پاکستان میں یوں تو نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی تعداد لاکھوں میں بتائی جاتی ہے، لیکن یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ اس وقت پاکستان کسٹمز کے پاس ایسی کتنی نان کسٹم پیڈ گاڑیاں موجود ہیں جو انہوں نے اپنی تحویل میں لے رکھی ہیں۔اس سوال کا جواب جاننا بھی اہم ہے کہ آیا پاکستان کسٹمز نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کو اپنی ذاتی ضرورت کے لیے استعمال کرتا ہے؟ اور پھر ان گاڑیوں کی نیلامی کا طریق کار کیا ہے؟اردو نیوز کو موصول ہونے والے پاکستان کسٹمز کے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پاکستان کسٹمز کے پاس 1665 ایسی نان کسٹم پیڈ گاڑیاں ہیں جو ان کی تحویل میں ہیں۔ انہیں کسٹم ڈیوٹی ادا نہ ہونے کی وجہ سے ضبط کر کے تحویل میں رکھا گیا ہے۔پاکستان کسٹمز کا موقف ہے کہ عمومی طور پر نان کسٹم پیڈ گاڑیاں دفتری امور کی انجام دہی کے لیے استعمال نہیں کی جاتیں، تاہم بعض اوقات قانونی تقاضے مکمل کرنے کے بعد ضرورت کے مطابق ان گاڑیوں کو محدود پیمانے پر استعمال میں لایا جاتا ہے اور ایسا بہت کم ہوتا ہے۔اردو نیوز کو موصول ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق اس وقت ملک کے 11 مختلف کلیکٹریٹس میں نان کسٹم پیڈ گاڑیاں موجود ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ گاڑیاں کلیکٹریٹ آف کسٹمز کوئٹہ میں ہیں جن کی تعداد 896 ہے۔دوسرے نمبر پر کلیکٹریٹ آف کسٹمز انفورسمنٹ کراچی ہے جہاں 245 گاڑیاں موجود ہیں جب کہ پشاور کلیکٹریٹ میں 210 گاڑیاں تحویل میں رکھی گئی ہیں۔کسٹمز کے اعداد و شمار کے مطابق کلیکٹریٹ آف کسٹمز انفورسمنٹ گڈانی میں ایسی 87 گاڑیاں موجود ہیں جنہیں نان کسٹم پیڈ ہونے کی بنیاد پر تحویل میں لیا گیا ہے جبکہ کلیکٹریٹ آف کسٹمز انفورسمنٹ حیدرآباد میں بھی اس وقت 64 گاڑیاں موجود ہیں۔اعداد و شمار کے مطابق کلیکٹریٹ آف کسٹمز لاہور میں 49 جبکہ کلیکٹریٹ آف کسٹمز اسلام آباد میں 39 گاڑیاں رکھی گئی ہیں۔
کلیکٹریٹ آف کسٹمز انفورسمنٹ کراچی میں 245 گاڑیاں موجود ہیں جب کہ پشاور کلیکٹریٹ میں 210 گاڑیاں تحویل میں رکھی گئی ہیں (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)
کلیکٹریٹ آف کسٹمز سرگودھا میں 30، ملتان میں 39، کلیکٹریٹ آف کسٹمز (ایس اے پی ٹی)کراچی میں چار اور کلیکٹریٹ آف کسٹمز (اپریزمنٹ) پی ایم بی کیو کراچی میں ایسی دو گاڑیاں موجود ہیں
کیا نان کسٹم پیڈ گاڑیاں کسٹمز افسروں کے زیرِاستعمال ہیں؟پاکستان کسٹمز کے اعداد و شمار کے مطابق کلیکٹریٹ آف کسٹمز پشاور میں ایسی دو گاڑیاں کسٹمز افسروں کو استعمال کے لیے دی گئی ہیں۔پاکستان کسٹمز کا کہنا ہے کہ ان کے پاس موجود کسی بھی نان کسٹم پیڈ گاڑی کو کسی دوسرے محکمے یا اس کے افسروں کو نہیں دیا گیا۔