کوششوں کے باوجود انڈیا آئی ایم ایف کو پاکستان کے لیے قرض کی قسط جاری کرنے سے کیوں نہیں روک پایا؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا کا اسلام آباد کو قرض کی قسط کی اجرا رکوانے کی کوشش کرنا کسی ٹھوس نتائج کی خواہش کے بجائے محض دکھاوے کے لیے تھا۔ خود انڈیا نے اس بات کا اعتراف کیا کہ آئی ایم ایف خود قرض کو روکنے کے لیے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا اور تکنیکی رسمی کارروائیوں کا پابند ہے۔
آئی ایم ایف
Getty Images

انڈیا کی سخت مخالفت اور کوششوں کے باوجود گذشتہ ہفتے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی قرض کی قسط جاری کر دی ہے۔

انڈیا کی جانب سے مخالفت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی تھی جب انڈیا اور پاکستان کے مابین فوجی تنازع جاری تھا۔

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں پہلگام میں سیاحوں پر حملے کے بعد انڈیا نے پاکستان پر اس میں ملوث دہشتگردوں کی معاونت کا الزام لگایا تھا، پاکستان نے اس الزام کی تردید کرتے ہوئے انڈیا سے ٹھوس ثبوت دینے کا مطالبہ کیا تھا۔

اس کے بعد رواں ماہ انڈیا نے پاکستان اور اس کے زیرِ انتظام کشمیر میں مختلف مقامات کو نشانہ بنایا جس کے بعد دونوں ممالک میں کئی روز تک فوجی تنازع جاری رہا جو بالآخر امریکی ثالثی میں ختم ہوا۔

اس دوران انڈیا اور پاکستان میں سوشل میڈیا پر دیگر موضوعات کے ساتھ آئی ایم ایف بھی ٹرینڈ کرتا رہا۔

آئی ایم ایف کے ایگزیکٹیو بورڈ نے پاکستان کے لیے سات ارب ڈالرز کے قرض پروگرام کی دوسری قسط جاری کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان سختی سے آئی ایم ایف کے پروگرام پر عملدرآمد کر رہا ہے جس کے باعث ملک معاشی بحالی کی راہ پر گامزن ہے۔

عالمی ادارے کا مزید کہنا تھا کہ وہ پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی اور قدرتی آفات سے نمٹنے کی کوششوں میں ساتھ دیتا رہے گا اور اس ضمن میں مستقبل میں تقریباً 1.4 ارب ڈالرز کے مزید فنڈز جاری کیے جائیں گے۔

انڈیا کی جانب سے پاکستان کو قرض کے اجرا کی مخالفت کی دو وجوہات کی بنیاد پر کی گئی تھی۔

اپنے بیان میں انڈیا نے ماضی میں پاکستان کی قرض کے معاملے میں خراب کارکردگی اور آئی ایم یف پروگرام کے تحت لاگو کی جانے والی اصلاحات پر عملدرآمد میں ناکامی کا حوالہ دیتے ہوئے، پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ پروگرامز کی افادیت پر سوال اٹھایا تھا۔

انڈیا کی جانب سے دوسرا اعتراض یہ تھا کہ آئی ایم یف کی جانب مہیا کیے جانا والا فنڈ ’ریاستی سرپرستی میں سرحد پار دہشتگردی‘ کے لیے استعمال ہو گا۔ پاکستان ہمیشہ سے انڈیا کی جانب سے سرحد پار دہشتگردی کی ریاستی سرپرستی کے الزام کی تردید کرتا آیا ہے۔

انڈیا کا کہنا تھا کہ پاکستان کو فنڈز جاری کر کے آئی ایم ایف ناصرف خود کی اور اپنے ڈونرز کی ’عزت کو داؤ‘ پرلگا رہا ہے بلکہ یہ عالمی اقدار کا مذاق اڑانے کے مترادف بھی ہے۔

بی بی سی نے انڈیا کے الزامات پر آئی ایم ایف سے اُس کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

