پاکستان کا دل لاہور اپنے ثقافتی تنوع اور کھانوں کی لذت کے لیے مشہور ہے۔ اس شہر کی گلیوں میں کھانوں کی دکانیں، ریستوران اور بیکریاں لذت سے بھرپور کھانے کی مصنوعات تیار کرتی ہیں بلکہ تاریخ اور وراثت کی امین بھی ہیں۔ خاص طور پر وہ دکانیں جو انڈیا کے شہروں کے ناموں سے منسوب ہیں۔
لاہور کی ان تنگ گلیوں اور مصروف بازاروں میں آج بھی ایسی بہت سی دکانیں موجود ہیں جن کے نام انڈیا کے شہروں سے منسوب ہیں۔
دہلی، امرتسر، جالندھر، انبالہ اور ممبئی وہ نام ہیں جو صدیوں پرانی تاریخ، ہجرت کی داستانوں اور مشترکہ ثقافتی ورثے کی عکاسی کرتے ہیں۔
دہلی نہاری ہاؤس سنہ 1997
دہلی انڈیا کا دارالحکومت اور ایک تاریخی اور ثقافتی مرکز ہے جو مغلیہ عہد سے لے کر آج تک اپنے تنوع اور ترقی کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہ شہر اپنے کھانوں، خاص طور پر نہاری، کباب اور بریانی جیسے پکوانوں کے لیے جانا جاتا ہے۔
انڈیا میں لکھنئو، بھوپال اور دہلی کی نہاری مشہور ہے۔ خاص طور پر دہلی کی گلیوں میں چاندنی چوک اور جامع مسجد کے قریب کھانوں کی خوشبو ہر خاص و عام کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ چاندنی چوک دہلی کے حاجی شبراتی، حاجی سعید یا عبدالغفار نہاری والے خاصے مشہور ہیں لیکن دہلی کی اس نہاری کا ذائقہ آپ کو لاہور کینٹ کی دہلی روڈ پر واقع دہلی نہاری ہاؤس کی نہاری میں بھی مل جائے گا۔
لاہور کا دہلی نہاری ہاؤس سنہ 1997 سے نہاری کے شوقینوں کے لیے ایک ایسا مقام ہے جہاں کسی حد تک دہلی کی نہاری کا ذائقہ چھکا جا سکتا ہے۔
اس دکان کی منیجر نتاشا انعم بتاتی ہیں کہ ’یہ ان کا خاندانی کاروبار ہے جسے ان کے چچا نے سنہ 1997 میں شروع کیا تھا۔‘
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’دکان کا نام دہلی رکھا گیا ہے کیونکہ اس کی نہاری کی ترکیب (ریسیپی) انڈیا سے ہجرت کر کے آنے والے ان کے آباؤ اجداد کے ساتھ آئی تھی۔ ہم اپنی خفیہ ترکیب اور احتیاط سے تیار کردہ اجزا پر فخر کرتے ہیں۔‘
وہ نہاری کو پاکستان کا قومی کھانا قرار دیتے ہوئے بتاتی ہیں کہ نہاری پاکستان میں اپنے منفرد ذائقے کی وجہ سے لاہور اور کراچی میں مشہور ہے۔
امرتسری سویٹس شاپ سنہ 1947 میں لاہور میں کھلی تھی۔ فوٹو: اردو نیوز
نتاشا حالیہ سیاسی کشیدگی کے اثرات پر بات کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’حال ہی میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان تناؤ کی وجہ سے انڈیا میں پاکستان کے شہروں کے ناموں سے منسوب دکانوں کو نقصان پہنچایا گیا۔ یہ رویہ ہماری ثقافت میں نہیں ہے۔ ہم سنہ 1997 سے اپنا کاروبار چلا رہے ہیں اور اپنی تاریخ کا احترام کرتے ہیں۔ ہم نفرت نہیں محبت اور احترام پھیلانا چاہتے ہیں۔‘
امرتسری سویٹس شاپ سنہ 1947
امرتسر انڈین پنجاب کا ایک مقدس اور تاریخی شہر ہے جو سکھ مذہب کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ یہ شہر گولڈن ٹیمپل کے لیے عالمی سطح پر مشہور ہے۔
امرتسر اپنے امرتسری کلچے، ہریسہ، پتیسہ، چھولے اور مٹھائیوں کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ شہر انڈیا اور پاکستان کے درمیان سرحدی تجارت اور ثقافتی تبادلے کا اہم مقام رہا ہے۔