پاکستان کسٹمز کی دستاویزات میں بتایا گیا ہے کہ یہ گاڑیاں کسٹمز ایکٹ 1969 کے سیکشن 182 کے تحت صرف آپریشنل مقاصد کے لیے استعمال کی جا رہی ہیں۔کتنی گاڑیوں کے کیسز کسٹمز ایپلٹ ٹربیونل میں زیر سماعت ہیں؟اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر کے کلیکٹریٹس یا انفورسمنٹ یونٹس کے پاس موجود نان کسٹم پیڈ گاڑیوں میں سے 100 سے زائد گاڑیاں ایسی ہیں جن کے مقدمات اس وقت کسٹمز ایپلٹ ٹربیونل میں زیرسماعت ہیں۔پاکستان میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے حوالے سے کوئی حتمی سرکاری اعداد و شمار موجود نہیں، تاہم ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک میں اس وقت ساڑھے چار لاکھ کے لگ بھگ نان کسٹم پیڈ گاڑیاں موجود ہیں، جن میں سے بڑی تعداد خیبر پختونخوا میں ہے جبکہ ان میں سے صرف 1,28,000 گاڑیاں ایسی ہیں جو سرکاری ریکارڈ میں موجود ہیں۔
نان کسٹم پیڈ گاڑیوں میں سے 100 سے زائد گاڑیاں ایسی ہیں جن کے مقدمات اس وقت کسٹمز ایپلٹ ٹربیونل میں زیرسماعت ہیں (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)
نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی نیلامی کیسے کی جاتی ہے؟
پاکستان میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے خلاف کسٹمز حکام باقاعدہ قانونی اور انتظامی کارروائی کرتے ہیں۔ جب کسی گاڑی کے بارے میں یہ شبہ ہو کہ وہ بغیر ڈیوٹی ادا کیے ملک میں لائی گئی ہے یا اس کی درآمد غیرقانونی طریقے سے ہوئی ہے، تو کسٹمز یا قانون نافذ کرنے والے ادارے اسے ضبط کر لیتے ہیں۔اس کے بعد گاڑی کو کسٹمز ویئر ہاؤس منتقل کیا جاتا ہے جہاں اس کے انجن اور چیسز نمبر، دستاویزات اور ملکیت کی تفصیلات کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔ اگر ثابت ہو جائے کہ گاڑی کی کسٹم ڈیوٹی ادا نہیں کی گئی یا یہ سمگلنگ کے ذریعے لائی گئی ہے، تو کسٹمز ایکٹ 1969 کے تحت کارروائی کی جاتی ہے۔پاکستان کسٹمز جب کسی گاڑی کے بارے میں شبہ ظاہر کرے کہ وہ بغیر ڈیوٹی ادا کیے ملک میں لائی گئی ہے تو اسے فوری طور پر ضبط کر لیا جاتا ہے اور ویئر ہاؤس میں رکھا جاتا ہے۔
گاڑی کی ضبطی کے بعد اس کے انجن، چیسز نمبر، رجسٹریشن اور درآمدی دستاویزات کی جانچ کی جاتی ہے(فائل فوٹو: العمران موٹرز، فیس بک
دستاویزات اور ملکیت کی جانچ پڑتال
گاڑی کی ضبطی کے بعد اس کے انجن، چیسز نمبر، رجسٹریشن اور درآمدی دستاویزات کی جانچ کی جاتی ہے۔ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ گاڑی نان کسٹم پیڈ ہے، تو قانونی کارروائی شروع کر دی جاتی ہے اور مالک کو نوٹس جاری کیا جاتا ہے۔وہ اگر مقررہ مدت میں اپنے دعوے کے حق میں ثبوت فراہم نہ کر سکے تو گاڑی سرکاری ملکیت قرار دے دی جاتی ہے۔پاکستان کسٹمز، فیڈرل بورڈ آف ریونیو یا متعلقہ کلیکٹریٹ کی نگرانی میں عوامی نیلامی کے ذریعے ایسی گاڑیوں کو فروخت کیا جاتا ہے۔ نیلامی سے حاصل ہونے والی رقم قومی خزانے میں جمع کروائی جاتی ہے۔