پاکستان اور انڈیا کے ٹکراؤ یا مِنی وار ختم ہوئی۔ اللہ کا شکر ہے کہ معاملے نے طول نہیں کھینچا، خطرناک صورت اختیار نہیں کی اور جنگ بندی ہوگئی۔ امید کرنی چاہیے کہ اب معاملات درست سمت میں جائیں گے اور خطے میں امن ہوگا۔ جنگ کی کبھی خواہش نہیں کرنی چاہیے۔اس چند روزہ ٹکراؤ میں چند ایک نتائج ایسے نکلے ہیں جن سے سیکھا جا سکتا ہے اور امید ہے دونوں ممالک اپنے اپنے انداز میں کچھ نہ کچھ اس پر عمل کریں گے۔جنگ کے نتائج ہمیشہ حسب منشا نہیں نکلتے۔ جنگ کے نتیجے کے بارے میں کچھ بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔اس بار یہ ہنڈولا پاکستان کے حق میں گیا۔ اس ٹکراؤ سے یہ سبق سیکھنا چاہیے کہ جنگ کرنے، حملہ کرنے میں پہل نہ کی جائے، عجلت سے کام لینا نقصان دہ اور خطرناک ہوتا ہے۔ یہ وہ بات ہے جو انڈین حکومت اور منصوبہ ساز اب سوچ رہے ہوں گے۔
پہلگام حملے کے بعد انڈیا کو پہلے مناسب تحقیقات کرا لینی چاہیے تھی۔ عجلت میں اپنے حسبِ منشا نتیجہ اخذ کر کے ’دشمن‘ کے لیے سزا تجویز کر دی اور پھر خود ہی اس پر عمل بھی کر بیٹھے۔ ان کا خیال تھا کہ ’ہماری بے پناہ جنگی قوت، جدید ترین ہتھیار اوردنیا کے مہنگے ترین اینٹی میزائل دفاعی نظام کی موجودگی اور نہایت تگڑی معیشت کے ہوتے ہوئے ہم کر گزریں گے اور پاکستان اس کا موثر جواب نہیں دے پائے گا۔‘
ایسا مگر نہیں ہو پایا۔ معلوم ہوتا ہے کہ انڈیا نے پاکستان کوانڈرایسٹیمیٹ کیا۔ وہ پاکستانی فضائیہ میں شامل طیارے جے ٹین سی کو بہت ایزی لے گئے۔ پاکستانی دفاعی پلاننگ کو بھی سیریس نہیں لیا۔ رفال طیارے کو ضرورت سے زیادہ ناقابل شکست سمجھ لیا گیا اور سب سے بڑھ کر پاکستانی میزائلوں کا بھی درست تجزیہ نہیں کیا۔اپنے تین سطحوں پر مشتمل اینٹی میزائل دفاعی نظام پر زیادہ بھروسہ کر لیا اور یہ نہ سوچا کہ جب جنگ ہوتی ہے، تب بہت کچھ پہلی بار ٹیسٹ ہوتا ہے اور کئی بار ہائی پروفائل ہتھیار ناکام بھی ہوجاتے ہیں۔اس ٹکراؤ سے یہ سبق ملا کہ کسی بھی ملک کو اپنی قوت، عددی اور اسلحے کی برتری کے زعم میں جنگ کی طرف نہیں جانا چاہیے۔ امن وآشتی کوئی بری یا کمزور چیز نہیں۔ جہاں تک ہو سکے بات مذاکرات سے حل کرنی چاہیے۔ ٹکراؤ سے بعض اوقات امیج کو اتنا نقصان پہنچتا ہے جس کی تلافی ممکن نہیں رہتی۔اینٹی میزائل سسٹمز کا ایکسپوز ہونادنیا کے اہم ممالک اپنے لیے بہترین اینٹی میزائل سسٹم بناتے یا خریدتے ہیں، مقصد یہی ہوتا ہے کہ مخالف کے میزائل حملوں سے بچاؤ ہوسکے۔ امریکہ کا پیٹریاٹ میزائل شکن سسٹم بہت مشہور رہا ہے، پھر اسرائیل کو دیا گیا آئرن ڈوم اور اب تھاڈ سسٹم کی بڑی دھوم ہے۔
انڈیا نے رفال طیارے کو ضرورت سے زیادہ ناقابل شکست سمجھ لیا۔ (فوٹو: ایکس)
روس کے ایس چار سو (S 400)کو بھی دنیا کے ٹاپ تھری اینٹی میزائل سسٹمز میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ یہ خاصا مہنگا ہے، اس کی رینج بہت زیادہ ہے، چار سو کلومیٹر تک بتائی جاتی ہے اور یہ بیک وقت درجنوں حملہ آور طیاروں، میزائل، ڈرونز کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
