس کا اظہار اس نے کبھی نہ کیا۔‘یہ تو شہزاد احمد کی گواہی ہو گئی۔ عصمت چغتائی منٹو اور صفیہ دونوں کے قریب تھیں۔ وہ اپنے مضمون ’میرا دوست، میرا دشمن‘ میں لکھتی ہیں کہ ’صفیہ سے مل کر میرا جی خوش ہو گیا۔ منٹوں میں ہماری اتنی گھٹ گئی کہ سر جوڑ کر پوشیدہ باتیں بھی ہونے لگیں جو صرف عورتیں ہی کرتی ہیں، جو مردوں کے کانوں کے لیے بھی نہیں ہوتیں۔ مجھے اور صفیہ کو یوں سر جوڑے کھسر پھسر کرتے دیکھ کر منٹو جل گیا اور طعنے دینے لگا۔‘عصمت چغتائی نے ان دونوں کی ان معصومانہ مگر پیار بھری شرارتوں کا خوب چٹخارے لے کر ذکر کیا ہے، وہ آگے جا کر لکھتی ہیں کہ ’ایک دن دفتر میں گرمی سے پریشان ہو کر میں نے سوچا جاکر منٹو کے یہاں آرام کرلوں، پھر واپس ملاد جاؤں۔ دروازہ حسبِ معمول کھلا ہوا تھا۔ جاکر دیکھا تو صفیہ منہ پھیلائے لیٹی ہے۔ منٹو ہاتھ میں جھاڑو لیے سٹاسٹ پلنگ کے نیچے ہاتھ مار رہا ہے اور ناک پر کرتے کا دامن رکھے میز کے نیچے جھاڑو چلا رہا ہے۔‘
عصمت چغتائی نے دونوں کی ان معصومانہ مگر پیار بھری شرارتوں کا خوب چٹخارے لے کر ذکر کیا ہے (فوٹو: راوی میگزین)
’یہ کیا کر رہے ہیں؟‘ میں نے میز کے نیچے جھانک کر پوچھا۔
’کرکٹ کھیل رہا ہوں۔‘ منٹو نے بڑی بڑی مور پنکھ پتلیاں گھما کر جواب دیا۔’یہ لیجیے ہم نے سوچا تھا ذرا آپ کے ہاں آرام کریں گے تو آپ لوگ روٹھے بیٹھے ہیں۔‘ میں نے واپس جانے کی دھمکی دی۔’ارے!‘ صفیہ اُٹھ بیٹھی۔ ’آؤ آؤ۔‘’کاہے کا جھگڑا تھا؟‘ میں نے پوچھا۔’کچھ نہیں، میں نے کہا کھانا پکانا، گرہستی وغیرہ مردوں کا کام نہیں۔ بس جیسے تم سے اُلجھتے ہیں، مجھ سے بھی اُلجھ پڑے کہ کیوں نہیں مردوں کا کام، ابھی جھاڑو دے سکتا ہوں۔ میں نے بہت روکا تو اور لڑے، کہنے لگے ایسا ہی ہے تو طلاق لے لے۔‘ صفیہ نے بسور کر کہا۔‘منٹو نے صفیہ کو طلاق دی نہ صفیہ نے کبھی منٹو سے طلاق مانگی۔ اُن دونوں کے اس رشتے میں یہ محبت ہی تھی جس نے صفیہ کو منٹو سے باندھے رکھا۔ سعادت حسن منٹو کے خود پر لکھے گئے اپنے خاکے ’منٹو‘ سے یہ اقتباس دیکھیے،’اُس نے اکثر اپنی بیوی کی غفلت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کئی کئی سو روپے اُڑائے ہیں۔ ادھر آٹھ سو لا کے دیے اور چور آنکھ سے دیکھتا رہا کہ اس نے کہاں رکھے ہیں اور دوسرے دن اس میں سے ایک سبزہ غائب کر دیا اور اس بے چاری کو جب اپنے اس نقصان کی خبر ہوئی تو اس نے نوکروں کو ڈانٹنا ڈپٹنا شروع کر دیا۔‘
سعادت حسن منٹو نے اپنی صفیہ کی بھی نہیں سنی۔ وہ پیتے رہے اور بالآخر جان سے چلے گئے (فوٹو: ٹی ایف آئی)
وہ لکھتے ہیں کہ ’یوں تو منٹو کے متعلق مشہور ہے کہ وہ راست گو ہے لیکن میں اس سے اتفاق کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ اول درجے کا جھوٹا ہے۔ شروع شروع میں اس کا جھوٹ اس کے گھر چل جاتا تھا، اس لیے کہ اس میں منٹو کا ایک خاص ٹچ ہوتا تھا لیکن بعد میں اس کی بیوی کو معلوم ہو گیا کہ اب تک مجھ سے خاص معاملے کے مطابق جو کچھ کہا جاتا تھا، جھوٹ تھا۔ منٹو جھوٹ بقدرِ کفایت بولتا ہے لیکن اس کے گھر والے، مصیبت ہے کہ اب یہ سمجھنے لگے ہیں کہ اس کی ہر بات جھوٹی ہے۔ اس تل کی طرح جو کسی عورت نے اپنے گال پر سرمے سے بنا رکھا ہو۔‘