جہاں تک انڈیا کے پہلے دعوے کا تعلق ہے تو سنہ 1958 سے اب تک پاکستان 24 مرتبہ آئی ایم ایف کے پاس جا چکا ہے جبکہ ماضی میں متعدد حکومتوں کی جانب سے گورننس کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے معنی خیز اصلاحات نہیں کی گئی ہیں۔

پاکستان کے امریکہ میں سابق سفیر حسین حقانی کہتے ہیں کہ ’آئی ایم ایف کے پاس جانا آئی سی یو میں داخل ہونے جیسا ہے۔ اگر کوئی مریض 24، 25 مرتبہ آئی سی یو میں داخل ہوتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اس کے ساتھ کوئی بنیادی مسئلہ ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔‘

2023 میں انڈیا کی G20 صدارت کے دوران آئی ایم ایف کے ووٹنگ ڈھانچے میں اصلاحات پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا
BBC
2023 میں انڈیا کی G20 صدارت کے دوران آئی ایم ایف کے ووٹنگ ڈھانچے میں اصلاحات پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا

تاہم دہلی کی جانب سے اٹھایا جانے والا نکتہ کہ آئی ایم ایف سرحد پار دہشت گردی کی مسلسل سرپرستی کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے اور عالمی برادری کو غلط پیغام جا رہا ہے۔ یہ نکتہ کہیں زیادہ پیچیدہ ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ انڈیا بیل آؤٹ رکوانے کے لیے دباؤ ڈالنے میں ناکام رہا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا کا اسلام آباد کو قرض کی قسط کی اجرا رکوانے کی کوشش کرنا کسی ٹھوس نتائج کی خواہش کے بجائے محض دکھاوے کے لیے تھا۔

خود انڈیا نے اس بات کا اعتراف کیا کہ آئی ایم ایف خود قرض کو روکنے کے لیے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا اور تکنیکی رسمی کارروائیوں کا پابند ہے۔

انڈیا آئی ایم ایف کے 25 رکنی بورڈ کا ایک ممبر ہے اور اس لحاظ سے اس کا فنڈ میں اثرورسوخ محدود ہے۔ انڈیا آئی ایم ایف میں ایک چار ملکی گروپ کی نمائندگی کرتا ہے جس میں سری لنکا، بنگلہ دیش اور بھوٹان بھی شامل ہیں جبکہ پاکستان سینٹرل ایشیا گروپ کا رُکن ہے جس کی نمائندگی ایران کے پاس ہے۔

اقوامِ متحدہ کے برعکس جہاں ہر رُکن ملک کا ایک ووٹ ہوتا ہے، آئی ایم ایف بورڈ میں ہر ملک کے ووٹ کا دارومدار اس بات پر ہے کہ اُس ملک کی معیشت کتنی بڑی ہے اور وہ آئی ایم ایف کے فنڈز میں کتنا حصہ ڈالتا ہے۔ آئی ایم ایف میں رائج اس نظام کی بنیاد پر یہ تنقید کی جاتی ہے کہ اس میں امیر مغربی ممالک کو ترقی پذیر ممالک پر ترجیح دی جاتی ہے۔

مثال کے طور پر آئی ایم ایف میں سب سے زیادہ ووٹنگ شیئر امریکہ کے پاس ہے جو کہ کل ووٹ کا 16.49 فیصد بنتا ہے جبکہ انڈیا کے پاس محض 2.6 فیصد ووٹ ہے۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف کے قواعدوضوابط کے تحت بورڈ ممبرز کسی تجویز کے خلاف ووٹ نہیں کر سکتے۔ وہ یا تو اس کے حق میں ووٹ دے سکتے یا ووٹ دینے سے انکار کر سکتے ہیں جبکہ تمام تر فیصلے بورڈ میں اتفاقِ رائے سے ہوتے ہیں۔

ایک ماہر معاشیات جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے، نے بی بی سی کو بتایا کہ اس طرح طاقتور ممالک کے مفاد بورڈ کے فیصلوں کو متاثر کرتے ہیں۔

آئی ایم ایف اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں میں موجود اس مبینہ عدم توازن کو دور کرنے سے متعلق اصلاحات سنہ 2023 میں انڈیا کی زیرِ صدارت ہونے والی جی 20 کانفرنس میں پیش کی گئی تھیں۔