چند سال پہلے ترکی نے یہ نظام روس سے خریدنا چاہا تو امریکی اتنے خفا ہوئے کہ ترکی جس کو ایف 35 طیاروں کی جوائنٹ پروڈکشن میں شامل کر رکھا تھا، اسے نکال باہر کیا گیا۔ ترکی نے اس کے باوجود ایس چارسو لے لیا۔انڈیا نے بھی کئی ارب ڈالر کی ڈیل کر کے یہ سسٹم لیا اور اس پر انہیں خاصا ناز تھا۔انڈیا میں ویسے تین سطحوں یا پرتوں پر مشتمل اینٹی میزائل دفاعی نظام تھا۔ سب سے پہلی شیلڈ ایس چار سو کی تھی، اس کے بعد اسرائیل کو دیا گیا براک آٹھ اور پھر ان کا اپنا مقامی سطح پر بنایا گیا آکاش اینٹی میزائل نظام۔یہ اور بات کہ اس ٹکراؤ میں یہ تینوں نظام ناکام ثابت ہوئے۔ پاکستان نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے جے ایف تھنڈر 17 پر نصب اپنے میزائل فتح کی مدد سے آدم پور میں نصب ایس چار سو نظام تباہ کر دیا۔ یہ ایک بڑی اور حیران کن بات ہے، مگر تکنیکی طور پر یہ ممکن ہے۔
سات مئی کی شب کو انڈیا نے مختلف شہروں میں فضائی حملے کیے۔ (فوٹو: ایکس)
میں ڈیفنس کے حوالے سے دنیا بھر کے کئی فیس بک اور ٹیلی گرام گروپس کا حصہ ہوں، جہاں مختلف ممالک کے دفاعی ماہرین، طلبہ اور ہتھیاروں میں دلچسپی رکھنے والے اپنی آرا دیتے ہیں۔ ایک ممکنہ سیناریو یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ اگر جے ایف 17 نیچی پرواز کر کے ہائپر سونک میزائل استعمال کرے تو تب ایس چار سو تباہ ہوسکتا ہے۔
ہائپر سونک سے مراد ہے کہ آواز کی رفتار سے پانچ گنا زیادہ سپیڈ یعنی چھ ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کے لگ بھگ۔ اس لیے جب سپیڈ بہت تیز ہو، پرواز نیچی ہو تو ایس چار سو کے ریڈار سسٹم کو مشکل ہوسکتی ہے اور خاص کر جب فتح جیسا میزائل ہو جو پھینکے جانے کے بعد اپنا راستہ تبدیل کر کے اینٹی میزائل سسٹم کے ریڈار کو دھوکہ دے سکے تو تب سٹرائیک کامیاب ہوسکتی ہے۔تاہم ماہرین کے مطابق یہ بہت پیچیدہ آپریشن ہے اور کامیابی کے لیے غیر معمولی مہارت اور موافق حالات بھی درکار ہیں۔یورپ کی معروف دفاعی سائٹ بلغاریہ ملٹری ریویو نے اس کو حیران کن واقعہ قرار دیا ہے۔پاکستان اور انڈیا کے ٹکراؤ کے بعد دونوں ممالک کے عسکری ماہرین اب نئی حکمت عملی بنائیں گے۔ اینٹی میزائل سسٹم کو اپ ڈیٹ کریں گے یا کچھ اور جگاڑ انہیں کرنا پڑے گا۔ ویسے پاکستان کے پاس نسبتا کم مہنگا ایچ کیو نائن (HQ9)اینٹی میزائل سسٹم ہے جو کہ چینی ساختہ ہے، یہ روسی ایس تین سو کی طرح ہے۔چینی ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں کی برتریپاکستان انڈیا ٹکراؤ کا سب سے بڑا فائدہ چین کو یوں پہنچا کہ اس کی ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں کی برتری دنیا بھر میں تسلیم کی گئی۔
2019 میں پائلٹ ابھینندن ورتھمان کی گرفتاری انڈیا کے لیے دھچکا قرار دیا جا رہا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
جے ٹین سی کو اس معرکے سے پہلے کوئی بھی دفاعی ماہر فرانسیسی رافیل کے مقابلے کا نہیں کہہ رہا تھا۔ ہر ایک کے نزدیک رافیل کو ایڈوانٹیج حاصل تھا۔ جے ٹین سی نے مگر یہ تصور غلط ثابت کر دیا۔ اب اس طیارے اور دیگر چینی فائٹر طیاروں کی ڈیمانڈ بڑھے گی۔ ایک سینیئر صحافی دوست نے دلچسپ بات کہی کہ جس طرح 80 اور 90 کے عشرے میں جاپانی ٹیکنالوجی نے دنیا بھر میں اپنی اہمیت تسلیم کرا لی تھی، اب یہ کام لگتا ہے چین کر رہا ہے۔