منٹو کی زندگی کے آخری برسوں میں صفیہ نے حقیقی معنوں میں پتی ورتا بیوی کا کردار ادا کیا۔ حمید اختر اپنے مضمون ’منٹو مر گیا‘ میں اُن دنوں کا احوال کچھ یوں بیان کرتے ہیں: ’منٹو پر جب صفیہ کی کسی پابندی نے اثر نہں کیا تو انہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ مختلف تقریبات میں جانا شروع کر دیا۔ یوں کہہ لیجیے کہ وہ اُن کا سایہ بن گئیں۔‘حمید اختر لکھتے ہیں کہ ’ایک روز میں ٹی ہاؤس میں بیٹھا تھا، وہ بیوی بچوں سمیت پاس آکر بیٹھ گیا اور چھوٹتے ہی بولا ’یہ کہتی تھی ٹی ہاؤس میں کیا کرنے جاتے ہو، میں نے کہا جو عیاشی میں وہاں جا کر کرتا ہوں چلو تم بھی چل کر دیکھ لو…‘چناںچہ بار بار اُس سے کہتا ’دیکھ لو بس یہاں شام کو لوگ بیٹھ کر چائے پیتے ہیں اور گپ لگاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں وغیرہ وغیرہ۔‘وہ شام تو اس طرح خیریت سے گزر گئی لیکن اگلی شام کو وہ گھر سے اکیلا نکلا تو واپسی میں بوتل اس کے ہمراہ تھی۔سعادت حسن منٹو نے اپنی صفیہ کی بھی نہیں سنی۔ وہ پیتے رہے اور بالآخر جان سے چلے گئے۔منٹو کے بھانجے حمید جلال ’منٹو ماموں کی موت‘ میں لکھتے ہیں کہ ’رات کا پچھلا پہر تھا کہ انہوں نے اپنی بیوی کو اُٹھا کر بتایا کہ وہ شدید درد محسوس کر رہے ہیں اور اب تک بہت سا خون ضائع ہو چکا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ ان کا جگر پھٹ گیا ہے۔ ان کی بیوی نے جب یہ دیکھا کہ وہ اس صورتِ حال کا تن تنہا مقابلہ نہیں کر سکتیں تو انہوں نے گھر کے دوسرے لوگوں کو جگایا اور انہیں موت کے منہ سے نکالنے کی جدوجہد شروع ہو گئی۔‘’اس سے پہلے کئی شدید علالتوں کے بعد وہ شفایاب ہو چکے تھے، اس لیے کسی کو یہ خیال تک نہیں ہو سکتا تھا کہ اب وہ صرف چند گھنٹوں کے مہمان ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہیں آؤٹ دینے کے لیے امپائر کی انگلی اس وقت سے فضا میں بلند ہونی شروع ہوگئی تھی جب منٹو ماموں کو خون کی پہلی قے آئی تھی۔‘
سعادت حسن منٹو نے اپنی شادی کا احوال اپنے مضمون ’میری شادی‘ میں تفصیل سے بیان کیا ہے (فوٹو: فیس بک، اردو ادب)
عصمت چغتائی نے منٹو کی موت پر اپنے جذبات کا اظہار کچھ یوں کیا تھا کہ ’آج مجھے صفیہ بے طرح یاد آ رہی ہے۔ جی چاہتا ہے کہ ایک بار سر جوڑ کر ہم ویسے ہی باتیں کر سکتیں جیسے برسوں پہلے اڈلفی چیمبر میں کیا کرتے تھے۔ مگر یہ ہیں موت کی باتیں۔ اس لیے ڈرتی ہوں اور میرا قلم خشک ہو جاتا ہے۔ نہ جانے ان چند سالوں میں اس پر کیا گزری ہے۔ کسی دل سے پوچھوں کہ جب ساری دنیا نے منٹو کو فراموش کر دیا تب بھی تمہاری محبت اس طوفانی ہستی کا سہارا چٹان بن کر دیتی رہی۔ یا تمہارا پیار تھک کر نڈھال ہو چکا تھا۔‘