سابق انڈین بیوروکریٹ این کے سنگھ اور سابق امریکی سیکریٹری خزانہ لارنس سمرز نے اپنی رپورٹ میں تجویز دی تھی کہ آئی ایم ایف میں ووٹنگ کے حق اور مالی تعاون کے درمیان تعلق کو ختم کیا جائے تاکہ ’گلوبل نارتھ‘ اور ’گلوبل ساؤتھ‘ دونوں کی بہتر نمائندگی کو یقینی بنایا جا سکے تاہم اب تک ان تجاویز پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

مزید برآں، تنازعات میں گھرے ممالک کی مالی معاونت کے متعلق آئی ایم ایف کے اپنے قوانین میں حالیہ تبدیلیوں نے اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ سنہ 2023 میں آئی ایم ایف کی جانب سے یوکرین کو 15.6 ارب ڈالر کا قرض عالمی ادارے کی طرف سے جنگ میں گھرے کسی ملک کے لیے اپنی نوعیت کا پہلا قرض تھا۔

دہلی کے آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن کے میہیر شرما نے بی بی سی کو بتایا کہ آئی ایم ایف نے اپنے ہی قواعد میں ترمیم کی تاکہ یوکرین کو قرض جاری کیا جا سکے۔

حسین حقانی کہتے ہیں کہ اگر انڈیا واقعی اپنی شکایات کا ازالہ چاہتا ہے تو اس کے لیے صحیح فورم اقوام متحدہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (فیٹف) ہے۔
Reuters
حسین حقانی کہتے ہیں کہ اگر انڈیا واقعی اپنی شکایات کا ازالہ چاہتا ہے تو اس کے لیے صحیح فورم اقوام متحدہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (فیٹف) ہے

حسین حقانی کہتے ہیں کہ اگر انڈیا واقعی دہشت گردی سے متعلق اپنی شکایات کا ازالہ چاہتا ہے تو اس کے لیے صحیح فورم اقوام متحدہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (فیٹف) ہے۔

فیٹف دہشتگردی کی مالی معاونت کے معاملات دیکھتا ہے اور یہ فیصلہ کرتا ہے کہ کس ملک کو ’گرے لسٹ‘ یا ’بلیک لسٹ‘ میں ڈالا جائے۔ ان فہرستوں میں شامل ممالک آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے عالمی مالیاتی اداروں سے فنڈز حاصل نہیں کر سکتے۔

ان کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف میں اعتراض کرنے سے نہ کچھ ہونا تھا نہ ہی کچھ ہوا۔

’لیکن اگر کوئی ملک فیٹف کی لسٹ میں شامل ہوتا ہے تو اس کے کے آئی ایم ایف سے قرض حاصل کرنے میں مشکلات ہوتی ہیں اور پاکستان کے ساتھ یہ پہلے ہو چکا ہے۔‘

یاد رہے کہ شدت پسندی کے خلاف بہتر اقدامات کے نتیجے میں سنہ 2022 میں پاکستان کو باقاعدہ طور پر فیٹف کی گرے لسٹ سے نکال دیا گیا تھا۔

ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے فنڈنگ کے عمل اور ویٹو کے اختیارات کو تبدیل کرنے کی انڈیا کی کوششیں دو دھاری تلوار ثابت ہو سکتی ہیں۔

میہیر شرما کہتے ہیں کہ ایسی اصلاحات کے نتیجے یں دہلی سے زیادہ بیجنگ کو اختیارات مل جائیں گے۔

حسین حقانی بھی ان کی اس رائے سے متفق دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انڈیا کو اپنے دوطرفہ تنازعات کو کثیرالجہتی فورم پر استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ انڈیا کو ایسے فورمز پر چین کی جانب سے ویٹو کا سامنا رہا۔

انھوں نے کہا کہ ماضی میں چین نے سرحدی تنازعات کو جواز بنا کر انڈیا کی جانب سے اپنی شمال مشرقی ریاست اروناچل پردیش کے لیے ایشیائی ترقیاتی بینک سے قرض حاصل کرنے کی کوشش کو ناکام بنا دیا تھا۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.