چین ففتھ جنریشن فائٹر طیارے بھی بنا رہا ہے۔ پاکستان تو اس طرف جائے گا ہی، لیکن اب دنیا کے دیگر ممالک بھی یہ سوچیں گے۔ چین کے سٹریٹجک پارٹنرز اور دفاعی اتحادیوں کو اب ایڈوانٹیج ملے گا۔انڈیا، امریکہ دفاعی تعاون بڑھے گاکئی دفاعی ماہرین یہ رائے دے رہے ہیں کہ اب انڈیا بہت تیزی سے امریکہ سے ایف 35 طیارے لینا چاہے گا، یہ ففتھ جنریشن سٹیلتھ فائٹر طیارے ہیں۔ البتہ اس کے لیے ضروری ہے کہ انڈیا ایس 400 کو خیرباد کہے کیونکہ امریکی طیارے روسی اینٹی میزائل سسٹم کے ساتھ مل کر نہیں چلائے جا سکتے، امریکہ اس کی اجازت نہیں دے گا۔ پھر ممکن ہے کہ انڈیا امریکہ سے پیٹریاٹ اینٹی میزائل سسٹم کی ڈیمانڈ کرے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو انڈیا کے پاس ایس 400 کے ساتھ روس سے سخوئی 57 لینے کا آپشن ہے، یہ بھی ففتھ جنریشن طیارہ ہے۔مجھے البتہ لگ رہا ہے کہ انڈیا امریکہ دفاعی تعاون بڑھے گا اور اگلے چند ماہ میں ہم کئی ارب ڈالر کی انڈیا امریکہ دفاعی ڈیلز کی خبریں پڑھ رہے ہوں گے۔ یہ اس پاکستان اور انڈیا ٹکراؤ کا فطری نتیجہ ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کا چینی ہتھیاروں پر انحصار مزید بڑھے گا۔ڈرونز بھی ایکسپوز ہوئےیوکرین، روس جنگ میں ڈرونز کا بہت اہم کردار رہا ہے۔ پاکستان انڈیا معرکے میں البتہ یہ ڈرونز زیادہ موثر ثابت نہیں ہوئے۔ انہوں نے ایک بار اپنے مخالفوں کو حیران تو کیا، مگر عملی نتائج کے حوالے سے یہ کارآمد نہیں رہے۔ انڈیا نے اسرائیلی ڈرونز استعمال کیے جو خاصے مہنگے ہیں۔ پاکستان ممکن ہے انہیں ابتدا میں ٹریس نہ کر پایا ہو، مگر آخرکار یہ سب مار گرائے گئے۔ بہت سے ڈرونز کھیتوں میں گرے، ان کی تصاویر اور ویڈیوز عام ہیں۔ اتنا مہنگا ڈرون کھیتوں میں گرنے کے لیے تو نہیں بھیجا جاتا۔
پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ بندی معاہدے کا اعلان صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان نے یہ کسی نہ کسی طرح کر دکھایا۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ پاکستانی عسکری حلقوں میں اب مخصوص اینٹی ڈرون گنز لینے اور انہیں جام کرنے کے لیے زیادہ جدید ٹیکنالوجی ڈویلپ کرنے کا خیال پیدا ہو کہ انہیں اینٹی میزائل سسٹم سے مارگرانا خطرناک ثابت ہوا۔
ایسے میں پھر اگلا حملہ اینٹی میزائل سسٹم پر ہی ہوتا ہے۔ پاکستان نے اپنا ڈرون شہپر ون، ٹو اور تھری بنائے ہیں۔ مجھے لگ رہا ہے کہ مستقبل میں پاکستانی ڈرون سسٹم مزید ڈویلپ ہوگا۔انڈیا کو اب نئی ڈاکٹرائن بنانا ہوگیانڈین عسکری ماہرین کے حوالے سے کئی دفاعی سائٹس پر مبصر یہ لکھتے ہیں کہ انڈین سمجھتے ہیں کہ نیوکلیئر آپشن سے پہلے اتنی سپیس حاصل کی جا سکتی ہے جس میں پاکستان کو دفاعی طور پر شکست دی جا سکے اور وہ نیوکلیئر آپشن پر بھی نہ جا سکے۔ ایک زمانے میں کولڈ سٹارٹ ڈاکٹرائن اسی مقصد کے لیے بنائی گئی تھی، اس کا توڑ ہوگیا۔پلوامہ اٹیک کے بعد ابھینندن والا واقعہ ہوا۔ اس کے بعد یہ سوچا گیا کہ فوراً رفال طیارے لیے جائیں اور جدید ترین اینٹی میزائل دفاعی نظام ہو، مزید ڈرونز کی خدمات بھی حاصل ہوں۔ خاص کر جب پاکستان کے جوابی میزائل حملے کو ایس 400 وغیرہ سے روک لیا جائے۔مئی کے ان چند دنوں میں یہ ڈاکٹرائن غلط اور فرسودہ ثابت ہوئی۔ پاکستان نے انڈین فضائی برتری ختم کر دی، ان کے اینٹی میزائل نظام کو تباہ کر دیا اور ڈرونز بھی مار گرائے۔ انڈین عسکری ماہرین کو اب کوئی نئی ڈاکٹرائن بنانی ہوگی یا پھر وہ جنگ کی آپشن کو پس پشت ڈال کر معاملات بات چیت کے ذریعے حل کرنے پر فوکس کریں گے۔پاکستان اور انڈیا کے ٹکراؤ کا یہ نتیجہ اگر نکلے تو اس سے خطے میں امن قائم ہوسکتا ہے۔ دیکھنا تو ویسے اب یہ بھی ہے کہ صدر ٹرمپ کی ثالثی میں کشمیر کے تنازع پر کیا تصفیہ یا پرامن حل نکالا جا سکتا ہے۔