وہ لکھتی ہیں کہ ’تم عاجز تو نہیں آگئیں ادیبوں سے، یوں ہی خود گھسٹتے ہیں اور اپنوں کو دلدل میں گھسٹتے ہیں۔ اور پھر ایک دن اکیلا چھوڑ کر چل دیتے ہیں۔ تو بہن یہ ادیبوں کی ہی عادت نہیں، دیش کے لاکھوں کروڑوں انسان اس طرح زندگی میں ناکامی اور نامرادی کا شکار ہوتے ہیں۔ چاہے وہ ادیب ہوں یا کلرک ان کی یہی زندگی ہے اور کم و بیش یہی انجام، جو زیادہ حساس ہیں وہ پاگل ہو جاتے ہیں اور ڈھیٹ سسکتے رہتے ہیں۔‘سعادت حسن منٹو 18 جنوری 1955 کو اس جہاں سے گزر گئے۔ 22 برس بعد 1977 میں صفیہ منٹو نے آخری سانس لی مگر انہوں نے اپنی بیٹیوں کی بہترین انداز میں پرورش کی۔ صفیہ منٹو ادیبوں کی پوری نسل کی بھابھی تھیں کیوںکہ وہ اُردو کے محبوب افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی صرف شریکِ حیات ہی نہیں بلکہ ہم زاد بھی تھیں۔
یہ کہا جائے گا تو غلط نہ ہو گا کہ سعادت حسن منٹو کو منٹو بنانے میں صفیہ نے اہم کردار ادا کیا (فوٹو: دی ٹیلیگراف)
المیہ تو یہ ہے کہ اس عظیم مصنف کی موت کے بعد ان کی تحریروں کی رائلٹی کا حصول صفیہ منٹو کے لیے مشکل بنا دیا گیا۔ سعیدہ تصدق ہاشمی اپنے مضمون ’منٹو کا قاتل کون؟‘ میں لکھتی ہیں کہ ’منٹو کا شکریہ صرف بیگم صفیہ منٹو سے اجلاس کی صدارات کرانے سے ہی ادا نہیں ہو جاتا بلکہ انہیں اور ان کے بچوں کو ان کا جائز حق بھی دلواؤ اور پھر بات واقعی چل پڑی ’کوئی عملی اقدام اٹھایا جائے، قرارداد پاس کی جائے‘، ’منٹو کے پبلشروں کا گھرائو کیا جائے!‘
یہ کہا جائے گا تو غلط نہ ہو گا کہ سعادت حسن منٹو کو منٹو بنانے میں صفیہ نے اہم کردار ادا کیا، وہ منٹو جو ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘،’موذیل‘، ’ٹھنڈا گوشت‘، ’کھول دو‘ اور ’ہتک‘ سمیت کئی لازوال افسانوں کا خالق تھا جن کی موت پر کرشن چندر نے اپنے جذبات کا اظہار کچھ یوں کیا تھا کہ ’ایک عجیب حادثہ ہوا ہے۔ منٹو مر گیا ہے۔ گو وہ ایک عرصہ سے مر رہا تھا۔ کبھی سنا کہ وہ پاگل خانے میں ہے۔ کبھی سنا کہ ہسپتال میں پڑا ہے۔ کبھی سنا کہ یار دوستوں سے اس نے قطع تعلق کر لیا ہے۔ کبھی سنا کہ وہ اور اس کی بیوی بچے فاقوں پر گزر کر رہے ہیں۔ بہت سی باتیں سنیں۔ ہمیشہ بری باتیں سنیں لیکن یقین نہ آیا کیوںکہ اس عرصہ میں اس کے افسانے برابر آتے رہے۔ اچھے افسانے بھی اور برے افسانے بھی، اور ایسے افسانے بھی جنہیں پڑھ کر منٹو کا منہ نوچنے کو جی چاہتا تھا۔‘وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’مگر آج جب ریڈیو پاکستان نے یہ خبر سنائی کہ منٹو حرکتِ قلب کے بند ہو جانے سے چل بسا تو دل اور دماغ چلتے چلتے ایک لمحے کے لیے رُک گئے۔ دوسرے لمحے میں یہ یقین نہ آیا۔ دل اور دماغ نے باور نہ کیا کہ کبھی ایسا ہو سکتا ہے۔ ایک لمحہ کے لیے منٹو کا چہرہ میری نگاہوں میں گھوم گیا۔ اس کا روشن فراخ ماتھا، وہ تیکھی استہزائیہ مسکراہٹ، وہ شیر کی طرح بھڑکتا ہوا دل! کبھی بجھ سکتا ہے؟ دوسرے لمحے میں یقین کرنا پڑا۔ ریڈیو اور اخبار نویسوں نے مل کر اس کی تصدیق کر دی منٹو مر گیا ہے۔ آج کے بعد وہ کوئی نیا افسانہ نہ لکھے گا۔ آج کے بعد اُس کی خیریت کا کوئی خط نہیں آئے گا۔‘