انڈیا کے اسی شہر سے منسوب ’امرتسری سویٹس شاپ‘ لاہور میں واقع ہے جو سنہ 1947 سے اپنی مٹھائیوں کے ذریعے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا رہی ہے۔ محمد اجمل ڈار یہاں گزشتہ 30 برس سے کام کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’اس دکان کے مالکان سنہ 1947 کی تقسیم کے دوران امرتسر سے ہجرت کر کے لاہور آئے تھے۔‘
اس دکان کے مالک نے اس دکان کا نام اپنے آبائی شہر کی یاد میں رکھا۔ یہ ان لوگوں کی اپنے آبائی علاقوں سے محبت کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے ان ناموں کو آج تک خود سے جوڑے رکھا ہے۔
اجمل کہتے ہیں کہ ’ہماری مٹھائیاں عالمی سطح پر مشہور ہیں۔ مانگ اتنی زیادہ ہے کہ دن بھر صارفین کا رش لگا رہتا ہے۔ ہم پورے پاکستان میں جانے جاتے ہیں۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ بھارت کے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی بھی اس دکان پر آ چکے ہیں اور وہ یہاں کی مٹھائیوں سے لطف اندوز ہوئے ہیں۔‘
اجمل ڈار سیاسی تنائو کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ ’انڈیا میں کچھ لوگ پاکستان سے متعلق ناموں کے خلاف عداوت رکھتے ہیں لیکن لاہور میں بہت سے لوگ دوسری طرف کے شہروں کے ناموں سے محبت کی وجہ سے کاروبار کرتے ہیں۔ ہم نفرت نہیں محبت پھیلاتے ہیں۔‘
ہجرت کرنے والوں نے اپنے آبائی شہروں کی یادیں ان دکانوں کے ناموں میں محفوظ کر لیں۔ فوٹو: اردو نیوز
امرتسری ہریسہ
امرتسر کی ایک اور مشہور شناخت لاہور کی نسبت روڈ پر واقع امرتسری ہریسہ ہے جو گزشتہ 60 سال سے زائد عرصے سے اپنے منفرد ذائقے کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہ دکان حاجی سراج الدین نے قائم کی تھی جو امرتسر سے ہجرت کر کے لاہور آئے تھے۔ انہوں نے اسے امرتسری ہریسہ کا نام اس لیے دیا کیوں کہ یہ ان کا آبائی شہر تھا۔ اس وقت یہ دکان ان کے پوتے شہباز ریاض چلاتے ہیں۔ ہریسہ خاص طور پر سردیوں میں بہت پسند کیا جاتا ہے لیکن لاہور کے لوگ اسے سال بھر شوق سے کھاتے ہیں۔ امرتسری ہریسہ بیف، مٹن اور دیسی مرغی کے مختلف ذائقوں میں پیش کیا جاتا ہے جو نان یا کلچے کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔
جالندھر موتی چور ہاؤس سنہ 1922
جالندھر انڈین پنجاب کا ایک صنعتی اور ثقافتی شہر ہے جو اپنی کھیلوں کی صنعت اور تاریخی مقامات کے لیے مشہور ہے۔ یہ شہر اپنی مٹھائیوں، خاص طور پر موتی چور لڈوؤں کے لیے بھی جانا جاتا ہے۔
جالندھر کا سودا والا چوک کھانوں اور مٹھائیوں کی دکانوں کا مرکز ہے۔ نیو انار کلی گنپت روڈ پر واقع جالندھر موتی چور ہاؤس سنہ 1922 سے اپنے موتی چور لڈوؤں کے لیے مشہور ہے۔ ان کی ایک برانچ لوئر مال پر ایم او اے کالج کے قریب بھی واقع ہے۔ محمد حسنین قادری یہاں چھ سال سے کام کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’اس دکان کو حاجی عبدالکریم نے قائم کیا تھا جو جالندھر سے ہجرت کر کے لاہور آئے تھے۔ دکان کا نام ان کے آبائی شہر کی یاد میں رکھا گیا ہے۔‘
حسنین بتاتے ہیں کہ ’ہمارے موتی چور لڈو خالص دیسی گھی اور دال چنا سے بنائے جاتے ہیں۔ لاہور اور کراچی سمیت ہر جگہ سے لوگ ان کا ذائقہ چکھنے آتے ہیں۔ ہماری مٹھائی سنہ 1922 سے مشہور ہے۔‘
یہ دکان اپنی روایتی ترکیب اور معیار کی وجہ سے آج بھی لوگوں کی پسندیدہ ہے۔ حسنین کہتے ہیں کہ ان کا مقصد صارفین کو وہی پرانا ذائقہ فراہم کرنا ہے جو اس دکان کے مالکان کے آباؤ اجداد جالندھر سے لائے تھے۔
انبالہ ڈیریز سنہ 1984
انڈیا کی ریاست ہریانہ میں واقع انبالہ ایک تاریخی شہر ہے جو اپنی فوجی چھاؤنی اور دودھ کی مصنوعات کے لیے مشہور ہے۔ یہ شہر انڈیا کے کھانوں، خاص طور پر مٹھائیوں اور دودھ سے بنے پکوانوں کا اہم مرکز ہے۔ انبالہ کی مارکیٹس اپنے مصالحہ جات اور کھانوں کی دکانوں کے لیے بھی جانی جاتی ہیں۔
دکان کے مالک کے مطابق نہاری کی ترکیب ہجرت کر کے آنے والے اپنے ساتھ لائے تھے۔ فوٹو: اردو نیوز
کراچی پاکستان میں سنہ 1984 میں انبالہ ڈیریز کے نام سے ایک کاروبار کا آغاز ہوا جو پاکستان کے مختلف شہروں بشمول لاہور میں پھیلا۔ فیصل ٹاؤن میں آج بھی انبالہ ڈیریز کے نام سے دکان موجود ہے جہاں لوگ دودھ سے بنے مختلف مشروبات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
لاہور کے شہری بابر سلطان انبالہ ڈیریز کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ’لاہور اپنے کھانوں کے لیے مشہور ہے اور انبالہ ڈیریز ایک ایسی جگہ ہے جہاں کا ذائقہ غیر معمولی ہے۔ لوگ یہاں شعوری طور پر اعلیٰ ذائقے کی وجہ سے آتے ہیں۔‘
بابر سلطان سمجھتے ہیں کہ لاہور ایک ایسا شہر ہے جو محبت پھیلاتا ہے۔ ’یہاں کے لوگ مہمان نواز ہیں اور جب بھی کوئی آتا ہے، اس کا کھلے دل سے استقبال کیا جاتا ہے۔ ہم اس نفرت سے متاثر نہیں ہوتے جو انڈیا میں کچھ لوگ ہمارے خلاف رکھتے ہیں۔ ہم محبت پھیلانے پر توجہ دیتے ہیں۔ یہ شہر کسی ایک شخص کا تو ہے نہیں، یہاں سب سما جاتے ہیں اور یہ سب کا شہر بن جاتا ہے۔‘
بابر کا کہنا ہے کہ ’لاہور کی بیکریوں اور مٹھائی کی دکانیں لاہور کے شہریوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہی ہیں۔’ہمیں جب اچھا کھانا ملتا ہے تو ہم اس کے لیے جاتے ہیں، چاہے اس کا نام کچھ بھی ہو۔ ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ دوسرے ان ناموں سے متاثر ہوتے ہیں ہمیں اچھا کھانا چاہیے ہوتا ہے۔‘
لاہور کی یہ دکانیں نہ صرف کھانوں کے ذریعے لوگوں کے دلوں کو جوڑ رہی ہیں بلکہ انڈیا اور پاکستان کی مشترکہ تاریخ کی یاد بھی دلاتی ہیں۔
تقسیم کے بعد ہجرت کرنے والوں نے اپنے آبائی شہروں کی یادیں ان دکانوں کے ناموں اور ذائقوں میں محفوظ کر لیں۔
دہلی نہاری، امرتسری سویٹس، امرتسری ہریسہ، جالندھر موتی چور ہاؤس اور انبالہ ڈیریز جیسی جگہوں پر جب آپ کھانا کھاتے ہیں تو آپ صرف ذائقہ نہیں چھکتے بلکہ ایک پوری تاریخ اور ثقافت کا حصہ بنتے ہیں۔
لاہور میں انڈین شہروں کے ناموں سے منسوب دیگر بھی بہت سی دکانیں موجود ہیں تاہم وہ اس قدر مشہور نہیں۔ بحریہ ٹاؤن لاہور میں ممبئی کے نام سے بریانی کی دکان ہے اور اسی طرح کچھ اور مقامات پر بھی ایسی دکانیں موجود ہیں۔
انڈین ریاست راجستھان کے علاقے اجمیر کے نام سے منسوب ایک اور بیکری گلبرگ لاہور میں بھی قائم ہے۔ صرف لاہور ہی نہیں بلکہ کراچی بھی اس طرح کے ناموں کی مشہور دکانوں کا مرکز ہے۔
حال ہی میں ممبئی بیکری حیدر آباد میں خاصا رش دیکھنے کو ملا۔ یوں کراچی پرنس روڈ پر دہلی ربڑی ہاؤس، دہلی کے مشہور پاکستان دل بہار دھی بھلے، نیو دہلی گولہ کباب، میروت کباب اور ایسی کئی دکانیں موجود ہیں جن کے نام انڈین شہروں سے منسوب ہیں۔